کبھی کسی بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن یا کسی پبلک مقام پر کسی جگہ رک کر اپنے ارد گرد حرکت کرتے چہروں کو دیکھیں ایک سیلاب سا رواں ہوتا ہے چہروں کا جو آپ کے دائیں بائیں سے گزر رہے ہوتے ہیں پانی کے ریلے کی طرح ایسا لگتا ہے جیسے کسی جھرنوں سے نکلتے پانی کے ریلوں کے بیچ موجود ایک چھوٹی سے ساکت چٹان ہیں آپ اور پانی آپکو چھو کر گزر رہا ہے
ان چہروں کا جائزہ لیں
اندازہ ہوگا کہ ہر چہرہ اپنے آپ میں ایک الگ دنیا ہے
ہر چہرہ اپنے دکھ سکھ لاد کر چل رہا ہے
کسی چہرے پر شادمانی ہے
تو کوئی فکر معاش کے غم میں مبتلا ہے
کوئی لاابالی پن لئے پھر رہا ہے
تو کوئی چہرہ متجسس نگاہیں لئے کسی کی تلاش میں کوئی تلاش کررہا ہے تو کسی کو تلاش کئے جانے کی پرواہ ہے
ٹوئیٹر پر ایک دن خاموش رہ کر دیکھیں اندازہ ہوگا کتنے ہی لوگ ہیں بے چہرہ ہوتے ہوئے بھی ایک چہرہ سجاکر کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہوتے ہیں
انکے الفاظ ہی انکا چہرہ ہوتے ہیں ان پر غور کریں
ہر چہرہ اپنی شناخت اپنے لفظوں میں چھپائے ٹوئیٹر پہ جلوہ افروز ہے
جس طرح عام زندگی میں لوگ ایک چہرے پر کئی چہرے سجا کر گھوم رہے ہوتے ہیں، ٹوئیٹر بھی ایسی ہی جلوہ گاہ ہے
ایسا ہی ریلوے اسٹیشن ہے جہاں کہیں سے آکر کہیں کو جانے والے لوگ پل بھر کو ملتے ہیں
ہر وقت ہنسنے ہنسانے والا ضروری نہیں عام زندگی میں بھی مسخرہ ہی ہو
ٹی ایل پر مار دھاڑ کرنے والا ضروری نہیں عام زندگی میں بھی جھگڑالو ہو
ہنسنے ہنسانے والا ہوسکتا ہے اپنی پریشانیوں کو مصنوعی مسکراہٹوں میں بدل رہا ہو
ٹی ایل پر لڑنے جھگڑنے والا ہوسکتا ہے عام زندگی میں ذمہ باپ، بھائی، دوست ہو
اپنے الفاظ کے پیرہن میں ملبوس لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرنے میں محتاط رہیں
انکے بارے میں اتنا ہی سوچیں جتنے ریلوے اسٹیشن پر اپنی ٹرین کے انتظار میں بیٹھے آنے جانے والے چہروں کو دیکھ کر دیتے ہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...