جب بھی ٹی وی پر خبریں لگائیں تو شاید ہی کوئی ایسا دن ہو کہ پولیس گردی کی کوئی خبر نہ آئے چھوٹے چھوٹے واقعات کے درمیان تسلسل سے بڑے بڑے واقعات بھی وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں ان واقعات کے بعد سئول سوسائٹی کی جانب سے پولیس رفارمز کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور محکمانہ کاروائی کے طور پر کچھ اہلکاروں کو معطل کردیا جاتا ہے اور ٹاک شو میں حکومتی سیاستدان دعوے کرتے ہیں یہ پچھلی حکومتوں کے دور میں کالی بھیڑیں محکموں میں داخل ہوگئی ہیں جنھیں آنے والے دنوں میں نامزد کرکے کے محکمہ سے نکال دیا جائے گا اور پھر دو سے تیں دن بعد اگلے واقعہ تک خاموشی چھا جاتی ہے اس دفعہ تو الیکشن میں پولیس ریفامز بھی حکومتی پارٹی کے منشور میں شامل تھیں اور یہ ایک صوبہ میں میں پولیس ریفامز کا کریڈٹ بھی لیتے تھےلیکن حکومت قائم ہونے کے بعد یہ ریفارمز تو کیا ہونی تھیں مزید خرابیاں پیدا ہو گئیں جب بھی ذہن میں سوال آتا ہے کہ کیا پولیس محکمہ میں ریفارمز ہوسکتی ہیں تو جواب ہوتا ہے بلکل بھی نہی تو لامحالہ سوال اُٹھتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے اور میں اتنے وثوق سے یہ دعوہ کیوں کررہا ہوں تو اس کے لیے آپ کو اپنی زندگی کا ایک واقعہ سناتا ہوں جس سے مجھے یہ مسلئہ سمجھ آیا ۔
پچیس تیس سال پُرانی بات ہے کہ میرے بڑے بھائی نے جانوروں کا فارم بنایا اور اُس وقت اس فارم کو ہم ڈیرہ کہتے تھے اس ڈیرے کے مرکزی دروازے کے سامنے سڑک کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی نہر گزرتی تھی یہاں ہی دو بڑے درخت تھے ایک پیپل اور دوسرا شیشم کا ،گرمیوں میں ہم سارے جانور ان درختوں کے سائے میں باندھتے تھے
ایک دفعہ ہم کچھ جانور خریدنے کی غرض سے قریبی گاؤں چک بودلہ گئے وہاں جن سے ہم نے جانور خریدنے تھے اُنھوں نے ہماری تواضع اپنے باغات کے بہت لذیذ میٹھے امرودوں سے کی۔ان کا ذائقہ غیر معمولی میٹھا تھا اگر اس میں مبالغہ آرائی نہ سمجھی جائے تو میں نے زندگی میں اتنے خوش ذائقہ امرود نہی کھائے تھے بھائی جانور دیکھنے لگے تو میں نے اُن کے بزرگ سے درخواست کی کہ وہ اس نسل کے کچھ پودے مجھے دے دیں تھوڑی پس و پیش کے بعد اُنھوں نے ہمیں دو پودے دے دیے ۔
واپس ڈیرے پر آکر میں نے ملازموں سے پیپل اور شیشم کی درمیانی جگہ دو گملے تیار کرواکر پودے لگا دیے قدرت کی مہربانی سے دونوں پودے پنپناں شروع ہوگئے گاہے بگاہے میں یا بھائی ان کی گوڈی کرتے اور پانی دیتے رہتے چھ ماہ بعد پودوں پر پھول نمودار ہونے لگے لیکن دس پندرہ دن کے اندر اندر تمام پھول جھڑ گئے کچھ پریشانی ہوئی مالی سے رابطہ کیا اُس نے یوریا،سلفیٹ آف پوٹاش اور گوبر کھاد کی تناسبی مقداریں بتائیں اُس کی ہدایات کے مطابق کھادیں ڈلوائیں مگر چھ ماہ بعد نتیجہ وہی رہا تمام پھول پھر جھڑ گئے ۔
ایک دفعہ ایک بزرگ کچھ جانور خریدنے ڈیرے پر آئے جنوری فروری کے دن تھے اُنھوں نے پوچھا “بوٹے پھل نئ چائیا” یعنی درختوں نے پھل نی دیا میں نے کہا دیکھ بھال بھی کی ہے لیکن پتہ نہی نسل خراب دے دی ہے جس کی وجہ سے پھل نہی لگتا اُنھوں نے کہا بیٹا اگر تم بڑے درختوں (پیپل ،شیشم ) کے کچھ بڑی شاخیں کاٹ دو تو یہ پھل اُٹھا لیں گے بڑے درختوں کی موجودگی میں یہ اپنے لیے بہتر خوراک پیدا نہی کرپا رہے اُن کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے میں نے درختوں کی کچھ بڑی شاخیں کٹوا دیں جس پر بھائی ناراض ہوئے کہ جانور کہاں باندھیں گے اور تیز ہواؤں سے قدرتی حفاظت تھی خیر وقت گزرا جانوروں کے لیے شیڈ بنا لیا گیا اور موسم آنے پر میرے پودوں نے بھرپور لذیذ پھل دیا ۔
اب مندرجہ بالا مسلئہ کے تناظر میں اس واقعہ کو دیکھیں تو ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ اگر سیکورٹی کے نام پر ایک محکمہ (فوج)بہت زیادہ طاقت ور ہوجائے گا تو وہ باقی محکموں(پولیس ،عدلیہ وغیرہ وغیرہ ) کو پنپنے نہی دیتا جس کی وجہ سے قدرتی آفات زلزلوں ،سیلابوں،یہاں تک کہ نہری بھل صفائی اور بجلی چوروں کو پکڑنے کیلیے بھی یہی محکمہ نظر آتا ہے جس کی بھاری قیمت سیاسی اور خارجہ معاملات میں ان کے غیر آئینی کردار کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے اور دوسرے محکمے معاشرے کی فلاح میں اپنا کردار ادا نہی کرسکتے جس سے سماج میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور خاکم بدہن سماج اندرونی خلفشار کا شکار ہوکر ٹوٹ پھوٹ سکتا ہے اس لیے معاشرے کی بقاء اور پھلنے پھولنے کیلیے ضروری ہے کہ وسائل کی تقسیم میں توازن قائم کیا جائے تاکہ معاشرہ بہتر انداز میں آگے بڑھے