یکم مئی 1960 کو فرانس کے ایوانِ صدر ایلاسی پیلیس میں ایک اہم کانفرنس ہو رہی تھی جس میں فرانس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین کے سربراہ شریک تھے۔ اس روز کانفرنس کا سیشن شروع ہونے ہی والا تھا، امریکہ، فرانس، برطانیہ کے سربراہان اپنی نشستوں پر تشریف فرما ہو چکے تھے اور روس کے سربراہ خروشیف کا انتظار تھا کہ اچانک کانفرنس ہال کا دروازہ زور سے کُھلا، خروشیف اپنے غصے سے بھرے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ امریکی صدر آئزن ہاور سے مخاطب ہوئے؛
"بدمعاش تم ہمارے مُلک میں جاسوسی کرتے ہو"
صدر آئزن نے جب اس الزام کی تردید کی تو خروشیف نے گرجتے ہوئے کہا؛
"بکو مت تم حرام کا بچہ جن چکے ہو، اب پیٹ نہیں چھپا سکتے۔ تمہارا پائلٹ اس وقت روسی حکام کے سامنے کھڑا ہے اور امریکی جرائم کا اعتراف کر رہا ہے۔ میں اس کانفرنس کو ختم کرتا ہوں، بدمعاشوں اور مجرموں کو سزا دی جاتی ہے، ان سے مزاکرات نہیں کیے جاتے"
یہ کہتے ہوئے مسٹر خروشیف جب کانفرنس ہال سے باہر نکلنے لگے تو برطانوی وزیراعظم اور جنرل ڈیگال نے آپ کو روکنا چاہا، اس پر خروشیف نے جھلّا کر کہا کہ
"چھوٹی قوموں کو بڑے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہئے"
چنانچہ ماسکو پہنچنے پر خروشیف نے دھواں دھار تقریر کی اور اعلان کیا کہ مسخرستان کے شہر پشاور کے گرد سرخ نشان لگا دیا گیا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مسخرستان کا اس واقعے سے کیا تعلق؟ تو واقعہ کچھ یوں ہے کہ
مسخرستان نے اپنے ہردلعزیز دوست امریکہ کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے پشاور کے قریب بڈابیر کے مقام پر ہوائی اڈہ سونپ رکھا تھا۔ اس جگہ سے سوویت یونین کے عسکری عزائم کی امریکہ کڑی نگرانی کرتا تھا۔ یہاں سے وقتاً فوقتاً خفیہ جاسوسی پروازیں بھی سوویت یونین کی جانب رُخ کرتی تھیں اور جدید خفیہ کیمروں کی مدد سے سوویت یونین کی فضاؤں سے وہاں کے اداروں کی نقل و حرکت کی نایاب تصاویر کھینچ کر امریکہ روانہ کی جاتی تھیں۔ یکم مئی 1960 کو امریکی ہوا باز فرانسس پاورز نے اپنا جاسوسی طیارہ "یو، ٹو" بڈابیر کے ہوائی اڈے سے اُڑا کر جاسوسی مشن کے لیے روانہ ہوا۔ پروگرام کے مطابق فرانسس پاورز کو سوویت یونین کی حدود سے گزر کر ناروے کے فضائی اڈے جوڈو پر اترنا تھا۔ فرانسس پاورز اس سے قبل بھی اس قسم کی کئی کامیاب پروازیں سرانجام دے چکا تھا۔ اُس روز صبح ساڈھے آٹھ بجے فرانسس پاورز سوویت یونین کی حدود سے پرواز کرتا ہوا یرویوراسک کے قریب پہنچا تو روسی راکٹ نے اُسے مار گرایا، راکٹ لگتے ہی طیارے میں آگ لگ گئی، اس نے فوراً بڈابیر کے ہوائی اڈے کو حادثے کی اطلاع دی، اس دوران جب طیارہ چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو اس کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہو گیا۔ فرانسس پاورز نے پیراشوٹ کے ذریعے طیارے سے چھلانگ لگا دی اور شہر کے نواح میں حفاظت سے اتر گیا۔ اس کا طیارہ قریب ہی زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ فرانسس کو روسیوں نے اپنی تحویل میں لے کر غیر مسلح کیا اور پھر سیکیورٹی پولیس کے حوالے کر دیا۔ فرانسس کی تمام احتیاطی تدابیر ناکام ثابت ہوئیں اور یوں جاسوسی کا راز نہ صرف سوویت یونین بلکہ ساری دنیا پر افشا ہو گیا۔ روسی حکام نے فوری طور پر اس حادثے کی اطلاع مسٹر خروشیف کو دی جو اُس وقت اس کانفرنس میں شرکت کی غرض سے فرانس میں مقیم تھے۔
بڈابیر کا ہوائی اڈہ 1969 تک امریکہ کے قبضے میں رہا اور حاحا خان کے دور میں کرائے کی معیاد ختم ہونے پر خالی کر دیا گیا۔ مسخرستان کو بعد میں اس اڈے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ 1970 میں سوویت یونین نے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا اور پھر اگلے برس 1971 میں مسخرستان اور بھارت کے مابین جنگ کا آغاز ہوا تو سوویت یونین نے کُھل کر بھارت کی امداد کی۔ جبکہ دوسری طرف مسخرستان کا سرپرستِ اعلیٰ امریکہ خاموش تماشائی کی حیثیت سے غیرجانبدار رہا۔ اس جنگ کے نتیجے میں مسخرستان کا آدھا حصہ ٹوٹ گیا اور امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ بحرِ ہند میں گشت کرتا رہا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب مسٹر خروشیف نے پشاور کے مقام پر سرخ نشان لگانے کی دھمکی دی تو عیوب خان نے اس حادثے پر شرمندگی محسوس کرنے یا ملک کی حفاظت کے لیے کوئی مناسب قدم اٹھانے کے بجائے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے پُرجوش لہجے میں کہا تھا کہ
"براعظم ایشیا میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کی سرزمین پر امریکی فوجیں آزاد دنیا کے دفاع کی خاطر قیام پذیر ہو سکتی ہیں"
تو مسخرستان کی سرزمین پر غیر ملکی فوجوں کا اجتماعِ عام عیوب خان کے لیے باعث فخر تھا۔
“