ٹرین اپنی پوری رفتار سے منزل پر رواں دواں تھی ۔ شام کا ملگجا چھانے لگا تھا ۔ سرد ہوا کے جھونکے کھڑکی کے راستے اندر داخل ہو رہے تھے ۔ ٹرین کے ٹمٹماتے بجلی کے قمقمے نیم تاریکی سے برسرپیکار تھے ۔ ایک کمپارٹمنٹ میں منتخب مذہبی پیشواؤں کا ایک گروپ " مانو کلیان ابھیان " کے اجلاس میں شرکت کے لیے مرکز جارہا تھا ۔ یخ بستہ ہواؤں کے جھونکوں سے کچھ لطف اندوز ہورہے تھے اور کچھ اونگھ رہے تھے ۔ کمپارٹمنٹ میں بوجھل سکوت طاری تھا ۔ صرف ریل کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ اور ہوا کی سنسناہٹ سنائی دے رہی تھی ۔
اس سکوت کو کھڑکی کے قریب بیٹھے پادری نے توڑا ۔
" میرا مذہب امن سکھاتا ہے لیکن میرے ہم مذہب نسل کشی اور نسل پرستی میں مبتلا ہیں "- اس نے ایک سرد آہ بھر کر کہا ۔ " میرے ملک کی ایک ریاست کے نسلی تصادم میں ، میں نے اپنا جوان بیٹا کھویا ہے ۔ " اس کی آواز میں کرب تھا ۔
" کیا وہ دہشت گرد تھا ؟ " پاس بیٹھے ہوئے مولوی نے پوچھا ۔
" نہیں ! اس کا قصور یہ تھا کہ وہ سیاہ فام تھا ۔"
" استغفراللہ " مولوی صاحب گال پیٹتے ہوئے بولے ۔
" ہمارے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے ، ہمارے ہم مذہب مسجدوں میں بموں کے دھماکے کررہے ہیں ۔ اسکولوں میں معصوم طلبہ کو گولیوں سے بھون رہے ہیں -"
" چھی ! چھی !! سامنے کی نشست پر بیٹھا ہوا بھکشو بولا ۔
" کیا یہی تمہارے مذہب کی تعلیم ہے ؟"
" نہیں ، نہیں ! مولوی صاحب جلدی سے بولے ۔
" بلکہ میرے مذہب میں تو ایسا ہے کہ کسی نے ایک بے گناہ کی جان لی ، گویا اس نے پوری اِنسانیت کو قتل کیا -" مولوی نے احساس ندامت سے سرجھکا لیا ۔
تھوڑی دیر سکوت رہا ،پھر بھکشو بولا ۔
" گوتم بدھ نے اہنسا کا درس دیا ۔اس کے ماننے والے ہنسا پھیلا رہے ہیں !! ۔ ۔ ۔۔ کا قتل عام تاریخ کا بدنما داغ ہے ۔ " وہ سسکنے لگا ۔ " میں کس منہ سے اہنسا کا پیغام دوں ۔" بولو؟ وہ سامنے بیٹھے ہوئے سادھو کے گیروے لباس کو کھینچتے ہوئے بولا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔
سادھو پر سکتہ طاری تھا ۔وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر تذبذب کا شکار اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے ۔ جذباتی کشمکش سے اس کی سرخ آنکھیں ابل پڑی تھیں ۔ اس نے جذبات پر قابو پایا اور گویا ہوا ۔
" بھگوان رام نے امن اور شانتی کے لیے بن باس لیا ، ۔ ۔ لیکن یہ کیا ! آج ہنسا کا راج ہے ۔" وہ اس کے آگے کچھ نہ کہہ سکا۔۔
پھر اچانک وہ پھٹ پڑا ۔" جس مذہب نے استاد کی عظمت کے لیے کہا ۔ گرو برہما ، گرو وشنو ، گرو شاکشات دیوا " اس کا پیرو کبھی یہ نہیں کرسکتا ، " اس کے پیچھے ضرور کسی کا ہاتھ ہے !!"
ہاں ضرور کسی کا ہاتھ ہے " پاس بیٹھے ہوئے سکھ نے کہا ۔
مگر کس کا ؟ " سب اپنی اپنی جگہ کچھ سوچ رہے تھے ۔
تھوڑی دیر بعد پادری بولا ۔" اس میں شیطان کا ہاتھ ہے ! اسی نے آدم کو جنت سے نکالا ۔ یہی تمام فتنوں کی جڑ ہے -"
" بالکل ،بالکل ۔ شیطان کو عدو مبین کہا گیا ہے ۔" مولوی صاحب بولے ۔
" شیطان ہی زمین پر فتنے فساد پھیلا رہا ہے ۔ خون خرابہ کررہا ہے ۔
" میں کل عوامی جلسے میں زمین سے شیطان کو بھگانے کی عالم گیر تحریک شروع کرنے کی تجویز رکھوں گا "-
ہم تمہاری رائے سے اتفاق کرتے ہیں " سب نے بیک زبان کہا ۔
" ہم مانو کلیان " کے لیے " شیطان بھگاؤ ابھیان " شروع کریں گے ۔
ایک دیہاتی جو پاس ہی بیٹھا ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا ۔ بولا
" تم شیطان کو کیسے بھگاؤگے ! وہ تو تمہارے دل میں رہتا ہے !!"
وہ سب اس دیہاتی کا منہ تکنے لگے ۔