روزنامہ زمیندار پندرہ اکتوبر 1925 کو اخبار نے مسجد وزیر خان کی طرف سے جاری کیا جانے والا ایک فتویٰ شائع کیا جس میں علامہ اقبال کو کافر مشرک اور گستاخ قرار دیا گیا۔ زرا علامہ اقبال کی کفریہ شرکیہ شاعری ملاحظہ فرمائیں اور لگے ہاتھوں امر جلیل سے موازنہ بھی کرتے جائیں۔
اے آفتاب! ہم کو ضیائے شعور دے
چشمِ خرد کو اپنی تجلّی سے نور دے
ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز تُو
یزدانِ ساکنانِ نشیب و فراز تُو
تیرا کمال ہستیِ ہر جاندار میں
تیری نمود سلسلۂ کوہسار میں
ہر چیز کی حیات کا پروردگار تُو
زائیدگانِ نُور کا ہے تاجدار تُو
نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری
آزادِ قیدِ اوّل و آخر ضیا تری
2۔ کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیازِ عقبیٰ
نمُود ہر شے میں ہے ہماری، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
3۔ خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری
شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں ۔۔۔
4۔ غضب ہیں یہ "مرشدان خود بیں" خدا تری قوم کو بچائے بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں۔۔
5۔ ہے رام کے وجود پر ہندوستان کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی
روشن تراز سحر ہے زمانے میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش، محبت میں فرد تھا
اب آپ ایک کام کریں یہ اشعار علامہ اقبال کا نام لیے بغیر کسی بھی پاکستانی کو سنائیں وہ کفر کا فتویٰ لگانے میں دیر نہیں لگائے گا۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زُلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔۔
آپ اپنے دام میں صیاد کیسے آتا ہے میں بتاتا ہوں، کچھ شرارتی لڑکوں نے مولانا قاسم نانوتوی کی عبارت اٹھا کر دارالعلوم دیوبند کو فتوے کے لیے بھیج دی اور انہیں کہا کہ یہ مولانا مودودی صاحب کی عبارت ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے دار الافتاء نے کفر کا فتویٰ جاری کر دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ مولانا قاسم نانوتوی کی عبارت تھی۔۔ عوام کو بتا دوں کہ مولانا قاسم نانوتوی دارالعلوم دیوبند کے بانی ہیں۔
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...