مشرقی یوپی کے باکمالوں نے ہندوستان میں علم وتحقیق، درس و تدریس اور تصوف و ارشاد کے میدانوں میں نمایاں خدمات پیش کی ہیں،اس حقیقت سے صرف ِ نظر ناممکن ہے لیکن تعلیم و تدریس اور اصلاح و ارشاد کی زمینی حقیقتوں کو دیکھ کر ہر صاحب ِ نظر کو محسوس ہوتا ہے کہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ابھی بھی ہماری مٹی کو مزید خون و پسینے کی ضرورت ہے۔ ایک اصلاح پسند نوجوان اس نتیجے تک پہنچ تو جاتا ہے لیکن مختلف اسباب کی وجہ سے عملی اقدام کرنے سے قاصر رہتا ہے۔سلمان کبیر نگری ایک اصلاح پسند نوجوان اور قلمکارہیں،انہوں نے ان تمام بیڑیوں کو توڑ کر امت مسلمہ کا ’ہراول دستہ‘بننے کے راستے کواپنالیا ہے اور اپنی کوششوں کو تمازت دیتے رہنے اور اپنی حدی خوانی کو نیا آہنگ عطا کرتے رہنے کے لیے ’نئی روشنی‘ کے نام سے ایک سہ ماہی مجلے کا اجرا کیا ہے۔ ’نئی روشنی‘ کے اپریل تا جون کا شمارہ ابھی حقیر کے سامنے ہے۔اس کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ سلمان کبیر نگری نے اپنے اس اصلاحی سفر میں ایک ’کاروان‘کو شریک کر لیا ہے۔ اس کاروان میں چار درجن علماء و جدید تعلیم یافتہ فضلاء ان کے ساتھ شریکِ سفر ہیں۔ یہ سبھی اسماء پہلے سے ہی اپنی اصلاحی و تعلیمی کوششوں کے لیے معروف ہیں۔ سلمان کبیرنگری کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان سبھی راہرو کو اپنا رہبر تسلیم کیا ہے اور ان کے ساتھ مل کر مشرقی اترپردیش میں تعلیم و اصلاح کی ایک نئی جوت جگانے کی کوشش کی ہے۔
مجلہ ’نئی روشنی‘ اپنے سفر کے چھٹے سال میں داخل ہو چکا ہے اورکامیابی کے ساتھ اپنے دائرہ کار میں اثر بناتا جا رہا ہے۔مجلے کے ذریعے مدیر کی کوشش ہوتی ہے کہ قوم کے نونہالوں کی شخصیت کے ارتقاکے سبھی ضروری پہلوؤں کااحاطہ کیا جائے اور ان کی مناسب رہنمائی کی جائے۔ مشمولات کے اعتبار سے مجلہ تنوع کے ساتھ ساتھ کافی حد تک ارتکاز کا پہلو بھی لیے ہوئے ہے۔اس طرح کے فوکسڈ اصلاحی رسالے کے لیے یہ ضروری بھی ہوتا ہے۔ورنہ ہر چیز پروس دینے کے چکر میں رسالہ پرتکلف دسترخوان کی ’تھالی‘کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور مقصدیت فوت ہوجاتی ہے۔سلمان کبیرنگری جیسے صاحبِ نظر مدیر اس عیب سے کافی حد تک بچے ہوئے ہیں۔اس کا اندازہ 32/صفحات کے اس مختصر سے رسالے کے 25/ مضامین کے عنوانات کو دیکھ کر بخوبی ہوتاہے۔ مضامین کو یک صفحی مگر جامع رکھنے کی کوشش صاف دکھتی ہے۔
اداریہ کسی نہ کسی تعلیمی یا اصلاحی پہلو پر روشنی ڈالتا ہے اور مدیر کی معاملہ فہمی اور قوت استدلال کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس بار کے اداریے میں سلمان کبیر نگری نے پہلے ہی جملے میں قاری کو چونکایاہے اور غور و فکر پر مجبور کیا ہے، یہ کہہ کر کہ’تعلیم ہر شخص کی بنیادی ضرورت ہے تاکہ وہ اچھا انسان بن سکے، آج جہاں دنیا اتنی آگے بڑھ گئی ہے اتنا ہی دین کو مسلمان پیچھے چھوڑتے چلے جا رہے ہیں‘ اس نوع کی فکر مندی سلمان کبیر نگری جیسے نوجوان مدیر کی پوٹینشیل اور قوت ارادی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ’مغربی تہذیب کی تباہ کاریاں‘(محمد شفیق قاسمی)،’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘(محمد اسجد قاسمی)،’اسلام میں خواتین کی قربانیاں‘(سلطان سعد سلفی)،’لباس شریعت کی نظر میں‘(ابوالکلام قاسمی)،’موجودہ دور میں جمہوریت سے سوال‘(عبدالحفیظ کبیرنگری) اور ’اسلامی سیاست‘(شعیب نسیم سعیدی کبیرنگری) جیسے مضامین رسالے کے وقار میں اضافہ کر رہے ہیں۔ 9918165041 پرمدیر سے رابطہ کرکے نمونے کی کاپی طلب کی جاسکتی ہے۔ اس سے نئے کام کرنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور آپ کو دین کا صحیح شعور حاصل ہوگا۔رہے نام اللہ کا۔