تیسری دنیاکےممالک کی تاریخ پڑھی جائے،سنی جائےتو ایک چیز بہت شدت سےمحسوس ہوتی ہے۔وہ ہےمبالغہ آرائی۔جھوٹ اور فریب۔ہر کام میں اپنی تعریف اور دشمن کی تحقیر نمایاں نظر آتی ہے۔یہ سب افسانے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے گھڑے جاتے ہیں۔کشمیر ایک ایسا ہی افسانہ ہے۔جو ہم پاکستانی عوام سن رھےہیں۔
عوام کو بتایاگیاکہ پاکستان کا۔۔ک۔۔کشمیرکی طرف اشارہ کرتاہے۔نیزتصور پاکستان کے خالق علامہ اقبال خودبھی کشمیری النسل تھے۔مگردرج ذیل خط میں جو 4مارچ 1934 کولکھاگیا۔اقبال واضح طورپر لکھاکہ پاکستان انکاخیال نہیں ہے۔وہ متحدہ مسلم صوبےکے حمائتی ہیں نہ کہ ملک کے۔اب یہ سچ کہاں ہے؟
باؤنڈری کمیشن تشکیل پایاتو پاکستان کی طرف سےدو مسلمان ججزنامزدہوئے۔جسٹس دین محمد،جسٹس منیر۔ہمارے دانشوربتاتےہیں کہ گورداسپور کا ضلع اس لئےبھارت کودیاگیا کہ اسکوکشمیرتک رسائی ملے۔جبکہ حقیقت یہ ہےدیش کے نمائندوں نےیہ سوال نہیں اٹھایا۔بلکہ انکاموقف گورداسپورکی زیارات اورآبپاشی تھا۔
ضلع گورداسپور کی تحصیل فیروز پور کو بھارت کے حوالے کرنے کی ایک بڑی وجہ مہاراجہ بیکانیر بھی تھے۔جن کے علاقے کا نہرو نظام فیروز پور کینال اور بیکانیر کینال کی مرہون منت تھا۔انہوں نے وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کو دھمکی دی اگر انکے پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو وہ پاکستان سے الحاق کرلیں گے۔
1948میں بھارتی فوج سرینگر میں داخل ہوئی وزیر اعظم لیاقت علیخان نےسکندرمرزاکو قبائلی علاقوں سےمددلینے کیلئےبھیجا۔کہاجاتاہےلشکرجہاد کیلئےبنے۔شوق شھادت سے سرشارتھے۔تاریخ میں لکھاکہ لشکرکےقائدین نےبھارت سےلڑنے کیلئےپچاس لاکھ کی رشوت مانگی۔اسی لشکر نےکشمیر میں لوٹ ماربھی کی۔
اسی جہاد سے جڑا ایک عجیب واقعہ ہے۔اس لشکر کی قیادت کرنل اکبر کررھے تھے۔جن کا کوڈ نیم جنرل طارق تھا۔جو طارق بن زیاد سے مستعار تھا۔اس دوران پاک آرمی کے اسلحہ گودام سے 303 کا بڑا زخیرہ غائب ہوا۔پاک آرمی کے افسران نے اس چوری پر آنکھیں بند رکھیں۔کیا ہم پوچھ سکتے ہیں ایسا کیوں ہوا؟
کشمیر جنگ کےدوران گورنرجنرل ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان کادورہ کیا۔وزیراعظم لیاقت کےسامنےبھارتی وزیر سردارپیٹیل کی تجویزرکھی کہ پاکستان حیدرآبادپرسمجھوتہ کرے۔بھارت کشمیرپرسمجھوتے کیلئےتیارہے۔سردارشوکت نےجب وزیراعظم سےتجویز مان لینےکا کہاتوجواب ملاکیاپتھروں کی خاطرحیدرآبادکوچھوڑدیں۔!
1950کی دھائی میں چین نے لداخ کے علاقوں پر قبضہ کیا۔پاکستان کی وادئ ہنزہ کو نقشوں میں اپنا حصہ دکھایا۔اسی عرصے میں جنرل ایوب نے بھارت کو مشترکہ دفاع ک پیشکش کی۔بقول ایوب انہوں نے خاص معاہدے کا نہیں کہا تھا۔مگر مورخین کے بقول یہ اتحاد چین کے خلاف بنناتھا۔مگر نہرونے اسے مسترد کردیا۔
چین بھارت کی جنگ کےبعد پاکستان پرواضح ہوچکاتھاکہ چین کا مقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔1963میں پاک چین سرحدبندی معاہدےپردستخط ہوئے۔جسکےبعدپاکستان نے اپنا2050مربع میل علاقہ چین کودیدیا۔پہلا 16دسمبر1971تھا۔فوج نےلڑےبغیربڑا علاقہ چھوڑ دیا۔یادرھےعالمی برادری اسے قانونی سرحدنہیں مانتی ہے۔
چین سےمعاہدےکےبعدبھارت نے بھی پاکستان کوچین جیسے معاہدےکی پیشکش کی۔بھارت کشمیرکا34ہزارمربع میل علاقہ پاکستان کودیناچاھتاتھااورجنگ نہ کرنے کامعاہدہ بھی۔مگر ایوب خان نےدونوں شرائط ٹھکرا دیں۔انکے بعدوزیر خارجہ بھٹو نے بھی اپنےبھارتی ہم منصب کو انکارکردیا۔کاش یہ معاہدہ ہوجاتا۔۔
30اکتوبر1948کو پیرس میں وزیر اعظم لیاقت اور نہرو کی ملاقات ہوئی۔نہرو نےمسئلہ کشمیر کےحل کیلئےدو تجاویز پیش کیں۔پہلی کہ اسکی تقسیم اسی طرح ہو جیسے کہ بھارت اورپاکستان قبضہ کرچکے ہیں۔دوسری کہ کشمیر کوخودیہ فیصلہ کرنے دیں۔لیاقت نےدوسری شرط مان لی۔مگراسکی مزیدشرائط کی تکمیل نہ ہوسکی۔
کشمیرمیں حق خود ارادیت کیلئےشرط رکھی گئ کہ پاکستان اپنی فوج کونکالے۔جو لوگ آبادی کاتناسب بدلنےکیلئے بسائےگئےانکی شہریت منسوخ کی جائے۔فوج صرف حکومت کشمیر کےکہنےپرانکی مدد کرے۔افسوس کوئی شرط پوری نہ ہوسکی۔بقول جاوید ہاشمی کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے والا کبھی سلامت نہیں رھتا۔
آج جب بھارت نے کشمیر کو باضابطہ طور پر اپنا حصہ بنالیا ہے تو اس سے شايد ہمیں پنڈی سازش کیس،کارگل حملے،بمبئ حملے اور اڑی کے واقعات کی اصل تصویر نظر آرہی ہوگی۔کوئی تو ہے جو جال بنتا ہے۔۔اور اس میں پھنس جاتا ہے۔کاش سول حکومتیں بااختیار ہوتیں۔۔۔کاش۔!