(Last Updated On: )
وقت کی آندھی نے گہنائے کیسے کیسے چاند
(۱۹۴۶ء۔۱۹۹۸ء)
مشہور زمانہ لوک گیتوں اور قوالیوں کے بے ب تاج شاعر محمد صغیر المعروف بری نظامی پاکستانی ادبیات کے افق پر ضو فشاں وہ ماہتاب جس کی چاندنی گزشتہ پانچ عشروں سے ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا ۔وہ بصیرت سے لبریز آنکھیںجنھوں نے ۲۶ دسمبر ۱۹۴۶ء کی صبح ٹوبہ ٹیک سنگھ کے محلہ اسلام نگر میں پہلی بار اس عالم آب و گل کو دیکھا۔وہ ۱۴ مئی ۱۹۹۸ء کو جوالا نگر فیصل آباد میں ہمیشہ کے لیے مندھ گئیں۔اس کے ساتھ ہی پاکستان پنجابی ادب کے فن ِ موسیقی اور قوالی کے ایک درخشاں عہد کی تابانیاں بھی ماند پڑ گئیں۔فیصل آباد کے محلہ سمن آبادکے شہر خموشاں کی زمین نے پنجابی ادب کے اس آسمان کو اپنے دامن میں ہمیشہ کے لیے چھپا لیا۔
پنجابی ادب اور فنِ موسیقی کو اپنے خون جگر سے تابانی عطا کرنے والی اس انتھک ادیب کی زندگی کی عظیم کہانی لوحِ جہاں پر انمٹ نقوش ثبت کر گئی۔اس عالم آب و گل میں موجود ہر شے مسافر ہے اور ہر چیز راہی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موت سے کسی کو رستگاری نہیں اور ہم سب راہ رفتگاں پر گامزن ہیں۔سب لوگ کمر باندھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔آج ایک شخص دائمی مفارقت کے لیے رخت ِ سفر باندھنے والوں کے الم نصیب لواحقین غم و اندوہ کے ٹل جانے کی التجا کرتے ہیں لیکن گل چیں ازل کوکب ترس آتا ہے ۔شہ رگ کی طرف بڑھتے ہوئے اجل کے ہاتھ کو کون روک سکا ہے ۔کاتب تقدیر کی طرف سے اجل کے ہاتھ میں ہر روز ایک پروانہ تھما دیا جاتا ہے اور اس پروانے میں جس کا نام ہوتا ہے وہ زینہ ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جاتا ہے یوں مرجھا جانے کا سانحہ ہو جاتا ہے۔
؎سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا کیا صورتیں ہو گی کہ پنہاں ہو گئیں
پاکستانی ادبیات کے گیت نگاری کے افق پر ضو فشاں وہ ماہتاب جس کی چاندنی نے پانچ عشروں سے چہار سو اُجالا کئے ہوئے تھا ،جن کے قلم سے نکلے ہوئے بول پوری دنیا میں گونج رہے تھے ،موت کے بے رحم ہاتھوں نے اس فطین ،زیرک اور محنتی تخلیق کار سے ہمیشہ کے لیے قلم چھین لیا۔اس کے قلم سے ’’دم مست قلندر مست مست‘‘ اور ’’ وے بول سانول،نہ رول سانوں ‘‘ جیسے سدا بہار گیتوں نے فن موسیقی کے بے تاج بادشاہ نصرت فتح علی خان قوال اور عطا اللہ عیسی خیلوی جیسے فنکاروں کو شہرت دوام کی منزل تک پہنچا دیا۔
اس کے لکھے ہوئے گیت اور قوالیاں ریکارڈ کروا کروا کر فروخت کرنے والی کمپنیوں نے کروڑوں روپے کمائے اور شہرت کی بلندی کو چھوا لیکن اس شاعر کا اپنا حال ایسا تھا کہ مرتے وقت اس کے پاؤں میں گنگرین کا مرض بڑھ جانے سے اس کے پاس اچھا علاج کروانے کے لیے پیسے تک نہیں تھے اور وہ بے بسی کی تصویر بنا فیصل آباد کے نیشنل ہسپتال کے وارڈ میں کسمپرسی اور لا چارگی سے بیماری کا مقابلہ کرتے کرتے آخر زندگی کی بازی ہار گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ شیخ قوم کے اس خاندان کو انگریز سرکار کی طرف سے خاطر خواہ زمین خانیوال میں تحصیل کبیر والا کے قریب چک نمبر ۵ (ماہی دی کسی) میں الاٹ ہوئی تھی،اس گاؤں کا نام شیخ ماہی کے نام پر رکھا گیا جو کہ بری نظامی کا دادا تھا۔شیخ ماہی کے پانچ بیٹے تھے،جب بھائیوں میں جائیداد کی تقسیم ہو گئی تو بری نظامی کے دادا شیخ غلام محمد ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہجرت کر کے کاشتکاری کے ساتھ ساتھ کپاس کی آڑھت کا کاروبار کرنے لگے۔
فیصل آباد (لائل پور) سے شائع ہونے والے اخبار’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کے مالک چودھری شاہ محمد عزیز سے انھوں نے مشترکہ کاروبار کر لیا۔دو سال کی عمر میں بری نظامی کا خاندان گوجرہ چلا گیا ۔گوجرہ میں وہ ایم بی پرائمری سکول اور ایم بی ہائی سکول میں پڑھتے رہے۔ ۱۹۶۳ء انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا لیکن آگے مزید تعلیم حاصلکرنے کے بجائے ان کے والد نے ان کو محنت مزدوری پر لگا دیا۔جب ان کے والد کو معلوم ہوا کہ میرا بیٹا محنت مزدوری صحیح طرح سے نہیں کر سکتا تو ان کے والد نے چیچہ وطنی میں اپنا کاروبار شروع کر کے محمد صغیر کو وہاں بھیج دیا ۔نوجوان کا چیچہ وطنی میں دل لگ جانے پر شیخ قبیلے میں خوشی منائی کہ محمد صغیر سنجیدہ ہو کر اپنے کاروبار میں دلچسپی لے رہا ہے لیکن جس دن شیخ غلام محمد کو یہ خبر ملی کہ محمد صغیر کا اپنے کاروبار میں دل لگنے کے بجائے وہاں کسی لڑکی سے دل لگ گیا ہے تو ان کے دل کو بہت ٹھیس لگی۔جب ان کو یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ لڑکی کسی پولیس آفیسر کی بیٹی ہے تو شیخ غلام محمد کی پریشانی مزید بڑھ گئی۔شیخ غلام محمد بوجھل دل سے چیچہ وطنی پہنچے اور صغیر کو بہت ڈانٹا اور سمجھایا۔
پھر اس پر سختیاں بھی کی گئیں لیکن سر پر سوار عشق کا بھوت آسانی سے اترنے والا نہیں تھا ۔دوسری طرف بھی عشق کا جادو سر چڑھ کر اپنا اثر دکھا رہا ہے ۔غرض کہ عشق کی آگ دونوں طرف یکساں تھی۔شیخ غلام محمد کو ایک دن معلوم ہوا کہ لڑکی کا باپ کو اس معاملے کا علم ہو گیا ہے جس کی پاداش میں اس نے اپنی بیٹی کو خوب زدوو کوب بھی کیا۔بعد ازاں وہ نوجوان محمد صغیر کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ شیخ غلام محمد کو اس ساری صورت حال کا علم ہوا تو وہ اپنے بیٹے کو مار پیٹ کر اپنے ساتھ لائل پور لے آئے۔مہینہ دو مہینہ گزرنے کے بعد ان کے والد نے سمجھا کہ ان کے سر سے عشق کا خمار اتر گیا ہے ۔ چیچہ وطنی میں لگائے کارخانہ میں بڑے مالی نقصان کے بعد ان کے باپ میں اب اتنی سکت نہیں رہی تھی کہ وہ محمد صغیر کو اب بھی کوئی ذاتی کاروبار کرا دے۔اس لیے انھوں نے اپنے بیٹے گٹھڑی میں کپڑا باندھ کر مختلف دیہات میں فروخت کرنے کا مشورہ دیا۔آخر کار محمد صغیر مختلف دیہات میں کسی ونجارہ کی طرح پھیری لگاتا اور خواتین اور بچوں کے لیے کپڑے اور دوپٹے وغیرہ فروخت کرتا اور شام کو تھک ہار کر اپنے سائیکل کے ساتھ گھر لوٹ آتا۔
ہر روز اسی مشقت سے کام کرتے کرتے محمد صغیر کا اس پیشے میں دل لگ گیا۔ایک دن پھیری لگاتے ہوئے کسی کے آواز کے ساتھ ہی ایک گھر کا دروازہ کھلا تو اس کے قدم وہیں جم گئے۔آنکھیں چار ہوئیں تو سامنے وہی پری پیکر چہرہ جس کی خاطر وہ اس نوبت تک پہنچا تھا ۔کھڑا تھا۔دونوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں ۔زبانیں گنگ ،آّنکھوں سے گفتگو جاری رہی ۔اس گاؤں میں اپنے محبوب کو اچانک دیکھ کر وہ حیرت میں ڈوب گیا۔محمد صغیر وہاں سے چلا تو آیا مگر اس کی خوشبو اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔محمد صغیر نے لوگوں سے معلوم کیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے والدین نے اس کے عاشق سے دور رکھنے کے لیے لڑکی کو اس کے رشتہ داروں کے گاؤں میں بھیجا ہوا ہے۔
محمد صغیر کی محنت مزدوری اب پھر دل لگی میں بدل گئی۔اس دن وہ بیس والا کپڑا دس روپے میں فروخت کر کے اپنی گٹھڑی خالی کر بیٹھا تھا۔سستا کپڑا خرید کر گاؤں والے ایک طرف یوں خوش ہو رہے تھے تو دوسری طرف اس سے مانوس بھی ہو گئے تھے۔اس طرح سستا کپڑا فروخت کر کر کے محمد صغیر پھر معاشی پریشانیوں گھر گیا۔
اس طرح اس ساری صورت حال کا لڑکی کے والدین کو دوبارہ علم ہو گیا۔ سب سے پہلے انھوں نے لڑکی کی کہیں منگنی کی اور پھر جلد اس کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں لیکن تیسرے ہی دن لڑکی کے اچانک مرنے کی خبر نے قرب و جوار کے دیہات مٰں طوفان برپا کر دیا ۔اس کے والدین کا کہنا تھا کہ لڑکی بیماری کی حالت میں فوت ہوئی ہے لیکن یہ بات لوگوں کے ماننے میں نہیں آ رہی تھی۔ اپنے محبوب کے اچانک مر جانے پر محمد صغیر کی حالت پاگلوں کی سی ہو گئی ۔وہ جان چکا تھا کہ اس کا محبوب عشق میں اس سے بازی لے گیا ہے۔
غلام مصطفی ہمدانی نے کہا تھا:
؎دنیا میں جب تلک کہ میں اندوہ گیں رہا
غم دل سے اور دل سیمرے غم، قریں رہا
والدین اور بہن بھائیوں کے علاج معالجے سے محمد صغیر مرنے سے تو بچ گیا لیکن اس کی شخصیت کے سارے بُت چکنا چور ہو گئے تھے۔اس چوٹ نے اس کے دل پر کاری ضرب لگائی کہ اس کی سوچوں کا مرکز ہی بدل گیا۔ان وہ محمد صغیر نہیں رہا تھا بل کہ ’’بری نظامی‘‘ بن چکا تھا۔
محمد صغیر سے بری نظامی تک کے سفر میں اس نے اپنے محبوب سے بے وفائی نہیں کی بل کہ اس کے نام کے پہلے حرف ’’ب‘‘ سے ’’بری‘‘ لگا کر پیار کا آخری گھونٹ بھی پی لیا۔ بری نظامی سارا دن گلیوں ،بازاروں میں خاموش گھومتا پھرتا اور اندھیرا چھا جانے پر گھر واپس آ جاتا اور گھر آ کر بھی خاموشی سے گھورتا رہتا۔اسی طرح ایک رات وہ حسب معمول اداسی میں دوبا ہوا تھا کہ اس نے کچھ لکھنے کی ہمت کی تو اسے معلوم ہوا کہ اس نے چند شعر لکھ ڈالے ہیں۔زندگی میں اس کے قلم سے لکھے ہوئے شعر اس نے اپنے محبوب کی طرف سے بری کے اپنے خلاف شکوے کی داستان سنا رہے تھے۔
؎جھوٹے لارے لا جاندے نیں،وعدیاں دے ونجارے لوک
ایہناں نوں کیہ اکھاں میں ،جنھاں توں نیں وارے لوک
جانو سی کوئی وِرلا وِرلا، میرے ناں توں یار بریؔ
ہن تے تیرے عشق صدقہ، مینوں جانن سارے لوک
بری کے لکھے یہ پنجابی اشعار جب کسی صاحب علم نے پڑھے تو اس نے حیرانی سے کہا ۔
’’بری! تم نے تو اچھی خاصی غزل لکھ دی ہے۔تم ارشد مارکیٹ ،جھنگ بازار فیصل آباد میں ہو رہے مشاعرہ میں یہ غزل سناؤ۔‘‘
بری ؔنے قصد کر لیا کہ وہ ضرور اس مشاعرہ میں اپنی غزل سنائے گا۔پھر جب اٹھارہ سال کے نوجوان نے اس اس مشاعرہ میں اپنی غزل سنائی تو ہر طرف سے واہ واہ کی صدائیں گونجنا شروع ہو گئیں اور لوگ یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر یہ نوجوان کون ہے جو پہلی ہی بار اپنا کلام سنا کر اتنی داد سمیٹ کر واپس گیا ہے۔اس مشاعرہ میں اس غزل کا مقطع سن کر مشاعرہ کے صاحب صدر نے اپنی مسند ِ صدارت سے اٹھ کر فرط جذبات سے اس نوجوان بریؔ کا ماتھا چوم لیا ۔۱۹۶۵ء میں ارشد مارکیٹ جھنگ بازار میں ہونے والے اس عظیم الشان پنجابی مشاعرہ کی صدرات بابائے غزل پیر فضل گجراتی کر رہے تھے۔بری نظامی نے انھیں پنجابی شاعری میں اپنا استاد مانا اور پھر ایک عظیم شاعر اور استاد کی حوصلہ افزائی نے بریؔ کو پختہ شاعر بنا دیا۔
شادی اور آل و اولادـ:
بری نظامی کی اداس اور منتشر زندگی کو سنوارنے اور اس میں رنگ بھرنے کے لیے اس کے والدین نے اس کی شادی ۱۹۶۸ ء میں عارف والا میں شیخ غلام نبی کی بیٹی سے کر دی۔بری نظامی کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔بیٹوں میں شکیل بری،عقیل بری،اور جمیل بری شامل ہیں۔بری نظامی اپنی زندگی میں کسی بھی بیٹے ،بیٹی کی شادی نہ کر سکے اور نہ ہی اپنا ذاتی گھر بنا سکے ۔ دو بڑے بیٹے پلاسٹک کے برتنوں کا کاروبار کرتے ہیں جب کہ چھوٹا بیٹا جمیل بری میٹرک میں زیر تعلیم ہے۔
پنجابی زبان و ادبیات کی خدمات:
پنجابی زبان و ادبیات کے فروغ کے لیے بری نظامی کی خدمات قابل ذکر ہیں۔’’پنجابی بزم ادب‘‘ کے سیکرٹری نشرو اشاعت بننے کے بعد انھوں نے پنجابی زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے مثالی کام کیا ۔ اس بزم میں ان کے ساتھ حافظ محمد حسین حافظ ،صائم چشتی،رفیق ساقی اور جوہر جالندھری جیسے معروف شاعر شامل تھے۔اس کے علاوہ ان کا یاد گار کارنامہ یہ کہ کہ بری نظامی اور ان کے کچھ ادبی دوستوں نے باہمی تعاون سے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے وقت دھوبی گھاٹ لائل پور میں کل پاکستان مشاعرہ کروایا جو اپنی نوعیت کا منفرد ،تاریخی اور یاد گار مشاعرہ تھا جس میں ستر ہزار سے زائد حاضرین اس مشاعرہ سے محفوظ ہوئے تھے۔
اس یاد گار مشاعرہ کی صدارت پیر فضل گجراتی نے کی تھی۔جب کہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض خلیق قریشی نے سر انجام دیے تھے اس مشاعرہ میں شرکت کی غرض سے لاہور سے بطور خاص نامور شعرا منظور جھلا اور ڈاکٹر رشید انور تشریف لائے تھے۔بری نظامی اپنی زندگی میں اپنا کوئی مجموعہ کلام نہیں چھپوا سکے تھے البتہ ان کی وفات کے بعد ان کے دوست اور ان کی اخبار ’’ ہفت روزہ بری نظامی‘‘کے ایڈیٹر محمد جمیل سراج نے۹ ۱۹۹ء ان کا مجموعہ کلام ’’قدراں‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔
بری نظامی کی شاعری میں انسان کی عظمت کا تصور نمایاں نظر آتا ہے ،ان کے خیال میں انسان نے زندگی کے ہر شعبے میں جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان عظیم ہے کیوں کہ اس کی کوششوں اور کاوشوں سے زندگی ارتقا کے راستے پر گامزن ہوتی ہے وہ زندگی کو سنوارتا ہے اس میں رنگ بھرتا ہے۔۔بری نظامی نے صرف گل و بلبل ،عشق و عاشقی اور ہجر و فراق کو ہی اپنی شاعری کا حصہ نہیں بنایا بل کہ ایک پختہ شاعر کی طرح لوگوں کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ان تمام موضوعات پر قلم اٹھایا ہے جو ہماری روزمرہ کی زندگی میں در آتے ہیں،ہمیں مجبور کرتے ہیں ۱۹۶۹ء میں انھوں نے آمریت کے خلاف کھل کر آواز بلند کرتے ہوئے اس نظام کی بھر پور مذمت کی:
؎دیس میرا آزاد اے یارو
دَور نالے جمہوری اے
حق دی گل میں کہہ نہیں سکدا
بس اینی کو مجبوری اے
بری بڑے بڑے سیاسی جلسوں میں انقلابی اور مزاحمتی نظمیں پڑھتے ،وطن عزیز میں تین بار لگے مارشل لائی دَور میں ان کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔تینوں ادوار میں ان پر مقدمے چلے ،جیلوں کے اسیر بنے لیکن حق و صداقت کی بات کرنے سے نہ رُکے۔۱۹۸۰ء میں رحمت گراموفون ہاؤس امین پور بازار فیصل آباد کے مالک چودھری رحمت علی سے بری کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے بری کو سمجھایا ۔
’’ بری! تم ہر چوتھے روز جیل پہنچتے ہو ،تم شاعری ضرور کرو لیکن اپنے آل پروارکے لیے ۔کوئی روٹی کا آسرا بھی ہو۔میں تجھے دو شخصیتوں سے ملواتا ہوں تم ان کے لیے قوالیاں اور گیت لکھا کرو ،تمھارا نام چمکے گا اور پیسے سے گزارا بھی اچھا ہونا شروع ہو جائے گا۔‘‘
بعد ازاں چودھری رحمت علی نے بری نظامی کی ملاقات دو شخصیات نصرت فتح علی خاں اور عطا اللہ عیسیٰ خیلوی سے کروا دی۔بری نظامی نے نصرت فتح علی خاں کو جو سب سے پہلے قوالی لکھ کر دی اس کے بول اس طرح ہیں:
جا مُڑ جا اجے وی گھر مُڑ جا
نی عشق وچ کیہ رکھیا
جا ٹُر جا اجے وی گھر ٹُر جا
نی عشق وچ کیہ رکھیا
کیسٹ ریلیز ہوئی تو اس قوالی کو بہت پسند کیا گیا۔بس پھر کیا تھا ایک کے بعد دوسرا ۔۔۔۔۔شروع شروع میں بری نظامی کلام پہلے لکھ لیتے تھے اور نصرت فتح علی خاں اس کے حساب سے دھن بنا لیتے تھے۔بعد ازاں بری نظامی کو تجربہ ہو گیا کہ وہ نصرت فتح علی خاں کی پہلے سے بنائی ہوئی دھنوں کے لیے حقیقتاً مناسب بول تیار کرلیتے تھے۔عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی گائیکی کو اپنے خوبصورت اور سریلے الفاظ کے ذریعے جان بخشنے کا کام بھی بری نظامی نے ہی کیا۔اس گیت کے بول یہ تھے۔
اُوٹھاں والے ٹُر جان گے
نی سسیے جاگ دی رہیں
فر لبھدی پھریں گی ہانی
رات اج دی نیند نی مانی
اُوٹھاں والے ٹُر جان گے
بری نظامی کے قلم سے جو قوالیاں نکلیں جن کے ذریعے ان کا کلام بین الاقوامی سطح پر گونجنا شروع ہو گیا ۔ایسے محسوس ہونے لگ پڑا جیسے پوری دنیا کو ہی پنجابی گائیکی کے جادو نے اپنے حصار میں لے لیا ہو۔
ان کے گیتوں اور قوالیوں کے بول درج ذیل ہیں:
٭۔دم مست قلندر مست مست
٭۔کِنا سوہنا تینوں رب نے بنایا ،دل کرے ویکھدا رہواں
٭۔دل مر جانے نوں کیہ ہو سجناں،کدے وی نہیں اج جنا رویا سجناں
٭۔میں چھم چھم نچدی پھراں
٭۔دس دس وے چھناں دیا پانیاں
٭۔وگڑ گئی تھوڑے دناں توں،دوری اے تھوڑے دناں دی
٭۔انج پِنڈی تے پشور لگا جاندا
٭۔وے بول سانول
٭۔کملی والے محمد ؐ توں صدقے میں جاں
٭۔تساں کوں مان وطناں دا
٭۔گِن گِن تارے لنگھ دیاں راتاں
٭۔دکھاں دیاں دھپاں ساڑ گئیاں نیں
محمد جمیل سراج ایڈیٹر ’’ ہفت روزہ بری نظامی‘‘ رقمطراز ہیں:
’’ فروری ۱۹۹۷ء کو میری اور بری نظامی کی نصرت فتح علی خان کے گھر ہونے والی ملاقات منفرد تھی ۔اس وقت مجھے بری نظامی اور نصرت فتح علی خاں کاا پنے اپنے فن پر عبور کا پتہ چلا۔دونوں نے پوری رات ریاضت میں گزار دی۔بری شاعری کرتے رہے اور نصرت فتح علی خاں ان کی مختلف دھنیں ترتیب دیتے رہے۔اس موقع پر اردو کے مشہور شاعر پر نم آلہ آبادی بھی موجود تھے میں تینوں کو ساری رات سنتا رہا۔‘‘
پنجابی شاعروں میں بابا عبیر ابو زری کے ساتھ بری نظامی کی گہری عقیدت تھی۔عبیر ابو زری گہرے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے رشتے دار بھی تھے۔اپنی بے تکلف دوستی کے باوجود پنجابی کے یہ دونوں بے مثال شاعر ایک دوسرے پر چوٹ کرنے سے باز نہیں رہتے تھے۔ایک دفعہ جب بری نظامی حج کی سعاد ت حاصل کرکے آئے تو عبیر ابو زری نے اپنے مخصوص انداز میں ان پر چوٹ لگائی:
نام نامی حضرت خواجہ بری نظامی
حاجی، شاعر صحافی ، اللہ معافی اللہ معافی
مکیوں یاترا کر کے آیا
تِکھا داترا کر کے آیا
افسوس علم و ادب کا چاند بری نظامی اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے جس کے لکھے گیتوں اور قوالیوں نے ایک عرصہ تک سامعین کے دلوں کو مسحور کیا۔بری نظامی جیسے نا جانے کتنے یاد گار ِ زمانہ لوگ زیر زمیں جا سوئے ہیں اور ہم کچھ بھی نہ کر پائے ۔سوائے اس کے کہ ’’رویئے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجئے‘‘ اس لیے کہ سب نے اپنی اپنی باری چلے جانا ہے ۔یہ حسین و خوبصورت لوگ کیسے اچانک دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور خاموشی سے زیر زمین سوتے ہیں ۔رفتگاں کے بعد کی ویرانی اور اداسی کا نقشہ بڑا دلدوز ہے۔ہنستے ہنستے گھر کیسے خاموش ہو گئے ہیں۔
؎دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے
“