آج – 26؍جولائی 1984
کلاسیکی غزل کے مشہور شاعر” طالبؔ باغپتی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام لطافت علی خان اور تخلص طالبؔ تھا وہ 27؍نومبر 1903ء کو باغپت ضلع (میرٹھ) بھارت میں پیدا ہوئے ۔میرٹھ کالج سے ایف۔اے کی تعلیم حاصل کیں اور تقریباً 1936ء سے شاعری کا آغاز کیا ۔
جگرؔ مراد آبادی و ندرتؔ میرٹھی سے اپنے کلام کی اصلاح لیں، عشق کے سوز گداز میں ڈوبی غزلیں اور نظمیں کہیں ہیں ۔
26؍جولائی 1984ء کو طالبؔ باغپتی انتقال کر گئے ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
کلاسیکی شاعر طالبؔ باغپتی کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ
اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیے آ
—
جب کبھی یاد دلایا ہے تخیل نے تمہیں
اس طرح یاد دلایا ہے کہ جی جانتا ہے
—
ہر چند بھلاتا ہوں بھلایا نہیں جاتا
اک نقشِ تخیّل ہے مٹایا نہیں جاتا
—
عرصۂ حشر میں جو عشق کا عنواں ہوں گے
میری ہی خاک کے اجزائے پریشاں ہوں گے
—
لفظ تو ملتے نہیں اظہارِ محسوسات کو
اب وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں میرے دل کی بات کو
—
آرزو رکھنا محبت میں بڑا مذموم ہے
سن کہ ترکِ آرزو ہی عشق کا مفہوم ہے
—
خاموش اندھیری راتوں میں جب ساری دنیا سوتی ہے
اک ہجر کا مارا روتا ہے اور شبنم آنسو دھوتی ہے
—
ظرفِ نگاہ چاہیے دیدار کے لئے
رخ کو پسِ نقاب چھپایا نہ کیجیے
—
کثرتِ دیدار سے ان کی نگاہیں جھک گئیں
عکسِ مژگاں کا نقاب روئے زیبا ہو گیا
—
میری امید میں ہے یاس کی صورت مضمر
میری ہستی ہے فنا مثل خطِ آب مجھے
—
ساقی پلا شراب زکوٰۃ شباب دے
ہاں پھر کوئی مذاق دل پر محن کے ساتھ
—
اک یادگار چاہیے کوئی نشاں رہے
تربت مری رہے نہ رہے آسماں رہے
—
غرورِ حسن سے کوشش متانت اختیاری کی
تمہاری شوخیوں میں رائیگاں معلوم ہوتی ہے
—
خود ترکِ مدعا پر مجبور ہو گیا ہوں
تقدیر کے لکھے سے معذور ہو گیا ہوں
—
عرفان ہے یہ عشق کے سوز و گداز کا
پردہ اٹھا رہا ہے کوئی امتیاز کا
—
ہاتھ ملتا ہے پشیمانِ جفا میرے بعد
خیر یوں بڑھ گئی توقیرِ وفا میرے بعد
—
قدیر کے آگے کبھی تدبیر کسی کی
چلتی ہو تو سمجھے کوئی تقصیر کسی کی
—
میں آرزوئے موت کس امید پر کروں
وہ جانتا ہے رشکِ مسیحا کہیں جسے
—
لب خموش مجھے آہ آہ کرنے دے
گناہ عشق سہی یہ گناہ کرنے دے
—
مری تقدیر شکوۂ سنجِ دور آسماں کیوں ہو
ملے جب درد میں لذت تلاشِ مہرباں کیوں ہو
—
یہ عمر ہجر اگر صرف انتظار نہ ہو
تو واقعی مجھے ہستی پہ اعتبار نہ ہو
—
اپنی قسمت کا ستارا سرِ مژگاں دیکھا
آج ہم نے اثر جذبۂ پنہاں دیکھا
—
زندگی میرے لئے طالبؔ سزائے عشق ہے
میری ہستی ہے مجسم داستان آرزو
—
لاکھ آزاد سہی حضرتِ طالبؔ لیکن
آپ بھی قائل مجبورئ انساں ہوں گے
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
طالب ؔباغپتی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ