آج مشہور جرمن مستشرق، ماہر اقبالیات، ایرانیات، سندھیات، اور ماہر تصوف و اسلام، علوم مشرق کی ماہر اسلامی تہذیب کی معروف محقق اور معروف مستشرق ڈاکٹر این میری شمل کا یومِ پیدائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مس این میری شمل، وہ عظیم جرمن خاتون جس نے اسلام ، تاریخ مسلم اور فکر اقبالؒ کو کسی مسلم تاریخ دان سے کم نہیں سمجھا تھا ۔جسے پاکستان نے اپنا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا ، جسکے نام پر لاہور میں آج بھی شاہراہیں موجود ہیں۔ استنبول ، میونخ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں فکر اقبالؒ سے لوگوں کو آگاہ کرتی رہی۔
جس نے اقبالؒ پر اپنی مشہور کتاب Gabriel's Wing روح جبریل لکھی۔ اقبالؒ کی کتاب " بال جبریل " کی نظم مسجد قرطبہ سے اتنی متاثر ہوئی تھی کہ ایک عرب صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمانوں کو مسجد قرطبہ نظم سے اپنی شاندار ماضی کی بازیافت کرکے دوبارہ اٹھنا چاہئے ۔ مس این میری شمل یورپ میں اقبالؒ کے ارمغان حجاز کی وہ بلبل تھی جس کی آواز تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گی ۔
ڈاکٹر شمل 7 اپریل 1922ء کو جرمنی کے شہر ارفرٹ (ساکسنی) میں پیدا ہوئیں تھیں۔
جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے ارفرٹ میں پیدا ہونے والی این میری شمل کا گھرانا اپنے علاقے کا متوسط گھرانا کہلاتا تھا۔ گڑیاں کھیلنے کی عمر میں این میری شمل نے اپنے ہاتھوں میں کتابوں سے پیار کیا۔ پرائمری سکول سے ہائی سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران انہیں مشرقی دنیا سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ وہ خود یہ کہا کرتی تھیں کہ مجھے نہیں معلوم میرے وجود میں اسلامی خطے سے محبت کہاں سے آ گئی کہ میرے والدین نے کبھی بھی مشرقی علوم یا اسلامی تاریخ میں دلچسپی نہیں لی۔ یہ خدا کی طرف سے میرے لیے ایک انعام تھا البتہ جرمنی میں ایک پرانی روایت موجود تھی کہ یہاں کے لوگ مشرقی علوم سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ جیسے جیسے این میری شمل بچپن سے جوانی میں قدم رکھ رہی تھیں انہی دنوں جرمن میں نازی عناصر نمایاں ہو رہے تھے۔ اور ان کے اثرات علمی، تہذیبی اور مذہبی حلقوں تک بھی پہنچ رہے تھے۔ ایسے ماحول میں جب شمل نے اسلامی تہذیب اور مشرقی علوم کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کو پڑھنا چاہا تو والدین نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ایک اُستاد کا انتظام کر دیا۔ یہیں سے انہوں نے اسلامی تہذیب اور مشرقی علوم کو سمجھنے کا آغاز کیا۔
انیس برس کی عمر میں بون یونیورسٹی سے مملوک مصر میں خلیفہ اور قاضی کا رتبہ کے عنوان پر پی ایچ ڈی کی۔
اُن مستشرقین کے برعکس جو اسلام میں خامیاں اور اس کا مغربی تہذیب سے تصادم تلاش کرتے رہتے ہیں، ایسی محقق تھیں جنہوں نے اسلام کا مطالعہ اور تحقیق اُس کے تخلیقی جوہر اور دانش کو ڈھونڈنے کے لیے کیا۔
انہوں نے علامہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا ترجمہ کیا۔ جرمن دانشور ڈاکٹراین میری شمل نے ’’جاویدنامہ‘‘کا 1957میں ترجمہ کیا اور اقبالؒ کے ذریعہ ڈاکٹر شمل کو رومیؒ جیسے صوفی سے آشنائی ملی۔
1958ءسے لے کر 1998ءتک وہ پاکستان میں 35 مرتبہ تشریف لائیں۔ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتی تھیں ـ انہوں نے پاکستان میں اقبالیات، تصوف اور مشرقی علوم پر متعدد لیکچر دیے۔
انہوں نے ایک مرتبہ بتایا کہ 1958ءمیں جب پہلی مرتبہ لاہور آئی تھیں تو انہیں کہا گیا کہ وہ اقبال کے شہر میں اقبالیات کے بارے میں لیکچر دیں۔ اس لیکچر کو سننے والوں میں جناب ڈاکٹر جاوید اقبال بھی موجود تھے اور وہ علامہ اقبال کے بیٹے کو وہاں دیکھ کر پریشان ہو گئیں کہ اُن کے سامنے علامہ اقبال پر کس طریقے سے بات کر سکیں گی۔ اور یہ بات بھی انہی کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری اور فکر کو بیرونی دنیا میں جتنا ڈاکٹر این میری شمل نے متعارف کروایا اتنا پاکستان کے کسی بھی ادیب یا دانشور نے نہیں کروایا۔
علامہ اقبال کے بارے میں اُن کی پہلی کتاب 1963ءمیں شائع ہوئی جس کا اُردو ترجمہ پاکستان میں ڈاکٹر محمد ریاض نے ”شہپرِ جبریل“ کے نام سے کیا۔ انہوں نے اقبالیات پر جہاں بےشمار مقالات تحریر کیے، اُن کے کلام کا ترجمہ کیا وہاں انہوں نے کم و بیش علامہ اقبال پر دس کتابیں بھی تحریر کیں۔
پاکستان کے صوفیاءکے ساتھ اُن کی محبت بہت زیادہ تھی۔ شاہ عبدللطیف بھٹائی ہوں یا مست توکلی، شہباز قلندر ہوں یا حضرت شاہ شمس سبزواری، حضرت بہاءالدین زکریا کی تعلیمات سے لے کر حضرت شاہ رکن عالم کی سوانح اُن کے موضوعات ہوا کرتے تھے۔ اور وہ یہ کہا کرتی تھی کہ ان سب بزرگوں سے میری محبت مولانا روم کی وجہ سے ہے جو میرے مرشد ہیں۔ مولانا روم پر اُن کی کتابوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے لیکن اُن کی ایک کتاب ”The Triumphal Sun: A Study of the Works of Maulana Jalaluddin Rumi“ نے اُنہیں پوری دنیا میں مقبول کر دیا۔ اس کتاب میں انہوں نے مولانا روم کے نظریات اور شاعری کو جس انداز سے دیکھا وہ لوگوں کو بہت پسند آیا۔ مغرب میں مولانا جلال الدین رومی کو متعارف کرانے والی یہ پہلی کتاب ٹھہری جس کا اسلوب اتنا رواں دواں تھا کہ ہر جگہ پر اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس کتاب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یورپی اور دوسری زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ کیا گیا۔ انہوں نے جیسے جیسے مولانا جلال الدین رومی کو پڑھا تو ویسے ہی وہ اُن پر نت نئے اسلوب اپنا کر لکھتی رہیں۔
جب وہ مولانا روم پر لکھتیں تو یہ کہتیں:
”مَیں جب انقرہ سے قونیا کی طرف جانے والی سڑک پر سفر کرتی تھی تو مجھے 1950ءکے عشرے کا اناطولیہ کا وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جب اُس علاقے میں جدید عمارتوں کی تعمیر تو بہت دور کی بات سڑکیں بھی اتنی بہتر نہیں تھیں۔ اور میرا اُٹھنے والا ہر قدم اُس روحانی زیارت کو قریب کر دیتا تھا کہ جس کے تحت مَیں یہ سوچا کرتی تھی کہ میرے سفر کے دوران گزرنے والے تمام پتھر، سارے درخت، پرندے اپنے اپنے انداز میں ایک دوسرے کے لیے مولانا کا پیغام پڑھتے ہیں۔ اور ہر دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان اس سے مسخر ہوتے ہیں۔“
برلن یونیورسٹی، انقرہ یونیورسٹی ترکی، ہاورڈ یونیورسٹی میں مختلف ادوار میں پڑھنے اور پڑھانے کے بعد انہیں 1995ءمیں بون یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر بنا دیا گیا۔ پاکستان کے ساتھ ان کا عشق اتنا زیادہ تھا کہ انہیں جب بھی کبھی یہاں آنے کا کہا جاتا تو وہ فوراً تیار ہو جاتیں۔
وہ جرمن‘ انگریزی‘ عربی‘ فارسی‘ اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔ انہوں نے اقبال کے علاوہ پیر علی محمد راشدی‘ پیر حسام الدین راشدی‘ غلام ربانی اگرو اور جمال ابڑوکی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔ ان کو جرمن زبان کے علاوہ عربی، فارسی اورترکی سمیت متعدد مشرقی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہیں پاکستان کی علاقائی زبانوں، سندھی، سرائیکی اورپنجابی سے بھی شغف تھا۔ این میری شمل کی انگریزی اورجرمن شاعری کے دو مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں جس سے ان کی تخلیقی اور دانشوارانہ تنوع کا پتا چلتا ہے۔
این مری شمل سو سے زیادہ کتابوں کی مصنفہ تھیں اور ہاروڈ اور بون یونیورسٹیوں میں تدریس کرتی رہیں۔ 1953ء سے وہ انقرہ یونیورسٹی میں بھی پانچ سال تک وابستہ رہیں ـ اس دوران اُنہوں نے ترکی زبان میں کتابیں لکھیں اور علامہ اقبال کے کلام جاوید نامہ کا ترکی میں ترجمہ کیا۔ ان کی بیشتر کتابیں اور مضامین تصوف کے موضوع پر ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مسلمان مفکروں اور شاعروں کی سینکڑوں کتابوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا، ـ ان کا گھر اسلام کے نایاب مخطوطات سے بھرا ہوا تھا جن میں سے بہت سے نسخے انہوں نے بون یونیورسٹی کو دے دیے ـ انہوں نے برصغیر پاک و ہند میں اسلام پر بھی ایک گراں قدر کتاب لکھی۔
انہوں نے علامہ اقبال کی شاعری کے مجموعوں بانگ درا،پیام مشرق اور جاوید نامہ کا جو جرمن زبان میں ترجمہ کیا انہیں جرمن ادب میں ایک بڑا مقام حاصل ہے۔ جاوید نامہ کا ترکی میں ترجمہ کیا۔
این مری شمل نے علامہ اقبال کے مذہبی خیالات کے مطالعہ پر مبنی ایک کتاب ’جبرائیل کے پر‘ کے عنوان سے لکھی جسے اقبالیات میں ایک اہم کتاب شمار کیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے انہیں اقبالیات پر ان کے کام کے اعتراف میں 1988ء میں عالمی صدارتی اقبال ایوارڈ دیا۔
اُن کی خدمات کے اعتراف میں دنیا کے بہت سے اسلامی اور مغربی ملکوں نے انہیں لا تعداد انعامات سے نوازا۔ حکومت پاکستان نے 1983ء میں انہیں ہلال امتیاز اور بعد میں ستارہ امتیاز دیا۔ لاہور میں نہر کے ساتھ ساتھ چلنے والی سڑک کو عظیم جرمن شاعر گوئٹے کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جبکہ نہر سے پار جو سڑک ہے اس کو این ماری شمل کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جس کے بارے میں وہ ازراہ مذاق کہا کرتی تھیں کہ "پاکستانیوں نے میرے مرنے کا بھی انتظار نہیں کیا۔" حکومت پاکستان نے ان کے نام سے ایک تعلیمی وظیفہ بھی جاری کیا۔
27 جنوری 2003ء کو ممتاز جرمن اسکالر اور پرستار اردو زبان ڈاکٹر این میری شمل جرمنی کے شہر بون میں انتقال کرگئیں تھیں۔ان کی وفات کے بعد حکومت پاکستان نے لاہور میں ایک سڑک کو ان کے نام سے موسوم کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد