ایک وقت میں مصنوعی ذہانت صرف سائنس فکشن فلموں تک محدود تھی مگر اب نہ صرف یہ عملی صورت اختیار کر چکی ہے بلکہ ٹیکنالوجی کے ان شعبوں میں سے ہے جس پر سب سے زیادہ توجہ دی جا رہے ہے۔
ایک وقت میں اپنے اردگرد کی دنیا کے ڈیٹا کا تجزیہ کر کے فیصلہ کرنا انسانی دماغ کاخاصا سمجھا جاتا تھا مگر اب مشینیں وہاں اپنی جگہ بناتی جا رہی ہیں جو صرف انسانوں کا دائرہ کار سمجھا جاتا تھا۔
اگر آپ کو کہا جائے کہ سترہ کو چوبیس سے ضرب دیں تو اگر آپ دماغی حساب میں بہت اچھے ہیں تب بھی کرنے میں وقت لگے گا۔ ایک بہت سادہ کیلکولیٹر بہت ذہین انسانی دماغ سے پہلے اس سوال کا جواب نکال دے گا۔ مصنوعی ذہانت مشینوں کی اسی تیز پراسسنگ پاور کی صلاحیت کا فائدہ اٹھاتی ہے۔
اس ٹیکنالوجی کا ایک حصہ ایپلائیڈ ذہانت ہے جو کسی ایک خاص مسئلہ حل کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس کا استعمال بہت عام ہے۔ اس کی مثال دیکھ لیتے ہیں۔ اگر آپ کریڈٹ کارڈ سے خریداری کریں تو منظوری سے قبل فراڈ پکڑنے کا ایک پروگرام چلتا ہے جو فراڈ ہونے کے پیٹرن سے موازنہ کر کے ایک سیکنڈ سے چھوٹے حصے میں فراڈ پکڑ لیتا ہے۔ وقت کے ساتھ نئے پیٹرن سیکھنا اس کی اصل طاقت ہے۔ کئی ممالک کے ویزہ جاری کرنے کے فیصلے بھی اب مشینیں کرتی ہیں۔ اسی طرح عالمی سٹاک ایکسچینجوں میں ہونے والے کاروبار کا بڑا حصہ اب انسان نہیں کر رہے۔ قانونی، طبی، مواصلات اور صنعتکاری کے شعبوں میں اس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کا دوسرا پہلو جنرلایئزڈ ذہانت ہے جو نیوروسائنس سے مل کر انسانی دماغ کی طرز پر مشین بنانے کا کام ہے۔ انسانی دماغ کے کام میں نیورون کو ملاپ پر موجودسائینیپس کا بڑا کردار ہے۔ نیورون تک پہنچنے والے مختلف سگنلز پر یہ اپنی حالت میں معمولی تبدیلی کرتا رہتا ہے۔ اسی طرز پر تیارکردہ نیورومورفک سرکٹ کا کچھ ماہ قبل کامیابی سے تجربہ کیا گیا۔ اس سرکٹ نے پہلے ہاتھ سے لکھے گئے ہندسے پہچانے (جو ایک آسان کام ہے لیکن بینچ مارکنگ کے لئے کیا جاتا ہے) اور پھر اس کی پاولووین کنڈیشننگ کی گئی اور اس سب میں ڈیجیٹل سگنل کا استعمال نہیں تھا۔ اگرچہ یہ ایک اہم سنگِ میل ہے مگر ابھی عملی استعمال تک پہنچتے وقت لگے گا۔
مصنوعی ذہانت کا مستقبل پر کئی آرا ہیں۔ ایک طرف سٹیفن ہاکنگ اور ایلون مسک ہیں جو مشینوں کے غلبے کی تاریک تصویر دکھاتے ہیں مگر ابھی زیادہ سائنس دان ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ آجکل مارک زکربرگ کی ایلون مسک سے اس موضوع پر بڑی پبلک لڑائی جاری ہے۔
ایک بات طے ہے کہ مصنوعی ذہانت کے عام ہوتے جانے سے بہت سے کام جو انسان کرتے تھے، اب مشینوں کے سپرد ہوتے جائیں گے جس کے گہرے معاشرتی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ اچھے ہوں گے یا برے، اس کا فیصلہ آنے والے وقت میں ہو جائے گا لیکن تاریخ سے مدد لینی ہو تو پانچ سو سال قبل جب مشینوں نے انسان کی جسمانی صلاحیت کا متبادل بننا شروع کیا تھا، اس پر سخت مزاحمت ہوئی تھی۔ اس وقت ادراک نہیں تھا کہ تبدیلی کے معاشرے پر کیا اثرات ہوں گے۔ دوسری بہت سے تبدیلیوں کے علاوہ غلامی کے نظام کا خاتمے میں بھی بڑا اہم کردار اس انقلاب کا ہے جس نے انسان کی جسمانی قوت کی اہمیت کو بہت کم کر دیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ذہنی صلاحیت کا متبادل تہذیب کو کس سمت لے جاتا ہے۔
اس سب میں ہمارے لئے ایک چیلنج ہے۔ ہم سولہویں صدی کے ہاتھ سے کپڑا بننے والے محنت کش کی طرح مشینوں کی مخالفت کریں گے یا ولیم لی کی مشین کو سمجھ کر اسے بنانے والے۔ کم از کم رویے کا انتخاب کرنے کے لئے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔