ڈاکٹر ۔۔۔کو بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار کر جیل بھیج دیا گیا ۔وہ کوٹھری کی سلاخوں سے گم صم گھنٹوں لپٹا رہتا ۔کبھی مٹھیاں بھینچتا، کبھی جبڑوں کو اس سختی سے بھینچتا کہ گردن کی رگیں ابھر آتیں ۔۔آدھی آدھی رات تک کوٹھری میں ٹہلتا اور دیواروں پر مکے مارتا ۔۔۔ساتھی قیدیوں کو اس کی دیوانگی سے ڈر لگنے لگا تھا ۔۔روز اول سے اب تک کسی نے اسے بات کرتے نہیں دیکھا ۔۔کچھ تو اسے گونگا سمجھنے لگے تھے ۔۔۔بعض خیال کرتے شاید اعصابی ہیجان نے اس کے نقطۂ سماعت کو متاثر کیا ہو !!
کورٹ میں حاضری ہوتی ۔۔۔استغاثہ و دفاع کی بحثیں چھڑتیں ۔۔گواہوں سے جرح ہوتی ۔۔مگر وہ ان سب سے بے نیاز سر جھکائے کھڑے رہتا ۔۔۔صفائی پر استفسار پر ہر بار نفی میں سر ہلادیتا۔۔ڈاکٹری معائنہ بے سود۔۔باوجود کوششوں کے زبان کھلوانے سے قاصر ۔۔سختی کرنے پر اور زیادہ سختی سے ہونٹ بھینچ لیتا ۔۔پندرہ سال بیت گئے ۔۔۔آج عدالت نے فیصلہ سنایا ۔
،،ناکافی شواہد کی بنا پر عدالت ڈاکٹر ۔۔۔کو باعزت بری کرتی ہے ۔،،
جیسے ہی یہ الفاظ عدالت میں گونجنے ۔۔۔حاضرین نے معجزہ دیکھا ۔۔پندرہ برس سے گونگا ہذیانی انداز میں برس پڑا ۔
،،کیوں پندرہ سال بعد بری کیا گیا ؟۔۔عمر عزیز کے پندرہ سال گزرنے کے بعد ؟۔۔ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلنے کے بعد ؟؟۔۔۔بیٹے کے غم میں جھوجھتے والدین کو کھونے کے بعد ؟؟۔۔سوسائٹی میں مقام کھونے کے بعد ؟؟۔۔کیا قانون یہ سب مجھے واپس کردے گیا ؟؟؟
اور ،۔۔آنرایبل!۔۔قانون نے گزشتہ پندرہ برسوں سے یہ کیوں نہ سوچا کہ ،،،ڈاکٹر تو مسیحا ہوتا ہے ۔!وہ دوسری کی جان بچاتا ہے ۔۔وہ کس طرح بے گناہوں کی جان لوگوں سکتا ہے !!!