مسجد بوکن خان اندرون موچی دروازہ, ڈھل محلہ میں واقع ہے. ڈھل محلہ چھجو بھگت کی رہائش گاہ بھی تھا خیر پیر ڈھل کا مزار مسجد بوکن خان سے چند قدم پر ہے. بوکن خان رنجیت سنگھ کے اصطبل کا نگران تھا. کہنیالال کا بیان ہے ” یہ عالیشان مسجد 1257ھ ( 1841ء)میں مسمی بوکن خان نے تعمیر کی. اس پہلے بھی اس جگہ ایک وسیع مسجد بنی ہوئ زمانہ سلف کی تھی. اس کو گرا کر بوکن خان نے ازسر نو مسجد تعمیر کی…..مسجد کے دروازے سے داخل ہوں تو ایک وسیع میدان آتا ہے جو تین حصوں میں منقسم ہے. ایک حصہ میں باغیچہ لگا ہوا ہے اور اس میں طرح طرح کے درخت بڑ وغیرہ کے لگے ہیں. دوسرے حصے جنوبی میں درویشوں کے رہنے کے لیے چند حجرے بنے ہوے ہیں. تیسرے حصے میں چاہ و غسلخانہ و سقاوہ ہے مسجد کا صحن پختہ فرش کا ہے اور خاص مسجد کی تین محرابیں عالیشان بنی ہیں. مسجد کی عمارت سب پختہ چونہ گچ منقش ہے. سقف چوبی رنگین لائق تعریف بنی ہوئ ہے. جب تک بانی زندہ رہا مسجد میں کمال رونق رہی.”
یعنی 1841ء میں بوکن خان نے گروا کر یہاں نئے سرے سے مسجد کو تعمیر کروایا. مسجد کے داخلی دروازے پر مندرجہ ذیل قطعہ درج ہے.
…….اللہ محمد……..
چوں زبکن خان والا منزلت
شد بنااین مسجدے ذی الاحترام
بہر تاریخش زہا تف شد ندا
کعبتہ ثانے بنا شد ایں مقام
ترجمہ
“جب عالی مقام بوکن خان نے اس مقدس مسجد کو تعمیر کرایا تو ایک غیبی آواز نے اس کی تاریخ بنیاد کے بارے میں کہا : اس جگہ کعبہ ثانی تعمیر ہوا ہے.”
نقوش”لاہور نمبر” میں قطعہ کے نیچے تاریخ ١۲۲٥٧ھ درج ہے جو کہ یقیناً غلط ہے. درست تاریخ ١۲٥٧ھ ہے. یہ قطعہ حضرت فرید الدین شیرازی(پ 1786ء متوفیٰ 1867ء) لاہوری کا تحریر کردہ ہے. بادشاہی مسجد کو سکھوں سے واگزار کروانے اور انگریز دور میں لاہور میں مسیحی مشنریوں کے بڑھتے ہوئے اثرونفود کی روک تھام کا سہرا آپ کے سر ہے. بقول آپ کے سجادہ نشین سید افتحار علی شاہ آپ نے لاہور کے اہل علم حضرات کو مسجد بوکن خان میں بلا کر اس بات پر راضی کیا کہ مسلمانوں کو انگریزی سیکھنی چاہیے. بعد میں آپ نے مسجد بوکن خان میں بھی ایک اسلامی سکول قائم کیا جہاں انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی. 24 ستمبر 1884 ء کو اہلیان لاہور نے اسی مسجد کے صحن میں جمع ہو کر انجمن حمایت اسلام کا باقاعدہ آغاز کیااور مل کر انجمن کے لئے چندہ جمع کیا.
میں جب کافی مشکل اور تلاش کہ بعد مسجد بوکن خان پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے. معلوم ہوا کہ جماعت کے وقت تقریباً ١ بجے دروازہ کھلے گا. گھڑی دیکھی تو معلوم ہوا کہ ابھی تو ١١ بجے ہیں. خیر مسجد کے باہر بیٹھ گے آتے جاتے لوگ حیرت سے دیکھتے. ١ تو بج گیا مگر مسجد کا دروازہ نہ کھلا. اب بقول مستنصر صاحب “اس مسجد کا کیسا جمال ہوگا کہ اسے کعبہ ثانی کہا گیا” تو سوچا کہ کعبہ ثانی کی زیارت کیے بغیر جانا گناہ ہے..پس صبر کیے وہیں بیٹھے رہے. آخرکار ایک فرشتہ نما صاحب نمودار ہوے بقول حسرت “جیسے نعمت کوئ , بے وہم و گماں.” انہوں نے نماز ادا کرنی تھی تو انہوں ناجانے کہاں سے چابیاں حاصل کرکے مسجد کا دوسرا دروازہ کھولا. مسجد میں داخل ہوے تو ایک دم بہت سے لوگ نماز کے لیے آگے.
سنا ہے کہ مسجد کہ امام صاحب اکثر غائب ہی ہوتے ہیں. کہنیا لال نے مسجد کا جو احوال تحریر کیا ہے اب مسجد ویسی نہیں نہ کوئ باغ تھا نہ کوئ کنواں البتہ خاص مسجد کی تین عالیشان محرابیں قائم ہیں. مسجد کی عمارت تو سادہ ہے مگر ہے دلکش. مگر مسجد کی حالت کچھ اچھی نہیں صحن میں پرانے دروازے کباڑ کی طرح پڑے تھے.ڈھل محلے کے گرد علاقے تجاری مرکز بن چکے ہیں مسجد کے باہر ایک دکان بھی ہے. صحن کی حالت بہت بری ہے مسجد کی عمارت چونکہ پرانی ہے اس لیے قائم ہے لیکن مسجد کے ساتھ جیسا سلوک کیا جارہا ہے تو شاید جلد ہی یہاں ایک خالی میدان ہوگا اور قدیم عمارت کی فقط دھول باقی رہ جاے گی. نئی حکومت سے التجا ہے کے لاہور کی تاریخی عمارتوں کی بحالی کا کام جلد از جلد شروع کریں. ورنہ جس تیزی سے لاہور میں نئی عمارات تعمیر ہو رہی ہیں آنے والی نسل کو پرانا لاہور صرف کتابوں میں ملے گا.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔