جشن یوم سرسید مل کے ہم منائیں گے
شان میں قصیدے ہم ان کے اب سنائیں گے
دیکھئے چمن میں اک خوشگوار موسم ہے
پھربہار آئی ہے کیا حسین عالم ہے
بلبلوں نےنغمہ یہ کیسا چھیڑ رکھا ہے
محفلوں میں پھولوں کی ذکر باغباں کا ہے
اب ہوا کے جھوکے بھی لے کے خوشبو آئیں گے
جشن یوم سرسید مل کے ہم منائیں گے
شان میں قصیدے ہم ان کے اب سنائیں گے
قوم کو جہالت سے جو اٹھا کے لایا ہے
جس نے علم و حکمت کا اک دیا جلایا ہے
درد اپنی ملت کا وہ جگر میں رکھتا تھا
قوم کی بھلائی کے کام جگ میں کرتا تھا
آج اپنے سید کی شان ہم بتائیں گے
جشن یوم سرسید مل کے ہم منائیں گے
شان میں قصیدے ہم ان کے اب سنائیں گے
دیپ سارے عالم میں آج اس کے جلتے ہیں
اس کے باغ کے بلبل آسماں میں اڑتے ہیں
کیسے کیسے گل اس کےگلستاں میں کھلتے ہیں
کس قدر حسیں موسم اس چمن میں ملتے ہیں
اس کے صحن گلشن کی بات ہم بتائیں گے
جشن یوم سرسید مل کے ہم منائیں گے
شان میں قصیدے ہم ان کے اب سنائیں گے
ان کی علمی خدمت کا جگ نے لوہا مانا ہے
کام ان کے کیسے تھے سب نے آج جانا ہے
ذکر ساری دنیا میں آج ان کا ہوتا ہے
مصلح وطن ان کو یہ جہان کہتا ہے
ہم جہاں بھی جائیں گے تیرا فیض پائیں گے
جشن یوم سرسید مل کے ہم منائیں گے
شان میں قصیدے ہم ان کے اب سنائیں گے
قوم کو جگایا ہے جس نے اک غفلت سے
علم کو بڑھایا ہے جس نے اپنی ہمت سے
ایک جدید دنیا سے آشنا کرایا ہے
اپنے ملک کو جس نے گلستاں بنایا ہے
مل کے یاد میں اس کی ہم دئے جلائیں گے
جشن یوم سرسید مل کے ہم منائیں گے
شان میں قصیدے ہم ان کے اب سنائیں گے
ایکتا محبت کا وہ پیام دیتے تھے
ساتھ میں چلو مل کریہ سبھی سے کہتے تھے
شبلی اور حالی کو وہ رفیق رکھتے تھے
قوم کی ترقی کےجس نے خواب دیکھے تھے
آج اس کا ہر سپنا کر کے سچ دکھائیں گے
جشن یوم سرسید مل کے ہم منائیں گے
شان میں قصیدے ہم ان کے اب سنائیں گے
ابر ایک فضائوں میں پھر یہاں سے اٹھے گا
فیض تیرے گلشن کا پھر جہاں میں برسے گا
پھر کوئی نیا رہبر اس جہاں میں ابھرے گا
پھر نئی صبح ہوگی آفتاب نکلے گا
دیپ علم و حکمت کے پھر سے جگمگائیں گے
جشن یوم سرسید مل کے ہم منائیں گے
شان میں قصیدے ہم ان کے اب سنائیں گے