انسان کی فطرت ہے کہ بھراہواپیٹ اسے حقائق کی دنیاسے دور لے جاکر غفلت کے اندھیروں میں دھکیل دیتاہے۔طب انسانی کے مطابق پیٹ بھرے جانے کے بعد آنکھیں بندہونے لگتی ہیں۔پیٹ کے بھرے جانے کاایک اور فطری نتیجہ یہ بھی نکلتاہے کہ پیٹ سے نیچے کی خواہش سراٹھانے لگتی ہے۔یہ دونوں جبلتیں اپنی شدت میں اس قدر قوی ہیں بعض اوقات انسان کو انسانیت کے دائرے سے نکال کر حیوانیت کالبادہ اوڑھادیتی ہیں۔پس اللہ تعالی نے کل انبیاء علیھم السلام کے ذریعے ہدایت کاایساسامان نازل کیاہے جس سے انسان اور حیوان کے درمیان حد فاصل موجود رہے اور اشرف المخلوقات اپنا اخلاقی تفوق برقراررکھ سکے۔روزہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی بہترین مشق ہے۔اس مشق میں پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہش سے رک کرانسان اپنا تزکیہ کرتاہے۔پیٹ کے خالی رہنے سے دماغ کیفیت غبی ہونے سے بچ جاتی ہے،شیطانی خیالات سے بچت رہتی ہے،روح کی بالیدگی حاصل ہوتی ہے،کثافتیں دھل جاتی ہیں اور فطرت انسانی صاف شفاف ہو کر نکھرجاتی ہے۔پیٹ بھراہوتوروح پر بوجھ رہتاہے اوراسے ملاء الاعلی تک پرواز میں دقت پیش آتی ہے اس کے برعکس جب پیٹ خالی ہو تو روح بلندیوں کی طرف پرواز کرتی ہے،حقائق اس پر آشکارہوتے ہیں اورقرب الہی اس کا نصیب ٹہرتاہے۔اسی لیے حصول معرفت اورمشاہدہ حقیقت کے لیے ہرمذہب نے بھوکاپیاسارہنے کوضروری قراردیاہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب”انجیل“تھی۔یہ اس وقت کی مقامی زبان میں نازل ہوئی لیکن بعد میں آنے والے ادوارمیں یہ زبان متروک ہوگئی۔حضرت عیسی علیہ السلام کے مقدس شاگردوں نے اس پاک نبی کی سوانح حیات تحریر کیں،ہر شاگرد کی لکھی ہوئی تحریراسی کے نام کی انجیل سے مشہور ہوگئی۔مسیحی کتب میں حضرت عیسی علیہ السلام کے شاگردوں کو ”رسول“لکھاجاتاہے جب کہ قرآن مجید نے انہیں ”حواری“ کی اصطلاح سے یاد کیاہے۔اگرچہ بہت سے شاگردوں نے یسوع مسیح حضرت عیسی علیہ السلام پر کتب لکھیں جن کی تعداد ڈھائی سو تک بھی بتائی جاتی ہے لیکن ان میں سے چار شاگرد جن کے نام متی،یوحنا،مرقس اورلوقاہیں،ان کی لکھی ہوئی اناجیل مسیحی مذہب میں مستندومعتبر سمجھی جاتی ہیں اورکتاب مقدس کے عہدنامہ جدیدکاحصہ ہیں۔ جب کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ایک اورقریبی شاگرد رشید”برناباس“کی لکھی ہوئی انجیل بھی آج تک موجود ہے۔
مسیحی مذہب میں روزہ بہت زیادہ اہمیت کی حامل عبادت ہے۔جس طرح حضرت موسی علیہ السلام نے کوہ طورپر چالیس شب و روز کاروزہ رکھاتھا اسی طرح متی کی انجیل کے مطابق یسوع مسیح حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی چالیس دن رات کا مسلسل روزہ رکھاتھا۔حضرت عیسی علیہ السلام جب بھی کسی مبلغ کوتبلیغ کے لیے بھیجتے تواسے روزہ رکھواکر روانہ کرتے تھے۔حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو روزے کے جو آداب سکھائے وہ متی کی انجیل میں نقل کیے گئے ہیں:
”اورجب تم روزہ رکھوتو ریاکاروں کی مانند اپناچہرہ اداس مت بناؤکیونکہ وہ منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ انہیں روزہ دار سمجھیں،میں تم سے سچ کہتاہوں کہ وہ اپنااجرپاچکے لیکن جب توروزہ رکھے توسرپرتیل لگایاکراورمنہ بھی دھویاکرتاکہ تیراباپ جو پوشیدگی میں تیرے اندرہے وہ تجھے روزہ دار جانے اورتیراباپ جوپوشیدگی میں تجھے دیکھتاہے تجھے تیرے روزے کا بدلہ دے گا“(متی کی انجیل)۔
یہ سب کچھ اس لیے کہاگیاکہ یہودی ایسے ایام میں روزہ رکھتے تھے جب ماضی میں ان پر کوئی بہت بڑیآفت نازل ہوتی تھی،اس لیے روزہ رکھے ہوئے ان کے چہروں پر سوگ کے باعث پژمردگی،اداسی،مایوسی اور غم و اندوہ کے اثرات نظر آتے تھے یا وہ یہ سب لوگوں کودکھانا چاہتے تھے کہ ماضی کے جس سانحے کی وجہ سے انہوں نے روزہ رکھاہے اس سانحے کے اثرات ان کے چہروں سے ٹپکتے نظرآرہے ہیں۔اسی لیے افسوس زدہ روزہ کے دوران یہودیوں کے ہاں غسل،خوشبواور اچھے جوتے پہننابھی منع ہیں۔چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو ایسے خودساختہ اعمال سے منع کردیا۔ظاہر ہے اگر ان روزوں کااورروزوں کے دوران ان کیفیات کاحکم اللہ تعالی نے دیاہوتاتوحضرت عیسی علیہ السلام ان سے کبھی منع نہ کرتے۔
مذہب مسیحیت میں متعدد فرقے ہیں اور ان فرقوں میں تاریخ نے بہت بڑی بڑی خلیجیں حائل کررکھی ہیں۔پروٹسٹنٹ فرقہ نے اپنے پیروکاروں پر روزے کے معاملے میں کوئی سختی نہیں کررکھی،جس کا دل چاہے روزہ رکھے اور جس کادل چاہے روزہ نہ رکھے،تاہم جو اس فرقے کے مذہبی پروہت ہیں وہ روزہ رکھنے کی پابندی کرتے ہیں۔رومن کیتھولک اور آرتھوڈکس فرقے میں روزوں کی پابندی توکی جاتی ہے لیکن انہوں نے روزے کی شرائط میں بہت نرمی کردی ہوئی ہے اورمختلف مواقع پر روزے رکھنے کی سخت رسوم ختم کر دی ہیں یا ان میں بہت زیادہ سہولت کر دی ہے۔”مبارک یوم جمعہ“ اور”مقدس بدھ وار“یہ دوبہت اہم روزے ہیں جو مذہب مسیحیت میں باقائدگی سے رکھے جاتے ہیں۔کیونکہ مسیحی کتب کے مطابق بدھ کے روز حضرت عیسی علیہ السلام کوگرفتارکیاگیاتھااورجمعے کے روز انہیں صلیب دی گئی تھی نعوذباللہ من ذالک،بدھ اور جمعے کے روزے کم بیش ساراسال ہی چلتے رہتے ہیں۔مسیحی مذہب میں دوعیدیں ہیں کرسمس اور ایسٹر۔ایسٹرکا تہوار اپریل کی دوسری اتوارکو منایا جاتاہے اوراس تہوار سے چالیس روز قبل روزوں کے ایام شروع ہو جاتے ہیں۔روزوں کے اختتام پر یوم عید کی خوشیاں اسلام اور مسیحیت میں قدر مشترک ہے۔ان کے علاوہ اچھے موسم کے لیے،اچھی فصل کے لیے اور قومی مفادات کے لیے بھی روزے رکھنے کارواج یہاں موجود ہے۔”بپتسمہ“جو توبہ کی ایک شکل ہے،اس موقع پر بھی روزہ رکھوایاجاتاہے،جب کسی پادری کاتقررکیاجاتاہے یااس کی ترقی ہوتی تب بھی روزہ رکھناضروری خیال کیاجاتاہے اور جب کبھی مقدس ربانی نان عشائی کی مذہبی رم اداکی جاتی ہے تواس موقع پر بھی روزہ رکھنا باعث ثواب سمجھاجاتاہے۔
مذہب مسیحیت میں روزوں کے بہت سے قوانین ہیں،مشرقی کلیسا کسی اور طرح سے روزے رکھتاہے،مغربی کلیسا کسی اور طرح سے۔بعض فرقوں میں روزے کے دوران پانی پینا درست سمجھاجاتاہے کیونکہ پانی کو خوراک تصور نہیں کیاجاتا،بعض کے ہاں مچھلی کھانے کی بہت شدید ممانعت ہے اوربعض فرقوں میں جانوروں سے متعلق کچھ بھی کھانے کی اجازت نہیں ہوتی جیسے گوشت،دودھ،انڈے،مکھن، ملائی اور چربی وغیرہ۔بعض فرقے َ روزے کادورانیہ اور اس دوران اکل و شرب فرداََ فرداََ صحت کے اعتبارسے متعین کرتے ہیں۔بعض مسیحی فرقے آدھی رات کو روزے کاآغاز کرتے ہیں اور قبل از عصر افطارکرلیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اسی وقت یسوع مسیح کو صلیب دی گئی تھی،نعوذباللہ۔ جب کہ بعض فرقوں میں روزہ رکھنے اور کھولنے کے مختلف دیگر اوقات بھی ہیں۔بعض لوگ 24گھنٹے کاروزہ رکھتے ہیں،بعض36گھنٹے کاروزہ رکھتے ہیں اور بعض کاروزہ 72گھنتے تک طویل بھی ہوتاہے۔اس کے برعکس بعض لوگ صرف دعا کے وقت ہی کھانا پیناموقوف کردیتے ہیں اور اسی کو روزہ سمجھتے ہیں۔بہرحال مذہب مسیحیت کے مطابق جو جتنی دیر بھوکاپیاسا رہے گااتنا اجر پائے گااور روزہ سب مسیحیوں کے لیے فرض نہیں ہے بس یہ عمل خاص مقاصد کے لیے کیاجاتاہے جس کے لیے شریعت میں کوئی خاص دن یا مہینہ مقرر نہیں،جو جب چاہے روزہ رکھ لے،جس طرح اور جیساچاہے رکھ لے۔
حضرت عیسی علیہ السلام کاجوقول متی نے اپنی انجیل میں بیان کیاہے اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ روزہ بجائے خود کوئی مقصد نہیں ہے بلکہ مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے کیونکہ روزہ رکھ کر اپنے اس خداوند خداکوخوش کرناہے جو انسان کے اندر پوشیدہ طورپر موجود ہے۔لیکن بعد کے آنے والے ادوار میں اورخاص طورپر چوتھی صدی مسیحی میں جب راہبانیت نے اس مذہب میں زورپکڑاتو بھوکاپیاسارہنااور دیگر متعدد طریقوں نے فاقہ کشی ونفس کشی کرنا بجائے خودمقصد بن گیا اور ترک دنیاکے متعددطرق راہب مرد اور راہب خواتین میں رواج پا گئے۔کسی نبی کی تعلیمات فطرت سے متصادم نہیں تھیں لیکن بعد میں آنے والوں نے ان تعلیمات کواپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرلیا۔اس تبدیلی یعنی تحریف کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی وجہ یہ تھی کہ انجیل یا حضرت عیسی علیہ السلام کی بنیادی تعلیمات جس زبان میں تھیں وہ زبان متروک ہو گئی۔نئی مروجہ زبانوں میں اناجیل کے ترجمے کیے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ زبانیں بھی متروک ہو کر ماضی کے صحیفوں میں دفن ہو گئیں اور اس طرح کئی زبانوں سے ترجمہ ہوتے ہوتے یہ انجیل مقدس اپنی اصلیت کہیں کھو بیٹھی۔اس سب پر مستزاد یہ کہ اصل انجیل کا حقیقی مخطوطہ آج موجود ہی نہیں۔ان پے درپے تاریخی حوادث کے نتیجے میں ملت مسیح کسی ایک نقطے پر جمع نہ ہو سکی۔علاقائی بعد نے فکری فاصلے پیداکیے اور یوں اتحادشریعت پارہ پارہ ہوگیا۔اس کے مقابلے میں قرآن مجیدکے بھی متعدد تراجم ہوئے لیکن توفیق خداوندی سے قرآن مجید کا حقیقی متن آج تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور قرآن مجید کی زبان بولنے والے از شرق تاغرب پوری دنیامیں موجود ہیں۔قرآن مجیدنے بھی وہی تعلیمات پیش کی ہیں جو انجیل مقدس میں یسوع مسیح حضرت عیسی علیہ السلام نے پیش کی تھیں اورقرآن مجید نے اہل کتاب کو دعوت بھی دی ہے کہ آؤ مشترکات پر ہم باہم جمع ہوجائیں۔