کشمیر دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ہے جس کو انسانوں سمیت 75 لاکھ نانک شاہی میں خرید کر غلام بنایا گیا تو کبھی جابرانہ فیصلے کے ذریعے اقلیت نے اکثریت پر حکمرانی کی، انصاف کے عالمی دعویداروں نے ہمیشہ انصاف کے نام پر کشمیریوں کی نسل کشی اور تباہی کے منصوبوں کا ساتھ دیا۔ کشمیریوں نے آزادی کے لیے کئی لاکھ جانبازوں کی قربانی دی مگر عالمی قوتوں کی منافقت کے باعث آزادی کی یہ جنگ ظلم جبر اور تشدد کا نہ صرف سبب بنی بلکہ جنت نظیر وادی ایک فوجی کیمپ٬ خوف، مایوسی اور تاریکی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ کشمیر وہ خطہ ہے جس کی ماضی میں مثال خوبصورتی، سرسبز و شادابی، قدرتی حسن، بلند و بالا پہاڑ، دنیا کے بہترین پھلوں، میوﺅں، برف پوش پہاڑی سلسلوں، حسین وادیوں، یہاں کے باسیوں کے مثالی اخلاق اور جفاکشی، اسلامی دوستی، محبت و بھائی چارہ، دنیا کے مختلف خطوں میں کشمیری نوجوانوں کی مثالی خدمات اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے دی جاتی تھی اور کشمیر کا ذکر آتے ہی انہی چیزوں کا تصور ذہن میں آتا تھا مگر آج جب کوئی شخص کشمیر کا ذکر کرتا ہے تو فوراً جلاؤ گھیراؤ، فوجی کیمپ، عورتوں کی عصمت دری، خوف، ظلم و ستم، تشدد، غلامی، مایوسی، قتل و غارت، بچوں کا تاریک مستقبل، تقسیم در تقسیم لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بھارتی تسلط کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ تاہم اس سب کچھ کے باوجود کشمیریوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ بےانتہا جانی و مالی نقصانات کے باوجود کشمیر کے عظیم سپوتوں نے اپنی آزادی کا سودا نہیں کیا۔ تنازع کشمیر کو دنیا کا قدیم ترین تنازع کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر نام نہاد مہذب دنیا نے اس تنازع کو حل نہیں کیا تو شاید دنیا میں پہلی باقاعدہ عالمی ایٹمی جنگ اور پھر دنیا کی ایک بڑی تباہی کا سبب کشمیر ہی بنے گا۔ کشمیریوں کی جرات و بہادری اور بھارتی تسلط سے آزادی کے حصول کی جدوجہد سے اظہار یکجہتی کے طور پر پاکستانی قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔ یہاں ہم ریاست جموں وکشمیر اور تنازع کشمیر کے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے کچھ تاریخی حقائق پیش کریں گے۔
تاریخ و جغرافیہ:
ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں وادی کشمیر، جموں، کرگل، لداخ، بلتستان، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریاست آبادی کے حساب سے اقوام متحدہ کے 140 اور رقبے کے حساب سے 112 رکن ممالک سے بڑی ہے۔ مذکورہ بالا تمام ریجنوں کی اپنی اپنی ایک تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ دس کروڑ سال قبل یہ خطہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا مگر آہستہ آہستہ خطے کی سر زمین وجود میں آئی اور اس عمل کو بھی 10 کروڑ سال گزر چکے ہیں۔ ہزاروں سالہ تاریخ کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو کبھی کشمیر کی ریاست دہلی سے کابل، کبھی لداخ سے سندھ کے ساحل کراچی تک پھیلی نظر آتی ہے اور کبھی اسی ریاست میں درجنوں چھوٹی بڑی آزاد ریاستیں نظر آتی ہیں۔ آج کی دنیا میں جس ریاست کی بات کی جاتی ہے وہ 15 اگست 1947ء میں قائم ریاست جموں و کشمیر ہے اور اقوام متحدہ میں یہی پوری ریاست متنازعہ کشمیر قرار پائی ہے۔
پڑوسی ممالک :
15 اگست 1947ء تک قائم ریاست جموں و کشمیر کا مجموعی رقبہ 84 ہزار 471 مربع میل ہے۔ یہ ریاست دنیا کے تین پہاڑی سلسلوں (قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش) پر محیط ہے۔ اس کی سرحدیں مجموعی طور پر پاکستان، بھارت، چین، روس (تاجکستان) اور افغانستان سے ملتی ہیں۔
ریاست کے حصے:
اس وقت ریاست جموں وکشمیر 4 حصوں میں تقسیم ہے جو 3 ممالک پاکستان، بھارت اور چین کے کنٹرول میں ہے۔ پاکستان کے پاس 28 ہزار مربع میل گلگت بلتستان اور تقریباً ساڑھے 4 ہزار مربع میل آزاد کشمیر، بھارت کے پاس وادی کشمیر، جموں اور کرگل لداخ جبکہ چین کے پاس 10 ہزار مربع میل اقصائے چن کا علاقہ ہے۔ البتہ چین کے زیر کنٹرول علاقے میں کوئی آبادی نہیں ہے یہ علاقہ چین کے مسلم اکثریتی صوبہ سینگ کیانگ کا حصہ ہے۔ چین نے کچھ علاقہ 1963 کی جنگ میں بھارت سے چھینا جبکہ 1900مربع میل علاقہ پاکستان سے16مارچ1963 میں پاک چین معاہدے کے تحت عارضی طور پر حاصل کیا ہے۔
کشمیریوں کی بدقسمتی کا آغاز:
کشمیریوں کی بدقسمتی کا آغاز 16 مارچ 1846 میں معاہدہ امرتسر کے ساتھ ہی ہوا جس کے ذریعے گلاب سنگھ نے انگریز سے 75 لاکھ نانک شاہی میں جموں و کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ خرید کر غلام بنایا جبکہ گلگت بلتستان، کرگل اور لداخ کے علاقوں پر قبضہ کر کے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست قائم کی، مہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی کیونکہ حکمراں طبقہ اقلیتی تھا جبکہ خطے کی 85 فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی اس لئے حکمراں ہمیشہ مسلمانوں سے ہی خطرہ محسوس کرتے تھے۔ مہاراجہ نے مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کے لئے بڑی کوششیں کیں یہی وجہ ہے کہ 1846 کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف 1931 تک کوئی نمایاں آواز نہیں اٹھی اگرچہ اس عرصے میں مسلمانوں کی نصف درجن سے زائد انجمنیں یا جماعتیں بن چکی تھیں مگر ڈوگرہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے مسلمان سر نہ اٹھا سکے۔
جدوجہد کا آغاز:
ہم جب ریاست جموں و کشمیر کا جائزہ لیتے ہیں تو ڈوگرہ حکمرانوں کے دور میں 1924 تک سیاسی خاموشی نظر آتی ہے۔ یہ خاموشی 1924 میں اس وقت ٹوٹی جب سرینگر میں کام کرنے والے ریشم کے کارخانوں کے مزدوروں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور پوری ریاست نے ان کی آواز میں آواز ملائی اور یوں پوری ریاست سراپا احتجاج بن گئی، اس تحریک کو بھی ڈوگروں نے طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کی، وقتی طور پر یہ تحریک کمزور ضرور ہوئی مگر اس کے بعد ریاست کے عوام میں بیداری آئی اور آزادی کا جذبہ توانا ہوا۔
آزاد حکومت کا قیام:
24 اکتوبر 1947ء کو موجودہ آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا گیا جس کے پہلے صدر غلام نبی گلگار قرار پائے۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں 85 فیصد مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ ریاست پاکستان کا حصہ بننا تھی مگر حکمراں چونکہ ڈوگرہ تھا اس لئے اس کی کوشش رہی کہ ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے یا اس کی خود مختار حیثیت کو بحال رکھا جائے جبکہ مسلمانوں کا مطالبہ ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانا تھا مگر ڈوگرہ تاخیری حربے استعمال کرتا رہا یہی وجہ ہے کہ 24 اکتوبر 1947 کو آزاد کشمیر میں آزاد حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مجاہدین نے سرینگر کی طرف رخ کیا اور سرینگر تک کے علاقے پر قبضہ کرلیا اور مہاراجہ کشمیر دارالحکومت سے بھاگ کر جموں چلے گیا۔
کشمیر پر بھارت کا قبضہ:
26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر نے نہ صرف بھارت سے فوجی امداد طلب کی بلکہ بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست بھی دی اور بھارت چونکہ کشمیر پر قبضے لیے موقع کی تلاش میں تھا لہٰذا 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی افواج کشمیر پر قابض ہوگئیں، دوسری طرف پاکستان کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے مجاہدین کو آزاد کیا ہوا ایک بڑا علاقہ بھی خالی کرنا پڑا اور مجبوراً پسپائی اختیار کرنا پڑی، بھارت کشمیر میں اس وعدے کے ساتھ داخل ہوا تھا کہ امن کے قیام کے بعد کشمیر سے واپس چلا جائیگا مگر آج تک بھارت کی واپسی نہیں ہوئی۔
گلگت بلتستان کی آزادی:
دوسری طرف جب سرینگر میں بھارتی قبضہ ہوا اور آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم ہوئی تو یکم نومبر 1947 کو گلگت میں بھی بغاوت ہوئی۔ ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے اسلامی جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی گئی جبکہ بلتستان اور وادی گریز(تراگبل، قمری، کلشئی، منی مرگ) اور دیگر علاقوں میں 1948 تک جنگ جاری رہی۔ 16 نومبر 1947 کو پاکستان نے اس پر کنٹرول کیا انگریز کے برصغیر سے جانے کے بعد کشمیریوں کو ڈوگرہ سے آزادی تو ملی مگر ریاست جموں و کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارتی غلامی میں چلا گیا۔ جب سے اب تک تنازع کشمیر پوری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کے لئے دن بدن تباہی کا سبب بنتا جا رہا ہے۔
اٹوٹ انگ اور شہ رگ کا دعویٰ:
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت دی ہوئی ہے جبکہ پاکستان نے آزاد کشمیر میں 1947 میں ہی آزاد ریاست قائم کر دی اگرچہ تمام انتظامات پاکستان کے پاس ہیں۔ دوسری جانب گلگت بلتستان کو بھی مختلف طریقوں سے انتظامی طور پر اپنے کنٹرول میں رکھا اور 2009 میں ایک اصلاحی پیکج کے تحت گلگت بلتستان کو بھی نیم ریاستی اور نیم صوبائی طرز کا ایک سیٹ اپ دیا گیا۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ پوری ریاست جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے کیونکہ مہاراجہ کشمیر نے بھارت سے الحاق کیا ہے جبکہ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے کیونکہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور یہاں کے مسلمان بھی پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اور 1947 میں سرینگر میں یہاں کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ”مسلم کانفرنس “ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کی ہے، جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی حاصل کر کے پاکستان کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک جاری ہے جس کا بنیادی نعرہ ہی ”پاکستان سے رشتہ کیا؟، لاالہ الا اللہ“ ہے۔
تنازع کشمیر اقوام متحدہ میں:
یکم جنوری 1948 کو بھارت اقوام متحدہ میں خود گیا جس پر 17 جنوری 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک قرار داد منظور کی اور 20 جنوری کو پاکستان بھارت کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات کی روشنی میں 5 اگست 1948 اور یکم جنوری 1949 کی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی پوری ریاست جموں و کشمیر متنازع ہے، اس میں وہ تمام حصے شامل ہیں جو پاکستان، بھارت اور چین کے پاس ہیں۔ اقوام متحدہ نے 17 اپریل 1948، 13 اگست 1948، 5 جنوری 1949 اور 23 دسمبر1952 کو کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کی قراردادیں پاس کی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے سے کیا جائیگا مگر بھارت نے عالمی اور مقامی طور پر ہونے والے معاہدوں سے انحراف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے زیر قبضہ ریاست جموں و کشمیر کے علاقوں میں 1950 کے بعد ہی بے چینی پھیلنا شروع ہوئی، مختلف ادوار میں مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ شروع کی گئی مگر بھارت نے عالمی انصاف کے ٹھیکیداروں کی پس پردہ حمایت کے باعث وقتی طور پر کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔ یہ بات درست ہے کہ اقوام متحدہ نے ابتدائی 9 سالوں میں تنازع کشمیر کے حل کے لئے کوششیں کیں مگر پھر تنازع کشمیر بھی عالمی سیاست کی نذر ہوگیا۔ 1948 سے 1957 تک روس اقوام متحدہ میں غیر جانبدار رہا مگر بعد میں 20 فروری 1957 اور 22 جون 1962 کو کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردوں کو ویٹواور بھارت کی حمایت کرتا رہا۔
تنازع کشمیر اور پاک بھارت جنگیں:
تنازع کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے مابین 1947 سے 1948 تک، 1965 اور کارگل جنگ بھی ہو چکی ہیں۔ اگرچہ 1971 کی جنگ بھی دونوں ملکوں کے مابین ہوئی مگر اس کا تعلق تنازع کشمیر سے براہ راست نہیں البتہ بھارت کی مشرقی پاکستان میں مداخلت کی بڑی وجہ کشمیر ہی تھا۔ اب بھی یہ صورتحال ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین کبھی بھی ایٹمی جنگ ہو سکتی ہے۔ کشمیریوں نے 1931 میں مجلس احرار اسلام کی تحریک پر آزادی کی جو جدوجہد شروع کی وہ مرحلہ وار آج بھی جاری ہے۔
5 فروری یوم یکجہتی کشمیر:
دنیا بھر بالخصوص پاکستان کے مسلمان 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں اور کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی اخلاقی مدد کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس روز عام تعطیل ہوتی ہے اور اس سلسلے کا آغاز 1990 میں جماعت اسلامی کی اپیل سے ہوا، اس وقت پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی تب سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن تاریخ میں پہلی بار 14اگست 1931 کو پورے برصغیر میں منایا گیا۔ اس کے علاوہ کشمیری 13جولائی کو 1931ء کے شہداء اور 6 نومبر کو 1947ء کے شہداء کی یاد میں یوم شہدا، 24 اکتوبر کو 1947ء میں آزاد کشمیر حکومت کے قیام کی یاد میں یوم آزادی، 27 اکتوبر کو 1947 کے بھارتی تسلط، 27 جولائی کو 1949 میں کشمیریوں کو تقسیم کرنے والی خونیں لکیر لائن آف کنٹرول(ایل او سی) کے خلاف اور ہر سال 26 جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پریوم سیاہ مناتے ہیں اس کے علاوہ مختلف شہداء کی یاد بھی منائی جاتی ہے۔
بشکریہ: کالم نگار عابد حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود