مسیحی کہتےہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں خدائی تھی۔
قرآن مجید میں ہے۔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِـيْم۔31/13 بیشک شرک کرنابڑابھاری ظلم ہے۔ خدا کی خدائی میں یعنی کہ اللّٰہ کی الوہیت میں کوئی شریک نہیں ہے۔(64۔27/59)
ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّـٰهِ ۚ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُـمْ صَادِقِيْنَ ۔ 27/64۔
کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الہ ہے، کہہ دے اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔
جبکہ یوحنا انجیل میں لکھا ہے کہ۔۔۔
"اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا۔ یہی اِبتدا میں خُدا کے ساتھ تھا". یوحنا انجیل باب نمبر1۔ اورآ گے چل کر لکھا ہے۔
"اور کلام مجسم ہوا ،اورفضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا،اور ہم نے اس کا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال"
یوحنا انجیل باب نمبر1 آیت نمبر 14
عقیدہ تثلیث؛
باپ سے مراد خدا کی تنہا ذات ہے۔ بیٹے سے مراد خدا کا صفت کلام۔ روح القدس سے مراد باپ اور بیٹے کی صفت حیات اور صفت محبت ہے۔
عقیدہ تثلیث کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تین اقنوم یا شخصیتوں پر مشتمل ہے۔ خدا کی ذات، جسے باپ کہتے ہیں۔ خدا کی صفتِ کلام، جسے بیٹا کہتے تھے اور خدا کی صفتِ حیات و محبت جسے روح القدس کہا جاتا ہے ان تین میں سے ہر ایک خدا ہے۔لیکن یہ تینوں مل کر تین خدا نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی خدا ہیں۔
مسیحی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں خدائی تھی۔ آسان الفاظ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں الوہیت تھی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ الوہیت میں کوئی شریک نہیں ہے۔ یہی تو سب سے بڑا شرک ہے۔
اللّـٰهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍۚ لَّآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ۔ 40/62
اللہ تمہارا رب ہے ہر چیز کا پیدا کرنے والا، اس کے سوا کوئی الہ نہیں۔
مسیحی علماء اپنے پیروکاروں کو کیوں نہیں بتاتےکہ انجیل مقدس میں باپ سے مراد رب اور بیٹے سے مراد بندہ یعنی کہ عبد ہے۔
دیکھیئے انجیل متی باب نمبر 6 آیت نمبر 9-10۔ پس تم اس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے ۔۔۔۔
مسیحی کہتے ہیں کہ حج کے موقع پر مسلمان کہتے ہیں۔ لاکھوں فرزندانِ توحید نے فریضہ حج ادا کیا۔ اسی طرح مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔
مسیحیوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ مسلمان اپنے بارے اور حتیٰ کہ رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بارے میں نعوذباللہ نہیں کہتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں خدائی یعنی کہ الوہیت تھی۔
اللّٰہ تعالٰی کا اسم ذاتی۔ " اللّٰہ" ہے۔ اللّٰہ تعالٰی کے صفاتی اسماء جیسے الکریم ، الغفور ، الرحیم بیشمار ہیں۔ 18/109.
اللّٰہ خالق کی ذات وصفات ازلی و ابدی اور مخلوق کی ذات و صفات حادث ہیں۔ خالق اور مخلوق کی صفات میں یہ صرف لفظی کی مثالیں مخلوق میں بتائی جائیں۔
(1). فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّـٰهِ الْاَمْثَالَ ۔ 16/74.
پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو۔
(2)۔ وَلِلّـٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى. 16/60۔
اور اللہ کی ذات وصفات کی مثال سب سے اعلیٰ ہے.
(3). لَـهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ۔30/27 ۔
آسمانوں اورزمین میں اس کی شان نہایت بلند ہے۔
(4). لَيْسَ كَمِثْلِـهٖ شَيْءٌ ۖ.42/11۔
کسی مخلوق میں اس کی مثل نہیں۔
(5). وَجَعَلُوْا لَـهٝ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا 43/15 ۔
اور لوگ اس کے بندوں کو اس کا جز بنا دیتے ہیں۔
مسلمان لفظ توحید بمعنی دین استعمال کرتے ہیں۔اسلام کے بیٹے۔ ہر مسلمان کو ماننا پڑے پڑتا ہے کہ اس کا دین توحید ہے۔ لفظ " الواحد " اللّٰہ کا صفاتی نام ہے۔مسلمان نعوذباللہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی الواحد کا بیٹا ہے۔
قرآن کریم میں لفظ ابن یعنی کہ بیٹے کےمعنی " والے" ہیں۔ اورجو اپنا مال اللّٰہ کی محبت میں قریبی رشتہ داروں ، یتیموں، مسکینوں، راستہ چلنے والوں، سوال کرنے والوں اور غلاموں کو آزاد کروانے پر خرچ کرتے ہیں۔
وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَالسَّآئِلِيْنَ وَفِى الرِّقَابِۚ ۔2/177
حدیث مبارکہ میں ابو یعنی کہ باپ کے معنی" والے" ہیں۔ مشہور صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ کا نام عبد الرحمن بن صخر ہے ”ابوہریرہ“آپ کی کنیت ہےاور”ابوہریرہ“ کنیت رکھنے کی و جہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایک بلی تھی جس کو وہ اپنے ساتھ رکھتے تھے اسی لیے آپ کی کنیت ابوہریرہ پڑگئی، واضح رہے کہ جس طرح ”اب“ کے معنی باپ کے آتے ہیں اسی طرح ”والے“ ”والا“ کے بھی آتے ہیں اس اعتبار سے ابوہریرہ کا مطلب ہوا ”بلی والا“ ہے۔
مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ قرآن کریم کو ترجمہ اور تفاسیر کے ساتھ سمجھ کر پڑھا کریں۔ دعاگو ۔۔۔۔۔افتخاراحمد