قدیم بابلیوں کی دریافت نے شاید فیثاغورث کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
مشہور فیثاغورث تھیورم، فیثا غورث کی پیدائش سے بھی قریبا ایک ہزار سال پرانا ہے۔
جیومیٹری کا ایک مشہور مسئلہ ہے کہ ایک قائم الزاویہ مثلث میں وتر کا مربع دونوں ضلعوں کے مربعوں کے مجموعے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ ’’مسئلہ فیثا غورث‘‘ کہلاتا ہے، اگر ایک زاویہ قائمہ مثلث Right angled Triangle کی تینوں سائڈیں a, b, cہو اور وتر یعنی Hypotenuse کو ہم c سے ظاہرکریں تو اسکی حسابی شکل یہ ہوتی ہے c²=a²+b²
.لیکن اب حالیہ دریافت ہونے والی ایک گول ٹیبلٹ نے محقیقین کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہےکہ یہ مشہور مساوات، فیثا غورث کی ایجاد نہیں، بلکہ اسکی پیدائش سے بھی ہزاروں سال پرانے اسکے استعمال کے ثبوت مل رہے ہیں۔
استنبول آرکیالوجی میوزیم کے بظاہر ایک گم گشتہ کونے میں، ڈینیئل مینسفیلڈ Daniel Mansfield نے قدیم ریاضی کے سب سے بڑے سوالوں میں سے ایک کو حل کرنے والی ایک چیز کو پایا۔
سب سے پہلے 1894 میں اس علاقے سے جہاں آج کل عراق کا شہر بغداد ہے، وہاں سے ایک گول پکی ہوئی مٹی سے بنا ایک ایسا ٹیبلیٹ (تختی نما چیز) کھدائی کے زریعے نکالا گیا، – جو بیچ سے ٹوٹا ہوا تھا اور اسکے درمیان میں چند چھوٹے کھڑے اور عمودی نشانات کندہ تھے – میوزیم کے منتطمین کویہ خدشہ تھا کہ اسطرح کا ریکارڈ ماضی میں ان سے کھو گیا ہے، اور انکے پاس سے مسنگ ہے۔ لیکن 2018 میں، مینسفیلڈ کے ان باکس میں اس ٹیبلٹ کی ایک تصویر دکھائی دی۔
یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز سڈنی میں ریاضی کے سینئر لیکچرر مینسفیلڈ کو شبہ تھا کہ یہ گول ٹیبلٹ ایک اصلی ٹیبلیٹ تھی۔اسے اس کی کھدائی کا ریکارڈ ملا اور اس نے پھر تلاش شروع کردی۔ وہ جس چیز کی تلاش کر رہا تھا اس کے بارے میں کچھ الفاظ مل گئے، اور پھرایک ای میل آ گئی، اسکے پاس۔ وہ جانتا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے: بس ترکی کا سفر کرنا ہے اور میوزیم میں اس چیز کا معائنہ کرنا ہے، جسکے بارے میں ای میل آئی ہے۔
اس ٹیبلٹ کے اندر پوشیدہ نہ صرف اپلائیڈ جیومیٹری کا سب سے قدیم معلوم ڈسپلے ہے بلکہ مثلث کی ایک نئی قدیم تفہیم بھی موجودہے۔ مینس فیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ دریافت ایسی ہے کہ ریاضی کی تاریخ جسکے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں، اسے دوبارہ لکھنا پڑے گی۔
یہ نتائج جریدے فاؤنڈیشنز آف سائنس میں حالیہ شائع ہوئے۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مثلثیات (ٹرگنومیٹری) -جو جیومیٹری کا ایک ذیلی سیٹ ہے اور جو چیز اس مذکورہ ٹیبلٹ پر خام معنوں میں ظاہر ہوتی ہے – کو قدیم یونانیوں جیسے فلسفی فیثاغورث Pythagoras نے تیار کیا تھا۔
یونان کے اردگرد کے سمندر میں، جو بحیرہ ایجیئن کے نام سے مشہور ہے، ایک چھوٹا سا جزیرہ ساموس واقع ہے، جو ایشیا کوچک کے ساحل سے صرف ایک میل دور ہے۔ اس جزیرے میں 570 ق م لگ بھگ فیثا غورث پیدا ہوا۔ جب وہ بیس سال کی عمر کو پہنچا تو علم سیکھنے کی غرض سے اس نے اپنی آبائ جگہ چھوڑ دی۔ وہ پہلے بابل پہنچا جو قدیم دنیا کا سب سے مشہور شہر تھا۔ یہ عراق میں دریائے فرات کے کنارے موجود بغداد سے 60 میل کے فاصلے پر واقع تھا اور تہذیب و تمدن کا بہت پرانا مرکز تھا، چناں چہ یہاں کے رہنے والے ایسے زمانے میں بھی علوم و فنون سے مالا مال تھے جب یونانیوں کی حالت بالکل وحشیانہ تھی۔ فیثا غورث نے یہاں کے مشہور اساتذہ سے جتنا ممکن ہو سکا علم حاصل کیا، مگر اسے جس سکون کی تلاش تھی وہ اسے نہ مل سکا، اس لیے چند سال یہاں گزارنے کے بعد اس نے مشرق کی راہ لی اور کئی برس سفر کی صعوبتیں اٹھانے کے بعد وہ برصغیر پاک و ہند کے اس علاقے میں پہنچا جو موجودہ زمانے میں بہار کے نام سے موسوم ہے اور بھارت کا ایک صوبہ ہے۔ وہاں سے رخصت ہونے کے بعد فیثا غورث مصر پہنچا جہاں کے دانش ور جیومیٹری میں خاص مہارت رکھتے تھے۔
اس نے مصری عالموں سے بھی جیومیٹری کا علم حاصل کیا اور پھر اپنے غورو فکر سے اس میں چند جدید مسائل دریافت کیے جن میں سب سے مشہور وہ مسئلہ ہے جو مسئلہ فیثا غورث کے نام سے مشہور ہے۔
تاہم، اس گول ٹیبلیٹ کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فیثاغورث کی پیدائش سے بھی 1000 سال پہلے تخلیق کی گئی تھی۔اسکا مطلب یہ کہ جو مسئلہ فیثا غورث جسکو آج ہم جانتے ہیں، وہ صحیح معنوں میں فیثا غورث کی ایجاد نہیں بلکہ اس سے قدیم تہذیب، مشرق وسطیٰ کی بابلی تہذیب کی ایجاد ہے۔
قدیم بابل کی ریاضی، جو پہلے سے ہی قدیم ریاضی کے پینتھیون (مُقدس مقام یا عمارت جہاں نامور ہستیاں یا ان کی یادگاریں دفن ہوں pantheon ) میں شہرت کا مقام رکھتی ہے، شاید اس سے کہیں زیادہ نفیس رہی ہو گی جو مورخین نے اسےحیثیت دی ہے۔
مینسفیلڈ ریاضی سے متعلق ایک جریدہ انورس Inverse کو بتاتا ہے، “جس طرح سے ہم ٹرگنومیٹری کو سمجھتے ہیں کہ شائد وہ قدیم یونانی فلکیات دانوں تک ہی پہنچتا ہے۔” “میں زاویہ قائمہ مثلث Right angled Triangle کی بابل کی تفہیم کو ایک غیر متوقع پیش رفت کے طور پر سوچنا پسند کرتا ہوں، جو واقعی ایک آزاد سوچ ہے، یونانیوں کی فکری چھلانگ سے کہیں دور، کیونکہ بابلی اسے ستاروں کی پیمائش کے لیے استعمال نہیں کر رہے تھے، وہ اسے زمین کی پیمائش کے لیے استعمال کر رہے تھے۔”
ڈاکٹر مینسفیلڈ اب اس گول ٹیبلیٹ کا یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز سڈنی میں مشاہدہ و معائنہ کر رہے ہیں۔
آپ کو سب سے پہلے کیا جاننا چاہئے ؟ ڈاکٹر مینسفیلڈ سفید دستانے کے جوڑے پہنے اور اپنے ریاضیاتی تجسس کے پیچھے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔اس تازہ ترین ٹیبلیٹ کو دریافت کرنے سے کئی سال پہلے، جسے Si.427 کا نام دیا گیا تھا، مینسفیلڈ ایک اور قدیم بابلی “دستاویز:” پلمپٹن 322 کی کھوج پر تندہی سے کام کررہا تھا۔
جب کہ جہاں سے اس نمونے (Si.427 کو دریافت کیا، اس کا مقام معلوم تھا) یہ نمونہ کولمبیا یونیورسٹی، امریکہ میں فی الوقت واقع ہے) لیکن اس کا اصل مقصد نہیں معلوم تھا، کہ یہ کن مقاصد کو حل کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ Si.427 کی طرح، جو تقریباً 1900 سے 1600 قبل مسیح تک کا ہے، Plimpton 322 کچھ ہندسی اور قدیم ریاضتی علامات و نشانات پر مشتمل ہے – چند نامی گرامی پہیلیوں کے ماہرین تعلیم نے برسوں سے اسکو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ پلمپٹن Plimpton 322 مٹی کی ٹیبلٹ ، یہ پوسٹ کارڈ کے سائز کے جتنی ہے۔
جب کہ اسکے متعلق ایک ابتدائی مستند نظریہ یہ تھا کہ یہ نشانات بابل کے بچوں کی تعلیم میں دیے جانےوالے ہوم ورک کے مسائل کے حل کےلیے انکے استاد کی دھوکہ دہی کا ایک کوڈ تھے، لیکن مینسفیلڈ اور ساتھی اس پر قائل نہیں تھے۔2017 کے ایک مقالے میں، مینسفیلڈ اور ان کے ساتھیوں نے تجویز پیش کی ہے کہ Plimpton 322 قدروں کا ایک قسم کا پروٹو-ٹرگنومیٹری کی قیمتوں کا ٹیبل ہو سکتا ہے – اور یہ تجویز کرتا ہے کہ یہ ابتدائی ٹرگنومیٹری سے بھی پہلے دور کی ہے اور اسکو پہلے جیسا کہ ہم اسے آج جانتے ہیں، اس سے بھی یہ قدیم ہے۔
اس اپنے نئے مقالے میں مینسفیلڈ لکھتے ہیں، ” پلیمٹن 322 کے لیے ایک جدید تشبیہ یہ کہی جائے گی کہ اس میں ریاضی کی حل نہ ہونے والے قیاس آرائیوں کے ساتھ ساتھ ابتدائی اسکول کے مسائل کی مشقوں کا یہ مرکب ہے۔
اس مقالے کے خلاصے کے طور میں، Si.427 کو ایک کیس اسٹڈی ہونے کی دلیل دی جاتی ہے کہ اس پروٹو ٹرگنومیٹری کو عملی طور پر کھیتوں اور کھلیانوں پر کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ دستاویز جسکو SI 427 یا اسکو زمینی پیمائشی دستاویز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زمین کی ملکیت کی حدود کو دستاویز کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔میسو پوٹامیہ کے تاریخی آثار قدیمہ کے ریکارڈ پر دیگر اسطرح کی اراضی کی پیمائش کی ریاضی کے استعمال کی مثالیں موجود ہیں، لیکن مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ ٹیبلیٹ پرانے بابل کے دور کی سب سے پرانی معلوم مثال ہے – جو ایک حد 1900 BCE سے 1600 BCE تک پھیلی ہوئی ہے۔ ٹیبلیٹ پر ایک فیلڈ کے بارے میں قانونی اور جیومیٹری کی تفصیلات ہیں جو اس میں سے کچھ فروخت ہونے کے بعد تقسیم ہو گیا تھا۔
اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ Plimpton 322 کو اسی طرح استعمال کیا گیا تھا۔ یہ کسی استاد کی بجائے، ایک زمین کی پیمائش کے سرویئر کی دھوکہ دہی کی شیٹ ہو سکتی ہے۔ یہ ممکن ہے Plimpton 322 ان عملی جیومیٹری کے مسائل کا نظریاتی حل تھا جو Si.427 استعمال کرنے والے ایک سرویئر کو درپیش تھے۔
مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ “یہ ایک ایسی دریافت ہے جو ہمارے ریاضیاتی ثقافت اور علم سے بہت باہر اور بہت ہی قدیم دور ہمارے پاس آئی ہے۔ “یہ ہمارے لیے نیا اور تازہ لگتا ہے، حالانکہ یہ تقریباً 4,000 سال پرانا ہے۔بلکہ ہوسکتا ہے ہے کہ اس بھی قدیم ہو، کیونکہ اسکے ساتھ کے دیگر آثار بھی یہ بتاتے ہیں کہ فیثا غورث کے اس مجوزہ تھیورم کو میسوپوٹیمیا میں استعمال کرتے ہوئے کئی ہزار ہوچکےتھے اور اہل علم لوگ جنکو ریاضی پر عبور حاصل تھا، اسکو اپنی روز مرہ کی زندگی میں کافی استعمال کیا کرتے تھے۔ نیز اسی سےملتے جلتے تھیورم کے شواہد قدیم مصر، قدیم ہندوستان اور جہاںجہاں بابلی لوگ جاسکتے تھے، انکی معاشروں و تہذیب میں بھی ملتے ہیں۔ خود فیثا غورث نے بھی اسی تعلیمات ایک مصری علاقے، السکندریہ Alexandria سے حاصل کی تھیں جہاں فیثا غورث کی زندگی کے آخری ایام بسر ہوئے، یہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ اس فارمولے کا استعمال قدیم مصری لوگ بھی بخوبی کیا کرتے تھے۔ فلکیات اور زمین دونوں علوم میں یہ فارمولا استعمال کیا کرتے تھے۔
اگرچہ یہ ٹیبلیٹس اس قسم کی چیزیں ہیں جو آپ کسی میوزیم میں نمائش میں بغیر کسی انکا نوٹ کیے لاپرواہی سے انکے آگے آسانی سے گزر سکتے ہیں، لیکن ایک اہل اور متلاشی علم کے لیے،مینسفیلڈ نے کہا کہ یہ دریافت درحقیقت اس بات پر بہت بڑا اثر ڈال سکتی ہے کہ ہم ان قدیم ریاضی دستاویز کو کیسے سمجھتے ہیں۔
یعنی، اس کا مطلب ہے کہ ریاضی دان خود فیثاغورث کے پیدا ہونے سے بہت پہلےیہ نام نہاد فیثا غورث ٹرپلز (ایسے اعداد کی تینوں تعداد جواس مشہور مساوات c²=a²+b² کو پورا اور سیٹیفسائی کرتے ہیں) کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
یہ ایک قدرے کم علمی سوال کا جواب دینے میں بھی مدد کرتا ہے: آپ متنازعہ زمین کو یکساں طور پر کیسے تقسیم کرتے ہیں؟
“یہ مشہور ٹیبلیٹ اس دور سے ہے جہاں کسی شخص زمین نجی ہونا شروع ہو رہی ہے – لوگوں نے ‘میری زمین اور آپ کی زمین’ کے لحاظ سے زمین کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور جھکڑوں سے بچنے کے لیے مثبت پڑوسی تعلقات کے لیے ایک مناسب حد قائم کرنا چاہتے ہیں،” مینسفیلڈ نے ایک بیان میں وضاحت کی۔
“اور یہ ٹیبلیٹ اسکے حل کے لیے یہ فوراً کہتی ہے کہ یہ ایک ایسا میدان ہے جسے اسطرح تقسیم کیا جا رہا ہے، اور اسکی یہ نئی سرحدیں بنائی گئی ہیں۔یہ کیسے کام کرتا ہے؟ – جہاں تک مٹی کی ٹیبلیٹ میں خاکے بنائے گئے مثلث کے زریعے کسانوں کے کھیتوں میں کیسے انکا ترجمہ کرتے ہیں، یہ سب کچھ مخصوص عمودی لکیروں پر آتا ہے۔
بنیادی طور پر، سروے کرنے والے دو پائتھاگورین ٹرپلز (جو کہ فطری طور پر ایک زاویہ قائمہ مثلث Right angled Triangles تھے) کا انتخاب کریں گے اور نتیجے میں مستطیل کی باؤنڈری لائن کو اپنی آنکھ کے ذریعے بڑھا دیں گے تاکہ حقیقی عمودی لکیریں بنائیں جو پورے میدان میں پھیلی ہوں۔
مینسفیلڈ کہتا ہے کہ “اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے بابل کے سرویئر کو مستطیل اور زاویہ قائمہ مثلث کی جیومیٹری کی ٹھوس نظریاتی سمجھ تھی اور اس نے عملی مسائل کو حل کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا۔اور یہ اس بات کا ثبوت ہے یہ مجوزہ فیثا غورث تھیورم، بابل اور میسوپوٹیمیا میں بہت قدیم دور سے نافذ تھا اور لوگ اسکو اچھے سے جانتے تھے۔
اس مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ میدان کی جسمانی شکل کو بہتر طور پر فٹ کرنے کے لیے ان مثلثوں کا سائز تبدیل کرنے کی بھی مثالیں موجود ہیں، جسے سروے کرنے والوں نے پلمپٹن 322 جیسی ایک ٹریگنومیٹری ویلیو کے ٹیبل کا حوالہ دے کر کرنا ،منتخب کیا ہوگا۔ یہ جدول Pythagorean Triples کی ایک جامع فہرست اور ان کا سائز تبدیل کرنے کے حل اور انکی ایک جدول پر مشتمل ہوتا ہوگا۔ لیکن اب یہ جدول تاریخی ریکارڈ سے غائب ہے، پر شواہد بتاتے ہیں کہ انکے پاس یہی جدول ہوگا، جس سے وہ ٹرگنومیٹری میں زایوں کی قیمتیں نکالتے ہونگے، جیسے آج بھی ہم موجودہ دور میں کررہے ہوتے ہیں۔
مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ اس دریافت نے ریاضی کے ایک قدیم اسرار کو باقی رکھا ہو گا لیکن مجھے اور میری ٹیم کو اس پر یقین ہے کہ اور بھی بہت کچھ وہاں موجود ہے جہاں سے یہ ٹیبلیٹ آیا ہے۔”قدیم ریاضی ہماری آج کی جدید ریاضی کی طرح نفیس نہیں ہے،” وہ کہتے ہیں۔ “لیکن بعض اوقات آپ نفیس جوابات کے بجائے آسان جوابات کو ملنا چاہتے ہیں۔”
وہ وقدیم ٹیبلیٹ”صرف اس بارے میں بات نہیں کر رہا ہے کہ ریاضی کے طلباء اپنے امتحانات کو کیسا ہونا چاہتے ہیں۔” ایک سادہ نقطہ نظر کا فائدہ اس کی تیز رفتاری ہے – اور مینسفیلڈ اس بات کا جائزہ لینا چاہتےہیں کہ آیا اس نقطہ نظر میں کوئی حقیقی دنیا کی ایپلی کیشنز موجود ہیں یا نہیں۔
“یہ نقطہ نظر ایک کمپیوٹر گرافکس یا کسی بھی ایپلی کیشن میں فائدہ مند ہو سکتا ہے جہاں رفتار اس چیز کی درستگی سے زیادہ اہم ہے،” وہ کہتے ہیں۔
مقالے کا خلاصہ: Plimpton 322 قدیم دور کی سب سے زیادہ نفیس اور دلچسپ ریاضیاتی اشیاء میں سے ایک ہے۔ اسے اکثر اسکول کے مسائل کی اساتذہ کی فہرست کے طور پر شمار کیا جاتا ہے، تاہم نئے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا تعلق زمین کے سروے میں ایک خاص ہندسی مسئلہ زمین کی پیمائش سے متعلق مسائل کے حل سے ہے۔
سورس آرٹیکل
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...