سحر البیان اردو کی معروف مثنوی ہے جس کے شاعر میر حسن دہلوی ہیں۔ سحر البیان کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پلاٹ، جذبات نگاری، مکالمہ نگاری، مرقع نگاری، منظر نگاری اور سراپا نگاری کے ساتھ ساتھ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تفصیل بیان کرتی ہے۔
اشاعت:
اس مثنوی کو میر حسن نے 1782ء میں لکھ لیا تھا،[1] اس وقت تک برصغیر میں چھاپہ خانہ نہیں آیا تھا، مگر کتاب عام ہوئی اور عوام و خواص میں اس کی شہرت ہو گئی، پھر فورٹ ولیم کالج کلکتہ نے 1803ء میں اسے چھاپہ خانہ سے چھاپ کر شائع کیا، اس کتاب کے دیوناگری اور گجراتی رسم الخط میں بھی نسخے چھاپے گئے۔ انڈیا آفس لائبریری برطانیہ میں اردو، دیوناگری اور گجراتی میں انیسویں صدی کی بیس مختلف طباعتیں موجود ہیں۔
خوبیاں :
اس مثنوی سے میر حسن اور ان کے دور کے مذہبی افکار و اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روایتی طرز فکر اور تصور زندگی کا جزو بن چکے تھے۔ سحر البیان اس دور کے مذہبی اعتقادات، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے جب اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ایک تہذیب بن رہی تھی، سحر البیان میں اس تہذیب کی تصویریں بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے اسی لئے اس میں مثنوی گلزار نسیم کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں، نیز اس مثنوی کا اسلوب و لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور نہیں جو بعد میں گلزار نسیم کی صورت میں نمودار ہوا۔ پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ”سحر البیان پر ایک نظر“ میں یوں لکھتے ہیں،
” اگر کوئی شخص اختلاف کرنے پر آئے تو اختلاف ہر بات سے ہوسکتا ہے اس لئے اگر کہا جائے کہ میر حسن کی مثنوی سحر البیان (جس کا پورا نام کبھی کبھی مثنوی سحر البیان یعنی مثنوی میر حسن معروف بے نظیر و بدر منیر لکھا جاتا ہے) اردو زبان کی سب سے اچھی مثنوی ہے تو کہیں کہیں سے یہ آواز ضرور آئے گی کہ یہ رائے درست نہیں ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ مثنوی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے تو شاید کسی کو شدت کے ساتھ اختلاف نہ ہوگا۔ کیونکہ کہانی اور اندازِ بیان میں ضرور کچھ ایسے عناصر ہیں جن کا مطالعہ اس کی عظمت کا پتہ دیتا ہے۔ “
.
کردار:
بے نظیر – ایک شہزادہ، ملک شاہ بادشاہ کا بیٹا ہے، بہت خوبصورت، اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والا۔
ماہ رخ پری – ایک پری، خوبصورتی، حیاداری اور عشق پسندی کے ساتھ ساتھ رقابت اور انتقام کا شدید جذبہ۔
بدر منیر – قصہ کی مرکزی کردار، شاہانہ متانت، وقار، حسن و خوبی، ناز و ادا، شان و شوکت اور عیش و محبت کا پیکر۔
نجم النساء – سب سے زیادہ شوخ اور متحرک کردار۔
کہانی:
کہانی پر شروع ہی سے تنقید کی جاتی رہی ہے کہ اس میں کوئی نیا پن نہیں ہے، کہانی میں روایتی قصہ ہی پیش کیا گيا ہے:
کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا۔ بادشاہ کو تمام نعمتیں میسر تھیں مگر اولاد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و مایوسی کے عالم میں بادشاہ دنیا ترک کر دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔ شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں۔ لیکن اس کی سلامتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ اسے بارہ سال کی عمر تک محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسمان تلے سونے نہ دیا جائے، کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام شاہی تکلفات اور ناز و نعم کے ساتھ 12 سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہوگئی تھی (حالانکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا) وہ رات کو ضد کرکے چھت پر سو جاتا ہے۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے ہوا، اسے سوتے دیکھ کر اس پر عاشق ہوگئی اور اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو جاتا ہے۔ بڑی تلاش کی گئی مگر شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغر سنی کے باعث اداس ، ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی“ کے باغ میں اترتا ہے، دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں کہ اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کو وصل کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس کی اطلا ع ماہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس آنے پر کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے۔ بدر منیر کا عجیب حال ہے، اس کی راز دار سہیلی وزیر زادی نجم النساء بے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دلاتی ہے۔ دونوں کی شادی ہو جاتی ہے خود نجم النساء فیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے۔
مثنوی سحر البیان
جب قیامت کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات محبوب کی جوانی تک پہنچتی ہے اور جب مثنوی کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات ”سحرالبیان “ تک پہنچتی ہے یہ حقیقت ہے کہ جس قدر نشہ ، خمار ، کشش اور ساحری محبوب کی جوانی میں ہوتی ہے اسی قدر یہ خصوصیت دوسری اشیاءمیں نہیں ہوتی ہیں اسی طرح سے اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی گئی ہیں مگر جو دلکشی اور ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے محروم ہیں اس لئے ہم بلا تکلف یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔
”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یکساں طور پر مقبول رہی ہیں اس مثنوی کی مقبولیت پر غور کیجئے تو بہت فنی محاسن ایسے نظر آتے ہیں جو دوسری مثنویوں میں نہیں ملتے ہیں۔ اس لئے ” سحرالبیان “ ایک مقبول عام مثنوی ہے۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پلاٹ ، جذبات نگاری ، مکالمہ نگاری ، مرقع نگاری ، منظر نگاری اور سراپا نگاری کے علاوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔
اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روائتی طرز فکر اور تصورِ زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ ”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی تصویریں بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے اسی لئے اس مثنوی ” گلزار نسیم“ کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں۔ اس مثنوی کا اسلوب و لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور نہیں جو بعد میں گلزار ِ نسیم کی صورت میں نمودار ہوا۔پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ”سحر البیان پر ایک نظر“ میں یوں لکھتے ہیں،
” اگر کوئی شخص اختلاف کرنے پر آئے تو اختلاف ہر بات سے ہوسکتا ہے اس لئے اگر کہا جائے کہ میر حسن کی مثنوی سحرالبیان (جس کا پورا نام کبھی کبھی مثنوی سحرالبیان یعنی مثنوی میر حسن معروف بے نظیر و بدر منیر لکھا جاتا ہے) اردو زبان کی سب سے اچھی مثنوی ہے تو کہیں کہیں سے یہ آواز ضرور آئے گی کہ یہ رائے درست نہیں ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ مثنوی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے تو شائد کسی کو شدت کے ساتھ اختلاف نہ ہوگا۔ کیونکہ کہانی اور انداز ِ بیان میں ضرور کچھ ایسے عناصر ہیں جس کا مطالعہ اس کی عظمت کا پتہ دیتا ہے۔
میر حسن نے کئی اور مثنویاں بھی لکھی ہیں لیکن کسی مثنوی میں یہ نہیں کہا ہے کہ،
ذرا منصفو! داد کی ہے یہ جا
کہ دریا سخن کا دیا ہے بہا
زبس عمر کی اس کہانی میں صرف
تب ایسے یہ نکلے ہیں موتی سے حرف
جوانی میں جب ہوگیا ہوں میں پیر
تب ایسے ہوئے ہیں سخن بے نظیر
نہیں مثنوی ہے یہ ایک پھلجھڑی !
مسلسل ہے موتی کی گویا لڑی
نئی طرز ہے اور نئی ہے زبان
نہیں مثنوی ہے یہ سحر البیان
یہ میر حسن کی تعلی ہو یا روایتی شاعرانہ پیرایہ بیان لیکن ہم اس کو تنقید کی بنیاد بنا کر ”سحر البیان“ پڑھیں تو بعض دلکش نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔ ”سحرالبیان “ کا مطالعہ ہم مندرجہ زیل عنوانات کے تحت کرتے ہیں ہر عنوان میں اس کی خوبیوں اور فنی محاسن پر تنقید و تبصرہ کرکے اس کی قدر و قیمت نمایاں کی جائے گی۔
سحرالبیان کا پلاٹ:۔
جہاں تک اس مثنوی کے پلاٹ کا تعلق ہے ، اس میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزا ءمختلف منشور اور منظوم ، قدیم داستانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اس کی کہانی سیدھے سادھے انداز میں یوں ہے،
کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا ۔ بادشاہ کو تمام نعمتیں میسر تھیں مگر اولاد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و مایوسی کے عالم میں بادشاہ دنیا ترک کر دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔ شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ لیکن اس کی سلامتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ بارہ سال کی عمر تک اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسما ن تلے سونے نہ دیا جائے کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام شاہی تکلفات اور ناز و نعم کے ساتھ ۱۲ سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہوگئی تھی (حالانکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا) وہ رات کو ضد کرکے چھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے ہوا ۔ اسے سوتے میں دیکھ کر اس پر عاشق ہوئی۔ او ر اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو جاتا ہے۔ بڑی تلاش کی گئی مگر شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغر سنی کے باعث اداس ، ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی “ کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کووصل کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس کی اطلا ع ما ہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس آنے پر کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے ۔ بد منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار سہیلی وزیر زاد ی نجم النساءبے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دلاتی ہے۔ دونوں کی شادی ہوجاتی ہے خود نجم النساءفیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی پلاٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،
” فنی لحاظ سے ”سحرالبیان“ کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں میر حسن کی ذہانت ، پلاٹ کی تشکیل میں بروئے کار نظرآتی ہے ”سحرالبیان“ اردو کے چند عظیم مثنویوں میں سے ہے اس میں اگرچہ محدود زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے لیکن اپنی محدودیت کے باوجود میر حسن نے جس زندگی کو پیش کیا ہے وہ ہمارے لئے دلچسپی کا وافر سامان مہیا کرتی ہے۔ مثنوی کی شہرت اور مقبولیت کا راز میر حسن کی اعلیٰ صلاحیت میں مضمر ہے۔“
تہذیب و ثقافت کی عکاسی:۔
”سحر البیان“ کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہے۔ سید عابد علی عابد اس کی تہذیبی و معاشرتی خوبیوں کا بیان یوں کرتے ہیں
”میر حسن نے جس معاشرت کی تصویر کھینچی ہے وہ نوابانِ اودھ و لکھنو سے متعلق ہے رعایا خوشحال ، پرجا فارغ البال ، ہر ہفتے کوئی نہ کوئی تقریب ، میلے ٹھیلے ، ڈیرے دار طوائفیں ، شوخ و شنگ اور چست و چالاک ناچنے والیاں ، لوگ موسیقی کے رسیا، ٹھمریوں کے بولوں کے شیدائی ، فرمانروا، داستان گوئی اور داستان طرازی کی طرف مائل ، خوبصورت باغ لگوانے کے مشتاق ، شہزادیاں اور ناز و نعمت میں پلی ہوئیں ، سات محل کی خواصیں کہ جن کا نام سن کر آنکھوں میں نور ، دل میں سرور آجائے۔“
میر حسن نے درحقیقت اس تہذیب و معاشرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ اور وہ اس سے خوب واقف تھے یہاں ہم موسیقی کی ایک محفل کی تصویر پیش کرتے ہیں جسے میر حسن کے فنی شعور نے تخلیق کیا ہے۔
موسیقی:۔
بنا ٹھاٹھ نقار خانے کا سب
مہیا کر اسبابِ عیش و طرب
دیا چوب کو پہلے تم سے ملا
لگی پھیلنے ہر طرف کو صدا
بجے شادیانے جو واں اس گھڑی
ہوئی گرد وپیش آکے خلقت کھڑی
رقص کی ایک اور محفل کا نظارہ کیجئے موقعہ یہ ہے کہ بد رمنیر اور بے نظیر کی شادی کی خوشی میں رقص و موسیقی کا اہتمام ہوتا ہے اس منظر کی تہذیبی قدر وقیمت یہ ہے کہ یہاں اس دور کی رقصائو ں کی عمدہ تصویر دی گئی ہے ان کے رقص کا انداز ، پھرتی ، جسم کے اعضاءکی حرکات اور ان سے پیدا ہونے والے تاثرات ، اس تہذیبی محفل کی قیمت بڑھاتے ہیں رقاصہ کا آرسی دیکھنا اور اس کے بعد رقص میں آنے کے لئے آستین اور مہرے کا چاک اُلٹ دینا اور نئے سرے سے انگیا درست کرنا پھر ابرو درست کرکے چست و چالاک ہوکر دوپٹہ سر پر اُلٹ کر صف چیر کر نکل آنا ۔ اس دور کے تہذیبی رقص کی تصویر پیش کرتاہے۔
انگوٹھے کی لی سامنے آرسی
وہ صورت کی دیکھ اپنی گلزار سی
اُلٹ آستیں اور مہرے کا چاک
نئے سر سے انگیا کو کر ٹھیک ٹھاک
دوپٹے کو سر پر اُلٹ اور سنھبل
یکایک وہ صف چیرآنا ، نکل
جبکہ اس دور کے فرماں روائوں کے نجوم کے قائل اور رسموں کے گھائل ہونے کا منظر تو مثنوی کی ابتداءہی میں نظر آتا ہے۔ جبکہ مختلف موقعوں پر چند رسوما ت کا بیاں بھی آیا ہے۔ اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو معاشرت و تمدن کی بڑی واضح اور جاندار تصویریں ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ مثلاً شہزادے کی پیدائش پر جس طرح مال اسباب لٹایا جاتا ہے۔ علماءو شیوخ کو جاگیریں عطا کی جاتی ہیں۔ سپاہیوں کو گھوڑے دیے جاتے ہیں ۔ ان سب سے اس معاشرے اور حکومت کی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔
امیروں کو جاگیر لشکر کوزر
وزیروں کو الماس و لعل و گوہر
جبکہ اس شعر میں تو آصف الدولہ عہد خو د بخود جھلک رہا ہے۔ جو کہ مثنوی کے آخر میں کہا گیا ہے۔
رہے شاد نواب ِ عالی جناب
کہ آصف الدولہ جس کا خطاب
ڈاکٹر وحید قریشی مثنوی ”سحر البیان “ کے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
” دراصل ”سحرالبیان “ ایسے معاشرے کی تصویر کشی ہے جسے فراغت حاصل ہے قصے کے تمام افراد اسی آسودہ حالی اور فارغ البالی کے مظہر ہیں ۔
منظر نگاری:۔
میر حسن نے منظر نگاری میں جس دقتِ نظر کا ثبوت دیا ہے وہ ان کی بھرپور فن کاری کی دلیل ہے واقعات کے ضمن میں مناظر کی جزئیات کی تفصیل ان کے ہاں اتنی گہری اور وسیع ہے کہ پورا منظر متحرک ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ میر حسن کی منظر نگاری دکھانے کے لئے ہم نے ”باغ کی تیاری“ کا نقشہ منتخب کیاہے۔ اس باغ کے منظر کو دیکھئیے آخری مغل عہد کا یہ باغ ہے اس کی تعمیر ، عمارات اور ترتیب کابیان ہو بہو مغل باغات کے مطابق ہے باغ کا نقشہ اور عمارتوں کا بیان ، بے جان تصویریں نہیں بلکہ ایک ایسا نگار خانہ ہے جس کی ہر شے متحرک ہے اور اس میں ایک ایسی تہذیب کے چہرے سے نقاب اُٹھائی جا رہی ہے جسکی تصویر کو میر حسن نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تاکہ وہ اپنے عہد کی تہذیب اور زندگی کی رونقوں کی تصویر پیش کر سکیں ۔ میر حسن فطری مناظر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں ۔
” میر حسن اس معاملہ میں یکتا ہیں کہ انہوں نے فطری مناظر کی دلکشی اور رعنائی کو اپنی روح میں جذب کیا اور پھر اس رعنائی کو پڑھنے والوں تک اس طرح منتقل کیا کہ ان کی صنعت گری کا عالم دیکھ کر بڑے سے بڑا نقاد انگشتِ بدنداں ہے۔“
باغ کی تیاری:۔
اب باغ کی تیاری کا منظر دیکھئیے مختلف پھولوں ، درختوں کے نام ہی سنیے ان کی خوشبو بھی محسوس کیجئے ۔ میر حسن نے باغ کی فضا بناتے وقت پھل ، پھول، درخت ، خوشبو، روشنی ہوا کا حسین امتزاج تیار کر دیاہے جس میں پڑھنے والا کھو کر رہ جاتا ہے۔
دیا شہ نے ترتیب اک خانہ باغ
ہو رشک سے جس کے لالے کو داغ
بنی سنگ مرمر کی چوپڑ کی نہر
گئی چار سو اس کے پانی کی لہر
غسل کا منظر:۔
رقص و موسیقی اور باغات و عمارات کے تہذیبی نقشے دیکھنے کے بعد ایک روایتی غسل کا منظر بھی دیکھئیے شہزادہ بے نظیر غسل کے لئے آتا ہے ۔ اس مقام پر کیا اہتمام ہوتا ہے کیسے کیسے لوازمات برتے جاتے ہیں یہ منظر دیکھیے
ہوا جب کہ داخل وہ حمام میں
عرق آگیا اس کے اندام میں
نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک
برسنے میں بجلی کی جیسے چمک
جلوس کی تیاری:۔
میر حسن نے یہاں جلوس کی تیاری میں اس دور کے روایتی جلوس کی بھر پور عکاسی کر دی ۔ مختلف سواریوں کا حال لکھا ہے ۔ سنہری روپہلی عماریوں کاجلوس ہے ساتھ پالکیاں ہیں اور کہار ، زربفت کی کرتیاں پہنے دبے پائوں آگے بڑھ رہے ہیں اب جلوس میں شہنائیوں کی صداآتی ہے اور نوبت کی دھیمی دھیمی صداکانوں کو بھلی لگتی ہے۔ اس منظر میں نقارچی بھی نظرآتے ہیں اس میں ہاتھیوں کی قطاریں بھی ہیں،جلوس کے آگے آگے نقیب ، چوبدار اور جلوہ دار دکھائے گئے ہیں چونکہ شہزادے کا پہلا پہلا جلوس ہے اس لئے اس کو دیکھنے خلقت کثرت سے اُمنڈ آئی ہے۔
بجاتے ہوئے شادیانے تمام
چلے آگے آگے ملے شاد کام
سوار اور پیادہ صغیر و کبیر
جلو میں تمامی امیر و وزیر
شادی کا منظر:۔
یہ منظربے نظیر کی شادی کا ہے اس تہذیبی مرقع میں شہزادوں کی روایتی شادی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اس نقشہ میں سواریاں ، آلات ، موسیقی اور شان و شوکت کے خطوط بہت روشن ہیں۔ آلات موسیقی دیکھیے یہ دھولنے رعد کی طرح گرج رہے ہیں شہنائی کی سہانی دھنیں مست کررہی ہیں ۔ طبل بج رہے ہیں سواریاں دیکھیے تو تمامی کے تخت رواں ، ہاتھی ، گھوڑے وغیرہ ملتے ہیں سامان ِ آرائش کا بیان سب سے بہتر ہے ۔ فانوس ، چراغوں کے ترپولئے، ابرک کی ٹٹی، مینے کا جھاڑ، شمعدان، آتش بازی اس تہذیبی نقشہ کی ہر شے حرکت و حرارت رکھتی ہے ۔ میر حسن کینظر پورے جلوس شادی پر ہے وہ ایک ایک شے کو نظر میں رکھ کر اس کا حال لکھتے ہیں،
وہ شہنائیوں کی سہانی دھنیں
جنہیں گو ش زہرہ مفصل سنیں
وہ طبلوں کا بجنا اور ان کی صدا
یہ گانا کہ ”اچھا بنا لاڈلا!“
شادی کے اس منظرمیں رشتہ داروں کی چھیڑ چھاڑ ، شہزادہ کا محل میں بلایا جانا ۔ آرسی مصحف کی رسم ، دولہا و دلہن سے ہنسی مذاق کی باتیں رنگ رلیاں اور رخصتی کی رسم ، کو میر حسن نے بڑی چابکدستی و صناعی سے پیش کیا ہے۔
سراپا نگاری و سامان آرائش:۔
میر حسن نے سراپا نگاری میں اس دور کے بہت سی تہذیبی اشیاءکو محفوظ کر دیا ہے۔ مثلاً زیورات سامانِ آرائش وغیرہ، وہ بدرمنیر کی پوشاک کا حا ل یوں لکھتے ہیں وہ آب رواں کی طرح ایک پسوار پہنے تھی ، ایک ہلکی پھلکی اوڑھنی تھی۔ گریباں میں الماس کا تکمہ تھا بازو پہ نورتن ڈھلک رہے تھے ۔ کرن پھول اور بالی کا نظارہ بھی تھا۔ اس کے بعد اس کے قدو قامت اور عمارات کی تفصیل بتائی ہے۔ بد منیر کے بعد بے نظیر کی پوشاک اور سامانِ آرائش کا بیان بڑا ہی مکلف ہے بے نظیر نے وہی پوشاک پہن رکھی ہے جو اس دور کے شہزادے پہنتے تھے اس کے زیورات وغیرہ کی تفصیل بھی حسن کے صناعی ہاتھوں نے خوب مہیا کردی ہے۔
کروں اس کی پوشاک کا کیا بیان
فقط ایک پسوار آب رواں
گریباں میں اک تکمہ الماس کا
ستارا سا مہتا ب کے پاس کا
جذبات نگاری:۔
میر حسن کے ہاں جذبات نگاری کے بڑے ہی اچھے اور موثر مرقعے ملتے ہیں خوشی کے عالم میں خوشی اور غم و الم اور دکھ کے مواقع پر رقت طاری ہو جاتی ہے ذرا وہ منظر دیکھیے جب بے نظیر چھت پر سے غائب ہو جاتا ہے۔ محل میں کہرام مچ جاتا ہے۔ والدین کے لئے قیامت آجاتی ہے۔ اور ہر کوئی پریشان اور حیران کھڑا ہے۔
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی
رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب
کسی نے کہا گھر ہوا یہ خراب
سنی شاہ نے جس گھڑی یہ خبر
گرا خاک پہ کہہ کے ہائے پسر
ایسی ہی دردناک تصویر اس موقعہ پر نظر آتی ہے جب شہزادی ”بد رمنیر “ شہزادہ ”بے نظیر “ کی جدائی میں بلکتی سسکتی اور روتی دھوتی دکھائی دیتی ہے ملاحظہ ہو،
گیا اس طرح جب مہینہ گزر
کہ وہ ماہ مطلق نہ آیا نظر
تو اس کا ادھر رنگ گھٹنے لگا
جگر خوں ہو مژگاں سے ٹپکنے لگا
جزئیات نگاری:۔
میرحسن نے جس واقعے کا بھی ذکر کیا اس کے ہر اک جز کو مکمل بیان کردیا مثلاً جب بادشاہ رمال کو بلا کر اولاد کے بارے میں ان سے دریافت کرتا ہے تو رمال نے اپنا کام یوں شروع کیا ۔
یہ سن کر وہ رمال طالع شناس
لگے کھنچنے زائچے بے قیاس
اس طرح میر حسن نے پوری تفصیل کے ساتھ نجومیوں کے حرکات و سکنات کو بیان کیا ہے۔ اس طرح جب بادشاہ کا بیٹا ہوتا ہے تو رقص کا اہتمام ہوتا ہے۔ میر حسن نے رقص کا منظر نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے ایسی باریک باتوں کا ذکر کیا ہے جس پر ہر شاعر کی نظرنہیں پڑتی۔
وہ گھٹنا وہ بڑھنا ادائوں کے ساتھ
دکھا نا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ
تصویر کشی:۔
”سحر البیان“ کا ایک بڑا کما ل اس کی تصویر کشی ہے۔ میر حسن نے جس منظر اور جس حالت کا جہاں بھی نقشہ کھینچا تصویر کشی کا حق ادا کردیا ۔ مولانا حالی مثنوی ” سحرالبیان“ کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں،
” غرض کے جو کچھ اس مثنوی میں بیان کیا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے تصویر کھینچ دی ہے۔ اور مسلمانوں کے اخیر دور میں سلاطین امراءکے یہاں جو حالتیں تھیں اور جو جو معاملات پیش آتے تھے۔ بعینہٰ ان کا چربہ اتار دیا ہے۔“
میر حسن نے منظر نگاری کی تصویر کشی کی ہے اس میں ایسی محاکات کا ثبوت دیا ہے پورا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ منظر دیکھئے،
وہ اُجلا سا میداں چمکتی سی ریت
لگا نور سے چاند تاروں کا کھیت
درختوں کے پتے چمکتے ہوئے
خس و خار سارے جھمکتے ہوئے
ایک موقعہ پر شہزادی کی تصویر کشی کی ہے اور بہت جیتی جاگتی تصویر ہے،
وہ بیٹھی عجب اک انداز سے
بدن کو چرائے ہوئے ناز سے
منہ آنچل سے اپنا چھپائے ہوئے
مچاتے ہوئے شرم کھائے ہوئے
مکالمہ نگاری:۔
”سحرالبیان “ میں مکالمہ نگاری نہایت فطری انداز میں موجود ہے چونکہ میر حسن کے تجربات وسیع تھے اور انھوں نے مختلف طبقے کے لوگوں میں زندگی بسر کی تھی اس لئے ان کو مختلف لوگوں کی زبان سمجھنے کا موقعہ ملا۔ جب بدر منیر سے ملاقات کرکے بے نظیر رخصت ہونے لگا تو اس نے بدر منیر سے کہا۔
کہا اب پہر کی ہے رخصت مجھے
زیادہ نہیں اس سے فرصت مجھے
بدر منیر جواب دیتی ہے
مرو تم پری پر ، وہ تم پر مرے
بس اب تم ذرا مجھ سے بیٹھو پرے
یہ سن پائوں پر گرپڑا بے نظیر
کہا کیا کروں آہ بدر منیر
سیرت کشی یا کردار نگاری:۔
”سحر البیان“ میں میر حسن کی سیرت نگاری کے بارے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قصے کے تمام کردار اس آسودہ حا ل اور فارغ البال معاشرے کے افراد ہیں جہاں دولت عام ہے اور سوائے عشق و عاشقی اور رقص و سرور کی کی محفلوں کے سوا کوئی کام نہیں یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام ہی کردار بے عملی کا نمونہ ہیں ۔ ڈاکٹر وحید قریشی ”سحرالبیان“ میں کرداروں کی اس بے عملی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں،
” حقیقت یہ ہے کہ فراغت کی زندگی سے عیاشی پیداہوئی” سحرالبیان“ کے بے عمل کردار یہی عیاش لوگ ہیں وہ واقعات کو آگے بڑھانے میں مدد نہیں کرتے بلکہ حالات کے دھارے میں بے دست و پا ہیں۔ بے نظیر دنیا بھر کے علم حاصل کرتا ہے بہادر ہے عقل مندبھی ہے لیکن اس کی زندگی میں جب بھی عمل اور پیش قدمی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہماری توقعات کو پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے اس کا باپ بھی قسمت پر شاکر ہے اور شہزادے کے گم ہونے پر اسے واویلا کرنے کے سوا کچھ کام نہیں ۔ شہزادی بدرمنیر عشق و محبت میں صرف رونا جانتی ہے غشی کے مسلسل دورے اس کی بے بسی بے چارگی کو ظاہر کرتے ہیں۔“
”سحرالبیان“ میں کرداروں کی تعداد زیادہ نہیں بادشاہ ، بے نظیر، ماہ رخ، بدر منیر، نجم النساء، مسعود شاہ اور فیروز شاہ ، ان کرداروں میں بے نظیر ، ماہ رخ، بد منیر اور نجم النساءکے کردار اہم ہیں ۔
بے نظیر:۔
بے نظیرکا کردار روائتی شہزادوں کا سا ہے بے نظیر کا کردار فعال نہیں ہے وہ اپنے کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے ۔ حالات کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ اگرچہ وہ کہانی کا مرکزی کردار ہے لیکن وہ فعال کردار نہیں ہے۔ شہزادہ بے نظیر ملک شاہ بادشاہ کا بیٹا ہے اس کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ وہ بہت خوبصورت ہے۔ اس کا ذکر میر حسن یوں کرتے ہیں،
عجب صاحبِ حسن پیدا ہوا
جسے مہر ومہ دیکھ شید ا ہوا
نظر کو نہ ہو حسن پر اسکے تاب
اسے دیکھ بے تاب ہو آفتاب
ماہ رخ پری:۔
اس کردار میں خوبصورتی ، حیاداری اور عشق پسندی کے ساتھ ساتھ رقابت اور انتقام کا جذبہ اپنی انتہائوں پر دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا تعارف یوں ہوتا ہے پرستان میں بے نظیر کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ ماہ رخ کو اپنے سرہانے دیکھتا ہے۔
یہ گھر گو کہ میرا ہے تیرا نہیں
پر اب گھر یہ تیرا ہے میرا نہیں
تیرے عشق نے مجھ کو شیدا کیا
ترا غم میرے دل میں پیدا کیا
اس کے کردا ر کا جلالی پہلو دیکھیں ، شہزادہ بے نظیر ، بدر منیر کے باغ میں مئے عشق کا جام نوش کر رہا ہے اسی عالم میں ایک جن یہ دیکھ کر ماہ رخ پری کے کان میں پورا منظر سنا دیتا ہے۔ ذرا اس غضبناکی کا یہ عالم ملاحظہ ہو۔
تجھے سیر کو میں نے گھوڑ دیا
کہ اس مالذادی کو جوڑا دیا
الگ ہم سے رہنا اور یوں چھوٹنا
یہ اوپر ہی اوپر مزے لوٹنا
بدر منیر:۔
شاہانہ متانت، وقار ، حسن و خوبی ، ناز و ادا ، شان و شوکت اور عیش و محبت کا یہ پیکر قصے کی ہیروئن ہے۔ اس کی نشست و برخاست ، گفتگو ، طور اطوار، چال ڈھال اورحسن و ذوق سے اس کا عالی جاہ شہزادی ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ میر حسن نے اس کردار کی سیرت کشی میں اتنی محنت کی ہے کہ بے اختیار واہ واہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ دیکھیں بدر منیر کس شکوہ سے باغ میں جلوہ افروز ہے۔
بر س پندرہ کا اک سن و سال
نہایت حسین اور صاحب جمال
دھرے کہنی تکیے پہ اک ناز سے
سر ِ نہر بیٹھی تھی اک انداز سے
رشک و حسدکا یہ انداز دیکھیں شہزادہ اپنی مجبوریوں کا اظہار کرتا ہے پری کی قید سے رہائی نہیں ملتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ،
مرو تم پری وہ تم پر مرے
بس اب تم ذرا مجھ سے بےٹھو پرے
میں اس طرح کا دل لگاتی نہیں
یہ شرکت تو بندی کو بھاتی نہیں
نجم النساء:۔
مثنوی”سحرالبیان “ کا سب سے زیادہ روشن ، رنگین ، شوخ اور متحرک کردار نجم النساءکا ہے۔ بقول عابد علی عابد نجم النساءکی تخلیق میں میر حسن نے اپنی ساری صنعت گری صرف کر دی ہے۔ احتشام حسین کی رائے میں سحرالبیان میں سب سےاہم کردار نجم النساءکا ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ ”سحرالبیان“ ہی میں نہیں تمام مثنویوں میں اپنی مثال آپ ہے۔ نجم النساءسحرالبیان کے کینوس پر پہلی مرتبہ اس وقت نظر آتی ہے جب شہزادہ بے نظیر ، بدر منیر کے باغ میں آچکا ہے اور بدر منیر سہیلیوں کی جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی ہے سب ہی شہزادے کے حسن سے متاثر ہوتے ہیں ۔ بدر منیر شرما جاتی ہے اور ملاقات کی ہمت نہیں رکھتی ۔ اس موقعہ پر کہانی میں نجم النساءحرکت پیدا کرتی ہے۔ اور ، دونوں کو ملانے کی ترکیب کرتی ہے شہزادی کا اشتیاق بڑھاتی ہے اور حسن و جوانی سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دیتی ہے۔
کہ اتنے میں آئی وہ دخت ِ وزیر
لگی ہنس کے کہنے کہ ”بدر منیر“
مجھے چوچلے تو خوش آتے نہیں
ترے ناز بے جایہ بھاتے نہیں
کیا ہے اگر تونے گھائل اسے
تو مت چھوڑ اب نیم بسمل اسے
اس مقام پر نجم النساءکی ذہانت قابلِ داد ہے وہ جانتی ہے کہ بدر منیر پر حجاب غالب ہے اسے توڑنے کے لئے وہ دونوں کے درمیان شراب لا کر رکھ دیتی ہے پہلے شہزادہ پیتا ہے پھر بد منیر پیتی ہے اس طرح دونوں کھل کر راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں۔
جب کہانی میں کوئی ہیچ پڑتا ہے تو نجم النساءفوراً سلجھا دیتی ہے۔ نجم النساءکے کردار میں وفاداری کا جذبہ سب سے بڑا ہوا ہے وہ جب اپنی سہیلی کو سمجھا چکتی ہے کہ اب شہزادہ نہیں آئے گا اس لئے اس کا خیال چھوڑ دے مگر وہ خیال ترک نہیں کرتی لہذا اپنی سہیلی پر جان وار کرنے کے لئے تیار ہوجاتی ہے۔ اور جوگن کا روپ اختیار کرکے بے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے۔ نجم النساءکا کردار مجموعی طور پر ایک جاندار کردار ہے۔
لگی کہنے وہ ”یوں نہ آنسو بہا“
ترے واسطے میں نے اب دکھ سہا
بس اب سر بصحرا نکلتی ہوں میں
اسے ڈھونڈلانے کو چلتی ہوں میں
”سحرالبیان “ کے تمام کرداروں میں نجم النساءکے کردار کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ یہ کردار با عمل ہے ۔ اسی کردار کے باعث”سحرالبیان“ کا پلاٹ آگے چلتا ہے۔ نجم النساءاپنے مقصد میں آخر کار کامیاب ہو کر واپس آتی ہے۔ بے نظیر اور فیروز شاہ اس کے ہمرا ہ ہیں جب شہزادی سے ملتی ہے تو اس موقعہ پر اس کی گفتگو بے حد شوخ ہے وہ کہتی ہے کہ تیرا قیدی چھڑاتے چھڑاتے ایک اور قیدی باندھ کے لے آئی ہوں پھر سب کی ملاقات ہوتی ہے۔
تیرا قیدی جا کر چھڑا لائی ہوں
اور اک اور بندھوا اُڑا لائی ہوں
مگر ایک یہ آپڑی بے بسی
کہ میں تیری خاطر بلا میں پھنسی
یہ نجم النساءکی آخری تصویر ہے جو ”سحرالبیان“ میں نظر آتی ہے یہاں وہ جوگن نہیں رہتی بحیثیت ایک دوشیزہ کے سامنے آتی ہے یہاں سے اس کی دوشیزگی نکھر آئی ہے۔ و ہ اپنے عاشق کو جلانا خوب جانتی ہے۔ اس نے سرخ جوڑا پہن رکھا ہے اس کے تمام لباس اور جسم میں جنسی کشش عود کر آئی ہے۔
وہ جوگن ہوئی تھی جو نجم النساء
جمی گرد وہ اپنے تن کی چھڑا
نہا دھو کے نکلی وہ اس شان سے
کہ الماس نکلے ہے جوں کان سے
”سحرالبیان “ زبان و بیان (اسلوب):۔
”سحرالبیان “ کے اسلوب کی مختلف خصوصیات ہیں جن کا احاطہ کرنا مشکل ہے تاہم اس کی چند خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں،
ہر داستان کی ابتداءخمریہ اشعار سے:۔
میر حسن نے ہر داستان کا آغاز خمریہ اشعار سے کیا ہے مثلاً ”داستان تولد ہونے شہزادہ بے نظیر کی کا آغاز یوں ہوتا ہے۔
خوشی سے پلا مجھ کو ساقی شراب
کوئی دن میں بجتا ہے چنگ و رباب
”داستان تیاری میں باغ“ کی ابتدا دیکھئے
مئے ارغوانی پلاساقیا
کہ تعمیر کو باغ کی دل چلا!
غرضیکہ ہر داستان کا آغاز میر حسن نے خمریہ انداز میں کیا ہے۔
زبان:۔
شاعری میں زبان کی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ میر حسن اس نکتے سے آگا ہ تھے۔ سحرالبیان کی نمایاں خصوصیت اسکی زبان ہے۔ انہوں نے سبک شریں اور نرم الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ میر حسن کی اس سادگی اور روزمرہ کو دیکھ کر محمد حسین آزاد حیرت سے پوچھتے ہیں،
” کیا اسے سو برس آگے والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں کہ جو کچھ کہا صاف وہی محاورہ اور وہی گفتگو جو اب ہم تم بول رہے ہیں۔“
انہوں نے ہر دو چار اشعار کے بعد ایک لفظ ایسا ضرور رکھا ہے ۔ کہ ان سب شعروں کا مضمون اس ایک ہی لفظ میں ادا ہو گیا ہے۔گویا اشتیاق بڑھانے کے لئے پہلے تصویر کا ایک حصہ دکھایا پھر کل تصویر سامنے رکھ دی۔
غلاف ان پہ باناتِ پرزر کے ٹانک
شتابی سے نقاروں کو سینک سانک
میرحسن کے یہا ں اگرچہ عام طور سے ساد ہ اور صاف ستھرے الفاظ نظر آتے ہیں جودور جدید کی لسانی خصوصیات کی نمائندگی کرتے ہیں اس کے یہاں ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جو دور قدیم میں دکن اور شمالی ہند سے بو لے جاتے تھے۔ مثلامیر حسن کئی جگہ نام کے بجائے ”ناوں“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
دیے شاہ نے شاہزادے کے ناوں
مشائخ کو اور پیزادوں کو گاوں
ادھر آتیاں اور ادھر جاتیاں
پھریں اپنے جوبن کو دکھلاتیاں
تشبیہات:۔
میرحسن کے ہاں حسین تشبیہات کے خزانے موجود ہیں ان کی تشبیہات کو پڑھ کر دل کلی کی طرح شگفتہ ہو جاتا ہے۔
وہ گورا بدن اور بال اس کے تر
کہے تو کہ ساون کی شام و سحر
نہانے میں یوں تھی بدن کی چمک
برسنے میں بجلی کی جیسے چمک
محاکات:۔
میر حسن کے یہاں محاکات کی حسین مثالیں نظر آتی ہیں میر حسن نے ایک جگہ بدر منیر کے بیٹھنے کا انداز دکھایا ہے
کہ زانو پہ اک پائوں کو رکھ لیا
کہ اک پائوں مونڈھے سے لٹکا دیا
ضرب المثال:۔ ”سحرالبیان“ کے بعض اشعار اس قدر رواں ہیں کہ وہ ضر ب المثال بن گئے ہیں یہ مثنوی کی سادگی و سلاست کا ثبوت ہے مثلاً
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
کسی پاس یہ دولت رہتی نہیں
سدا ناؤ کا غذ کی بہتی نہیں
صنعتوں کا استعمال:۔
میرحسن کے ہاں تشبیہا ت کے سلسلے میں قوس قزح کے جو رنگ ملتے ہیں وہ ان کی رنگینی فکر اور حسن ِ نظر کا ثبوت ہیں مگر ہم انہیں کلیتاً ان کے معاشرہ اور ماحول کی رنگینیوں سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ۔ اس دور کا مذاق ِ حسن بھی ان پر اپنے جمالیاتی تصورات کی شعائیں ڈال رہا تھا۔ میرحسن کے یہاں صنعتوں کا استعمال بھی ہے خاص طورپر صنعت ایہام جس کے لئے میر حسن نے ”مگر بسیار بشتگی بستہ شود“، کی قید لگائی تھی۔ جس پر میر حسن نے آزادی کے ساتھ کام کیا ہے۔
رعایت لفظی) کہا چاہ وا، ہیں یوسف عزیز
اری باولی چاہ میں کر تمیز
تجنیس) نہا دھو کے اس روز ایسی بنی
کہ دو دن کی جیسے ہو سچ مچ بنی
زبان کی صفائی:۔
”سحرالبیان“کی زبان میں صفائی شستگی اور روانی ہے یہ زبان میر و سودا کی زبان سے بہتر نظر آتی ہے۔ میرحسن نے محاورے روزمرہ کا استعمال بڑی خوبی سے کیا ہے۔ صنعتیں موجود ہیں لیکن وہ کلام کا ایک جزو بن کر سامنے آتی ہیں زبان کی صفائی اور شستگی کے لئے چند اشعار ،
وہ بیٹھی عجب اک انداز سے
بدن کو چرائے ہوئے ناز سے
پسینہ پسینہ ہو ا سب بدن
کہ جوں شبنم آلود ہو یاسمن
بقو ل کلیم الدین احمد، ”اہم چیز ”سحرالبیان“ میں طرز ادا ہے عبارت صاف ، پاکیزہ اور با محاورہ ہے میر حسن نے روزمرہ کا نچوڑ اس مثنوی میں رکھ دیا ہے۔
مجموعی جائزہ:۔
سحرالبیان میر حسن کی زندگی کے آخری دور کا کارنامہ ہے۔ انہوں نے اس کے لکھنے میں اپنی عمر کا ایک طویل حصہ صرف کیا۔ چنا نچہ و ہ خود اعتراف کرتے ہیں
ہر اک بات پر دل کو میں خوں کیا
تب اس طرح رنگین مضموں کیا
اس مثنوی کی سادگی پرکاری ،فن کارانہ نزاکت ، منظر کشی ، واقعہ نگاری، کردار نگاری اور تفصیل نگاری کو دیکھ کر عجیب کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ خاص طورپر میرحسن کے انداز بیان نے اس نظم کوحیات جاوید سے ہمکنار کیا ۔ ان کی شاعرانہ انداز بیان، طرز ادا اور زبان پرقدرت نے مثنوی کو کہیں غیر دلچسپ نہیں ہونے دیا۔بقول خلیل الرحمن عظمی
” واقعہ یہ ہے کہ اس تصنیف میں میر حسن نے اپنا خونِ جگر صرف کیا ہے اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کر دیاہے اپنی ذہانت و فطانت فنی آگہی و لسانی شعور کا ثبوت اس مثنوی کے ہر مصرعے سے فراہم ہے یہ کہانی نہیں تہذیبی دستاویز ہے یہ شعر نہیں صحیفہ حیات ہے۔“
میرشیرعلی افسوس مثنوی کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ
” مثنوی سحرالبیان اسم با مسمّیٰ ہے کیونکہ اس کا ہر شعر اہل ذوق کے دلوں کو لبھانے کو موہنی منتر ہے اور ہر داستان اس کی سحرسامری کا ایک دفتر ۔ کیونکہ فصاحت و بلاغت کا اس میں ایک دریا بہا ہے۔“
میر حسن خود کہتے ہیں
رہے گا جہاں میں میرا اس سے نام
کہ ہے یادگارِ جہاں یہ کلام