(Last Updated On: )
رات میں ہوٹل پہنچتے ہی سامنے ایک خوب صورت مسجد دکھائی دی ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ شہر کی تاریخی ‘موتی مسجد’ ہے ۔ اسی وقت ارادہ کرلیا کہ فجر کی نماز ان شاء اللہ اسی میں ادا کروں گا ۔
بھوپال ہندوستان کا تاریخی شہر ہے ۔ یہاں جس طرح چھوٹے بڑے بہت سے تالاب ہیں ، اسی طرح بہت سی چھوٹی بڑی مساجد بھی ہیں ۔ اس لیے بہت سے لوگ اسے ‘تالابوں کا شہر’ اور بعض ‘مساجد کا شہر’ کہتے ہیں ۔ یہاں کی سب سے بڑی مسجد ‘تاج المساجد’ ہے ، جو بھوپال کی خاتون حکم راں نواب شاہ جہاں بیگم (م1901ء) کی یادگار ہے ۔ ان کے بعد ان کی صاحب زادی اور جانشین نواب سلطان جہاں بیگم کے زمانے میں بھی اس کی تعمیر جاری رہی ، لیکن تکمیل نہیں ہوسکی ۔ بعد میں مولانا محمد عمران خاں ندوی اور مولانا سید حشمت علی کی دل چسپی سے عوامی چندے سے 1971 میں اس کی تعمیر پھر شروع ہوئی ، جو 1985 میں مکمل ہوئی ۔
موتی مسجد ہو بہو چھوٹے سائز کی دہلی کی جامع مسجد معلوم ہوتی ہے ۔ اس کی تعمیر بھوپال کی خاتون حکم راں نواب سکندر بیگم نے 1860 میں کی تھی ۔ مسجد بھوپال کے مشہور تاریخی ‘اقبال پارک’ کے برابر اور وہاں کے سب سے بڑے تالاب سے قریب میں واقع ہے ۔ اس کے دو مینارے سرخ پتھروں سے بنے ہوئے ہیں ۔ تین گنبد ہیں ۔ مسجد کی تعمیر سفید سنگ مرمر سے ہوئی ہے ۔ شاید اسی وجہ سے اسے ‘موتی مسجد’ کا نام دیا گیا ہے ۔ صحن کے دونوں کناروں پر چھوٹے حوض ہیں ۔ تینوں اطراف میں بلند دروازے ہیں ۔ مسجد کے باہر وسیع سبزہ زار ہے ۔ مسجد بہت پُر شکوہ معلوم ہوتی ہے ۔
فجر کی جماعت کھڑی ہونے سے 5 منٹ پہلے مسجد پہنچا تو وہاں سنّاٹا تھا ۔ شبہ ہوا کہ کہیں جماعت ہو تو نہیں گئی ہے ۔ ایک بزرگ نظر آئے ۔ ان سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ابھی جماعت نہیں ہوئی ہے ۔ ایک دو لوگ اور آگئے ۔ نماز ختم ہوئی ، اس وقت تک امام صاحب کو اور مجھے ملا کر کل پانچ افراد تھے ۔ مسجد شہر کے مرکزی حصے میں واقع ہے ، پھر بھی نمازیوں کی اتنی کم تعداد سمجھ میں نہیں آئی ۔ ممکن ہے ، یہ وجہ ہو کہ مسجد کے احاطے سے متصل ایک چھوٹی مسجد بھی ہے ۔ مسجد کا بیرونی صحن صفائی ستھرائی سے محروم نظر آیا ۔ جھاڑ جھنکاڑ اُگے ہوئے تھے ۔ وقف کی مساجد کا عموماً یہی حال رہتا ہے ۔
بھوپال میں جماعت اسلامی ہند کے ایک تنظیمی و تربیتی پروگرام میں آنا ہوا ہے ، جس میں تمام امرائے مقامی ، منفرد ارکان ، نظمائے علاقہ جات و نظمائے شہر ، سکریٹریز شعبہ جات ، شہر و مقامی ناظمات حلقۂ خواتین اور ارکانِ مجلسِ شوریٰ حلقہ شریک ہیں ۔ JK ہوٹل ، جہاں ہمیں ٹھہرایا گیا ہے ، جماعت اسلامی کے ایک رکن جناب فراز صاحب کا ہے ۔ ان کی خواہش رہتی ہے کہ جماعت کے ذمے داران آئیں تو یہیں ٹھہرا کریں ۔ کہنے تو ہمارا قیام ہوٹل میں ہے ، لیکن تواضع ایسے ہوئی ہے جیسے ہم جماعت کے کسی رفیق کے گھر میں رکے ہوئے ہوں ۔
کسی شاعر نے کہا ہے
بہ فیضِ مودودئ محترم
کہیں غریب الوطن نہیں ہم
*****
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
*****
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی