دل ہے ایران اور ٹرکی میں
پیٹ مصروف ہے کلرکی میں
سکول کے زمانے میں یہ شعر پڑھا تھا، زندگی میں کئی موقعوں پر یاد آیا، شاعر کا نام نریش کمار شاد یاد رہا، آج ان کی باونویں برسی ہے۔ انہوں نے صرف 42 برس کی عمر میں شدید ڈپریشن کے عالم میں دریائے جمنا میں کود کر خود کشی کرلی تھی۔
شاد 11 دسمبر 1927 کو ہوشیار پور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد درد نکودری بھی شاعر تھے اور حضرت جوش ملسیانی کے خاص شاگردوں میں سے تھے ۔ گھر کے شعری ماحول نے شاد کو بھی شاعری کی طرف مائل کردیا اور وہ بہت چھوٹی عمر سے ہی شعر کہنے لگے ۔ والد کے علاوہ تلوک چند محروم اور جوش ملسیانی سے اصلاح لی ۔
شاد کی تعلیم لاہور کے آس پاس کے علاقوں میں ہوئی انہوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول چونیاں سے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ اس کے بعد بہ سلسلۂ ملازمت راولپنڈی اور جالندھر میں مقیم رہے لیکن جلد ہی سرکاری ملازمت ترک کرکے لاہور آگئے اور وہاں ماہنامہ’ شالیمار ‘ کی ادارت کے فرائض انجام دینے لگے ۔ تقسیم کے بعد شاد کچھہ مدت کانپور میں رہے اور یہاں حفیظ ہوشیارپوری کے ساتھ مل کر ’چندن‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالا ۔ اس رسالے کے بند ہو جانے کے بعد دلی آگئے اور بلدیو متر بجلی کے ماہنامہ ’ راہی ‘ سے وابستہ ہوگئے ۔ ایک رسالہ ’ نقوش ‘ کے نام سے بھی نکالا ۔ آخر ہاؤسنگ اینڈ رینٹ آفس میں ملازمت اختیار کی ۔
ستمبر 1968ء میں شاد کے والد درد نکودری لاپتہ ہو گئے۔ شاد نے بہت تلاش کیا، مگر وہ نہیں ملے۔ شاد نے اس صدمے کو بھلانے کے لیے شراب پینا شروع کردی۔ شدید ڈیپریشن میں مبتلا ہوگئے۔ نجی زندگی خراب ہو گئی ۔20 اور 21 مئی 1969ء کی درمیانی رات شاد نے غالباً خودکشی کرلی۔ 21 مئی 1969ء کی صبح شاد کی نعش دریائے جمنا میں تیرتی ہوئی پائی گئی۔اس طرح صرف 42 سال کی عمر میں دنیا سے منہ موڑ لیا۔
افسوس کہ نریش کی شراب نوشی یاد رکھی گئی اور ان کی شاعری بھلا دی گئی ۔ حالانکہ نریش کی غزلیں، نظمیں اور کئی نئی مغربی اصناف میں ان کے تخلیقی تجربے ان کی شاعرانہ اہمیت کو روشن کرتے ہیں۔
شاد کے شعری مجموعے : بتکدہ ، فریاد ، دستک ، للکار ، آہٹیں ، قاشیں ، آیات جنوں ، پھوار ، سنگم ، میرا منتخب کلام ، میراکلام نو بہ نو ، وجدان ،
نثری کتابیں : سرخ حاشیے ، راکھ تلے ، سرقہ اور توارد ، ڈارلنگ ، جان پہچان ، مطالعے ، غالب اور اس کی شاعری ، پانچ مقبول شاعر اور ان کی شاعری ، پانچ مقبول طنز ومزاح نگار ۔
بچوں کیلئے : شام نگر میں سنیما آیا ، چینی بلبل اور سمندری شہزادی ۔
شاد کے کچھ اشعار
اللہ رے بے خودی کہ ترے پاس بیٹھہ کر
تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی
کسی کے جور و ستم کا تو اک بہانا تھا
ہمارے دل کو بہرحال ٹوٹ جانا تھا
گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی مگر یا رب
تری نگاہ کرم کو بھی منہ دکھانا تھا
عقل سے صرف ذہن روشن تھا
عشق نے دل میں روشنی کی ہے
زندگی سے تو خیر شکوہ تھا
مدتوں موت نے بھی ترسایا
محسوس بھی ہو جائے تو ہوتا نہیں بیاں
نازک سا ہے جو فرق گناہ و ثواب میں
خدا سے لوگ بھی خائف کبھی تھے
مگر لوگوں سے اب خائف خدا ہے
خدا سے کیا محبت کر سکے گا
جسے نفرت ہے اس کے آدمی سے
تو مرے غم میں نہ ہنستی ہوئی آنکھوں کو رلا
میں تو مر مر کے بھی جی سکتا ہوں میرا کیا ہے
زندگی نام ہے جدائی کا
آپ آئے تو مجھ کو یاد آیا
یہ سوچ کر بھی ہنس نہ سکے ہم شکستہ دل
یاران غم گسار کا دل ٹوٹ جائے گا
طوفان غم کی تند ہواؤں کے باوجود
اک شمع آرزو ہے جو اب تک بجھی نہیں
عقل سے صرف ذہن روشن تھا
عشق نے دل میں روشنی کی ہے
اتنا بھی ناامید دل کم نظر نہ ہو
ممکن نہیں کہ شام الم کی سحر نہ ہو