آج – 18؍فروری 1968
مشہور و معروف پاکستانی شاعر” عرفانؔ ستّار صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام عرفان عبد الستار اور تخلص عرفانؔ ہے۔ ١٨؍فروری۱۹۶۸ء میں کراچی میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم لیبیا میں حاصل کی۔ کراچی آکر ایم بی اے اور ایم ایس کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد دواؤں کی کمپنی میں چیف ایگزیکیٹو کے عہدے پر فائز ہیں۔شاعر ی کا آغاز ۱۹۹۰ء میں ہوا۔ جون ایلیا سے مشورۂ سخن کیا۔ ’’تکرارِ ساعت‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوگیاہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:446
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مشہور شاعر عرفانؔ ستّار کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
—
آباد مجھ میں تیرے سوا اور کون ہے؟
تجھ سے بچھڑ رہا ہوں تجھے کھو نہیں رہا
—
تم آ گئے ہو تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے
ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے
—
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلا بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
—
ہر ایک رنج اسی باب میں کیا ہے رقم
ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا
—
زخم فرقت کو پلکوں سے سیتے ہوئے سانس لینے کی عادت میں جیتے ہوئے
اب بھی زندہ ہو تم زندگی نے کہا زندگی کے لئے ایک تازہ غزل
—
کیا بتاؤں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں
—
نہیں نہیں میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر
یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے
—
تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا
ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے
—
یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
مجھے بدن سے نکالو میں تنگ آ گیا ہوں
—
وہ جس نے مجھ کو ترے ہجر میں بحال رکھا
تو آ گیا ہے تو کیا اس سے بے وفا ہو جاؤں
—
کس عجب ساعت نایاب میں آیا ہوا ہوں
تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہوا ہوں
—
تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے
ذرا سا دکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں
—
کوئی ملا تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے
—
تاب یک لحظہ کہاں حسن جنوں خیز کے پیش
سانس لینے سے توجہ میں خلل پڑتا ہے
—
تیرے ماضی کے ساتھ دفن کہیں
میرا اک واقعہ نہیں میں ہوں
—
اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا
اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے
—
یہاں جو ہے کہاں اس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں وہ سب یہاں باقی رہے گا
—
یہ عمر کی ہے بسر کچھ عجب توازن سے
ترا ہوا نہ ہی خود سے نباہ میں نے کیا
—
رازِ حق فاش ہوا مجھ پہ بھی ہوتے ہوتے
خود تک آ ہی گیا عرفانؔ بھٹکتا ہوا میں
—
برائے اہلِ جہاں لاکھ کج کلاہ تھے ہم
گئے حریمِ سخن میں تو عاجزی سے گئے
—
نہ پوچھئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں
جو آگہی کے سبب عیش بندگی سے گئے
—
اپنی خبر، نہ اس کا پتہ ہے، یہ عشق ہے
جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے
—
کوئی ملا تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے
—
یا ملاقات کے امکان سے باہر ہو جا
یا کسی دن مری فرصت کو میسر ہو جا
—
مجلس غم، نہ کوئی بزم طرب، کیا کرتے
گھر ہی جا سکتے تھے آوارۂ شب، کیا کرتے
—
سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی
کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی
—
ہمیں بھی اپنا مقلد شمار کر غالبؔ
کہ ہم بھی رشک سے تیرے ہنر کو دیکھتے ہیں
—
لفظوں کے برتنے میں بہت صرف ہوا میں
اک مصر تازہ بھی مگر کہہ نہ سکا میں
—
غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
عرفانؔ ستّار
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ