چار صدیاں گزر گئیں۔ ’’زبانِ اردو‘‘ کی تراش خراش میں سیکڑوں رسالے، مقالات، پرچہ جات، فرہنگیں، لغات لکھے اور ترتیب دئے گئے۔ لیکن تا حال اردو کو ایک منضبط ’’زبان‘‘ تسلیم کرلینے میں خود اردو طبقے کو اعتراض ہے۔ بہ ایں ہمہ،زبان کو اپنی علمیت کا تختہء مشق بناتے ہوئے خدا جانے کن کن زاویوں سے مجروح کیا جاتا رہا ہے۔سخت تعجب بلکہ افسوس ہوتا ہے کہ ہم آج بھی اردو کو عربی یا فارسی کے آئینہ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ جب کہ اردو مستقل زبان کا درجہ (آج سے چار سو برس قبل ہی) حاصل کر چکی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسے معترض عالم ِ زبان کے کتب خانے میں بجز اردو لغات، اور کچھ نہ ملے گا۔ باوجود اس کے، طرۂ عربی و فارسی قائم۔
نت نئے دن اردو میں مروج الفاظ کو ہدف بنا کر اپنی علمیت کی دھاپ بٹھاتے لوگوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اس طفلانہ حرکت سے زبان کیسا اثر قبول کر رہی ہے۔بگذشتہ دنوں ہمارے کسی دوست نے’’مشکور‘‘ بہ معنی ’’شکریہ ادا کرنے والا‘‘ کے استعمال پر مجھے ٹوک لگائی۔
اردو کے جاننے والوں میں یہ خیال جڑ پکڑتا جارہا ہے کہ کسی لفظ کی حرکت نیز صحت کو اس لفظ کی ماخذ زبان کے ترازو میں تولا جائے۔ ہر چند کہ معاملہ اس کے قطعی بر عکس ہے۔ محمد حسین آزاد نے ’’آبِ حیات‘‘ میں بڑا معنی خیز واقعہ درج کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔
’’آتش ؔ نے شعر پڑھا۔
دختر ِ رز مری مونس ہے، مری ہمدم ہے
میں جہاں گیر ہوں وہ نور جہاں بیگم ہے
اس شعر پر سامعین سے اعتراض ہوا کہ ’بیگم‘ ترکی لفظ ہے۔ اور اس زبان میں گاف پر پیش بولا جاتا ہے’بیگُم‘، نیز فارسی میں بھی اس لفظ کا یہی کلیہ ہے۔ خواجہ آتش کہنے لگے کہ’ہم ترکی نہیں بولتے، ترکی بولیں گے تو اس وقت ضرور ’بیگُم‘ کہیں گے‘‘۔ (آبِ حیات، مفید عام پریس، سالِ طبع ۱۸۹۹ صفحہ نمبر ۳۶۶)
خواجہ آتش کے جوابِ ھٰذا سے یہ بات تو واضح ہے کہ کسی زبان سے دخیل لفظ اردو میں اسی زبان کے کلیے پر استعمال کیا جائے، یہ ضروری نہیں۔ اس قسم کی سختی اردو کے لئے سمِ قاتل ہوگی۔ ایک بے چاری اردو ہی پر کیا موقوف، دنیا کی تمام تر زبانوں میں ایک دوسرے سے اشتقاق روزِ ازل سے تاحال بدستور جاری ہے۔ اور ہر لفظ کی ساخت اس کے استعمال پر بتدریج بدلتے رہتی ہے۔ اور یہی وہ وصف ہے جو زبان کو لچکدار بنا سکتاہے۔ غیر ضروری سختی زبان کی توسیع میں سدِ راہ بن جاتی ہے۔
انشا اللہ خان انشاؔ نے ’’دریائے لطافت‘‘ میں اسی بات کو خوب واضح کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’جو لفظ اردومیں آیا وہ اردو ہوگیا، خواہ وہ فارسی، ترکی ہو یا سریانی، پنجابی ہو، یا پوربی، اصل کی رو سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے، تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی اس کے اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ کیوں کہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گو کہ اصل میں صحیح ہو، اور جو اردو کے موافق ہے وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو‘‘ (دریائے لطافت، مترجم پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی مرتب مولوی عبدالحق مطبوعہ انجمن ترقی اردو اورنگ آباد ۱۹۳۵ )
انشا ؔ نے نہایت عالمانہ انداز میں تمام تر پہلو روشن کر دیے ہیں۔ لیکن یہ بات ہمارے نیم حکیموں کی فہم سے بالاتر ہے۔ لفظ ’’مشکور‘‘ عربی لفظ ہے۔ عربی میں اس کے معنی ’’ لجس کا شکریہ ادا کیا جائے‘‘ ہے۔ لیکن ہم اردو والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم عربی زبان نہیں بول رہے ہیں اور اردو زبان میں ’’مشکور‘‘ لفظ بہ معنی ’’شکریہ ادا کرنے والا‘‘ ہی مستعمل ہے۔ یہ عنوان بھی کچھ آج ہی کا موضوعِ بحث نہیں ہے۔ گذشتہ پچاس برسوں سے اہلِ علم اس لفظ کی فصاحت منواتے تھک گئے ہیں لیکن کچھ حضرات آج بھی اسے متروک سمجھتے ہیں۔
لغات کا ذکر کیا جائے تو مولوی فیروزالدین، مولفِ فیروزالغت نے اسے سراسرعربی کے قانون کے بموجب رکھ دیا ہے۔ اس لغت کے دیگر کارنامے میرے مقالے ’’اردو لغات کی حشر سامانیاں‘‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ سید احمد دہلوی، مولفِ فرہنگِ آصفیہ (سن تالیف ۱۹۱۹ )،بنورالحسن نیرؔ کاکوری، مولفِ نورالغت (سن تالیف ۱۹۳۴ ) بھی اس لفظ کے اردو معنی پر اعتراض وارد کرتے ہیں۔ سید تصدق حسین، مولفِ لغاتِ کشوری (سن تالیف ۱۸۹۱ ) نے اس کے معنی ’’شکر کیا گیا‘‘ لکھے ہیں۔ جو اپنے آپ میں گنجلک ہیں۔ ایس ڈبلیو فیلن، مولفِ ہندوستانی انگلش ڈکشنری (سن تالیف۱۸۷۹ ) نے ’’ مشکور‘ ‘ کے معنی ’’ Thanked,Thankful,Shukr-Guzaar‘‘ لکھے ہیں۔ جو اپنے آپ میں نہایت واضح اور بلیغ ہیں۔ ڈنکن فوربس، مولفِ ہندوستانی انگریزی ڈکشنری (سن تالیف۱۸۶۶ ) نے بھی ’’Thanked‘‘ لکھے ہیں۔
مذکورہ بالا لغات کے تناظر میں ’’مشکور‘‘ کی فصاحت و غیر فصاحت واضح نہیں ہو پاتی، بہ ایں وجہ چنداں اہلِ علم و زبان کی آراء ملاحظہ فرمائیں۔ رشید حسن خاں صاحب فرماتے ہیں:
’’عربی قواعد کے لحاظ سے لغت نویسیوں کا فیصلہ بالکل صحیح ہے، لیکن ایک دوسری زبان ان قواعد کی پابند کیوں ہو!!! مشکور بہ معنی ’شکر گزار‘، آج بھی برابر استعمال ہو رہاہے اور پہلے بھی بے تکلف استعمال کیا گیا ہے۔‘‘(زبان اور قواعد، مطبوعہ ۱۹۷۶ نئی دہلی، صفحہ نمبر ۶۳)
میں نے ابتدا میں اسی امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اشتقاق کے ضمن میں اردو کسی اور زبان کے اصولوں کی کار بند کیوں رہے، تصرف ہر زبان کے لئے جزو لاینفنک نیز غیر منقسم باب ہے۔ فارسی زبان میں لفظ ’’شادی‘‘ بہ معنی خوشی رائج ہے، لیکن اردو میں بہ معنی ’’بیاہ،عقد‘‘ بولا جاتا ہے۔ اور وہ بھی بلا اعتراض۔
مولانا سید سلیمان ندوی رقم طراز ہیں:
’’عربی میں مشکور اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے، اسی لئے بعض عربی کی قابلیت جتانے والے، اس کوغلط سمجھ کر، صحیح لفظ ’شاکر‘ یا ’متشکر‘ بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنی چاہیے ‘‘(نقوشِ سلیمانی، مطبوعہ ۱۹۶۴ دہلی، صفحہ نمبر ۹۸)
سید سلیمان ندوی کا بیان، پوری وضاحت کے ساتھ مشکور کی فصاحت نیز اردو میں مروجہ درست استعمال پر دلالت کرتاہے۔ لہٰذا مشکور کے اردو معنی سے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی صاحب نے ایک دوسرے منطقی زاویے کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’’عادی‘ اورں’مشکور‘ مدتوں سے ’عادت گیرندہ‘ اور ’احسان مند‘ کے معنی میں استعمال ہو رہے ہیں، اور متکلم و سامع دونوں کا ذہن انہی معنی کے طرف جاتا ہے، تو اب قاموس اور صراح سے فتوا لے کر، ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟؟ ‘‘(منشورات،مطبوعہ ۱۹۷۰ کلکتہ، صفحہ نمبر ۱۶۴) ہم اردو والے اگر ’’قاموس الاغلاط‘‘ کے فتوے کو ایمان بنا سکتے ہیں تو یقیناًہمیں لفظ ’’تنقید‘‘ کو خارج از زبان کر دینا چاہیے۔مولفِ قاموس لفظ ’’تنقید‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’تنقید عربی میں نہیں آیا ہے، اردو والے نقد و انتقاد کی جگہ بولتے ہیں۔اس سے احتراز چاہیے، اس لئے کہ یہ غلط ہے‘‘۔ مولوفِ قاموس کے حکم کے باوجود، آج اردو کا ہر بڑا عالم ’تنقید‘ ہی بولنا پسند کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ذہانت، تبدیلی، انکساری، نمونتاً، اندازاً، تاہم، پیدائش، رہائش، اور اس قسم کے بہت سارے الفاظ کے استعمال پر مولفِ قاموس نے پرہیز کی ہدایت کی ہے۔ مذکورہ بالا الفاظ عوام میں بکثرت بولے جاتے ہیں، تو کیا انہیں بھی ترک کر دیا جائے؟؟؟
چھوٹی چھوٹی علاقائی زبانوں (علی الخصوص مرہٹی) نے تغیراتِ زمانہ کے ساتھ ساتھ نئے الفاظ وضع کر لیے ہیں، جن میں سائنسی آلات و دیگر روزمرہ کی ضروریات سے متعلقہ الفاظ کی شمولیت ہے۔ لیکن ہماری بے چاری اردو تا حال انگریزی کی مرہونِ منت ہے۔ ہر نیا سائنسی آلہ اردو میں انگریزی سے مستعار لفظ کے سہارے بیان کیا جاتا ہے۔ اب ایسے عالمِ انحطاط میں، کہ جہاں اضافہ تو کجا، ٹھیک ڈھنگ سے رکھ رکھاؤ بھی ممکن دکھائی نہ دیتا ہو، اردو سے مروجہ الفاظ کوبلا تامل من اولہ و الیٰ آخرہ خارج از زبان کردینا، کہاں تک روا ہوگا؟؟؟۔
چلیےَ اس کے بعد چند ایک استادانِ زبان کے شعر بھی بطور سند گوش گزار کر دوں۔
میر تقی میرؔ گویا ہیں۔
رنگ رنگ اطمعہ ہیں بذل، پھر اس درجہ وفور
کیا خداوندی ہے اللہ، خدائی مشکور
(کلیاتِ میرؔ، مرتبہ مولانا آسی، صفحہ نمبر ۷۳۷)
علامہ شبلی نعمانی نے اور صاف کردیا۔
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں، ممنون ہوں، مشکور ہوں میں
(کلیاتِ نظمِ اردو، صفحہ نمبر۱۲۰)
گزرے وقتوں کا معاملہ یہ تھا کہ محض ایک ہی سند پر مخالف عقیدے کے حضرات تسلیم کر لیا کرتے تھے۔ لیکن فی زمانہ معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ اب اہلِ علم(؟؟) کے نزدیک زبان، تجربہ گاہ میں رکھے اس چوہے کی طرح ہے، جسے آئے دن نت نئے عذابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مزید تشفی کے لیے چنداں فقرے ملاحظہ کریں۔
’’ان کے سبب سے میں آپ کا نہایت ممنون و مشکور ہوں‘‘
سر سید احمد خاں (مکاتیب سر سید، مرتبہ مشتاق حسین،صفحہ نمبر ۲۷۴)
’’جو کچھ ہو سکے وہ لکھا کرو اور ممنون و مشکور کیا کرو‘‘
امیر مینائی (مکاتیب امیر مینائی، مرتبہ احسن اللہ خان ثاقب،ص ۱۷۰)
’’خادم آپ کی عنایتِ بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا‘‘
مولانا ابولکلام آزاد (مرقع ادب، صفحہ نمبر ۴۵)
’’آپ کا خط پہنچا، میں ممنون و مشکور ہوں‘‘
سید حسن بلگرامی (تاریخِ نثرِ اردو،صفحہ نمبر ۵۹۸)
مندرجہ بالا اسناد کی روشنی میں ذی شعور حضرات مشکور کے استعمال پر لگی ’’روک‘‘ ضرور ہٹا سکتے ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ مشکور گو کہ عربی لفظ ہے، تاہم اردو میں مفرس ہو کر آیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ’’استفادہ‘‘ عربی لفظ ہونے کے باوجود عربی سے براہِ راست مشتق نہیں ہے۔ یہ بھی مفرس ہو کر بلکہ ’’استفادہ حاصل کردن، استفادہ حاصل شدن‘‘ کے تصرف کے بعد اردو میں پہنچا۔قدیم اور جدید، دونوں ہی فارسی میں ’’استفادہ حاصل کردن‘‘ بکثرت بولا جاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی کچھ ہندی الاصل الفاظ عربی زبان نے اخذ کیے ہیں۔ مولانہ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ:
’’ہم ہندیوں کو فخر ہے کہ ہمارے دیس کے بھی چند الفاظ ایسے خوش نصیب ہیں جواس پاک اور مقدس کتاب میں جگہ پاسکے۔ اس میں شک نہیں کہ جنت کی تعریف میں اس جنت نشان ملک کی تین خوشبوؤں کا ذکر ہے۔ یعنی مِسک (مشک) زنجبیل (سونٹھ، ادرک) اور کافور (کپور)۔ ‘‘(عرب اور ہند کے تعلقات، صفحہ نمبر ۷۱)
قران پاک میں سورۂ دہر میں لفظ مشک (مسک) اور زنجبیل آئے ہیں۔ اور سورۂ مصتصفین میں کافور۔ عربی میں ان الفاظ کی شمولیت کی وجہ ہند عرب کاروباری تعلقات رہی ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے الفاط سنسکرت اور پراکرت وغیرہ سے عربی میں داخل ہو گئے ہیں۔ ان میں بھی بعینہ تصرف واقع ہوا ہے۔ کہیں حرکات کی تصریف ہوئی ہے تو کہیں معنی کی۔ ڈاکٹر عصمت جاوید نے اپنی مایہء ناز تصنیف ’’اردو پر فارسی کے لسانی اثرات‘‘ میں اس موضوع پر خوب روشنی ڈالی ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی نے اس متعلق دوٹوک اظہار کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’انگریزی میں دنیا کی کئی زبانوں سے الفاظ لئے گئے ہیں، مگر کسی لفظ کواس کی اصلی صورت پر قائم نہیں رکھا۔ اسی طرح جہاں استقرا کیا جاتا ہے، کسی زبان کاالفاظ دوسری زبان میں جاکر اپنی اصلی صورت پر قائم نہیں رہتے۔۔۔۔بات یہ ہے کہ ایسے لفظوں کو جو عربی یا فارسی یا انگریزی سے اردو میں لئے گئے ہیں اور اصل وضع کے خلاف عموماً مستعمل ہوتے ہیں، یہ سمجھنا ہی غلطی ہے کہ وہ موجودہ صورت میں عربی یا فارسی کے الفاظ ہیں، بلکہ ان کو اردو کے الفاظ ہی سمجھنا چاہیے۔ جو اصل کے لحاظ سے عربی یا فارسی سے ماخوذ ہیں، ایسے لفظوں کو غلط سمجھ کر ترک کرنا اور ان کو اصل کے موافق استعمال کرنے پر مجبور کرنا، بعینہ ایسی بات ہے کہ لالٹین سے لوگوں کو منع کیا جائے اور لال ٹرن بولنے پر مجبور کیا جائے‘‘۔ (مقدمہء شعر و شاعری،نئی دہلی،ستمبر ۱۹۶۹ ص ۱۲۶)
یہ ملحوظ رکھا جائے کہ دنیا کی کسی زبان کی تشکیل تصرفات کے بغیر ممکن نہیں۔ زبان کا اپنا علحیدہ رنگ ہی بعد از تصرف سامنے آتا ہے۔ وگرنہ اگر کوئی زبان دوسری زبان کے الفاظ من و عن اپناتی رہے تو وہ مخلوط ہو کر رہ جائیگی۔ اسی ضمن میں ہمارے لائق دوست، ماہرِ زبان و ادب ڈاکٹر کلیم ضیاؔ رقم طراز ہیں:
’’زبانِ اردو سے پیش تر بھی دیگر زبانوں میں لفظوں کے آدان پردان (تبادلہء الفاظ) کا کام شروع تھا۔۔۔۔۔۔ کسی زبان کے فصحا اگر بعینہ لفظ کی گذشتہ صحت بر قرار رکھیں، لیکن تصرف کا مرحلہ عوام سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔ کسی لفظ کے معنوی یا صوتی تصرف کے مخالف اہلِ علم اس زبان کے موردِ قتل ثابت ہوں گے‘‘۔(تصرف، ماہنامہ فاران، کراچی، فروری ۱۹۸۷ )
میں ضیا صاحب کی رائے سے صد فی صد متفق ہوں۔ اور پھر بات صرف تصرف کی ہی نہیں بلکہ اس کے آگے عمل ِ ’’تہنید‘‘ بھی آتا ہے۔ جسے ہم ’’مہند‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے فارسی لفظ ’’دہل‘‘ سے ہندی لفظ’’ڈھول‘‘ بنا یا گیا، یا پھر انگریزی لفظ ’’لارڈ‘‘ سے ’’ لاٹ‘‘ کا تشکیل پانا۔ یہ امر اگرچہ گناہ ٹہرے، تو اس گناہ سے ’’عربی‘‘ جیسی امیر زبان بھی پاک نہیں ہے۔ عربی میں ایسے الفاظ جو کسی اور زبان سے لئے گئے ہوں اور انہیں بعد از تصرف عربی کر لیا جائے، ایسے الفاظ کو ’’معّرب‘‘ کہا جاتا ہے۔جیسے ہندی الاصل ’’مشک‘‘ سے ’’مِسک‘‘ بنا گیا۔ لیکن ہم اردو والے صرف اردو کو ہی تمام تر گناہ گار سمجھ بیٹھے ہیں۔ مولانا محمد حسین آزادؔ لکھتے ہیں:
’’ہر زبان کے فصحا کا قاعدہ ہے کہ اپنی زبان میں تصرفاتِ لطیف سے ایجاد کرکے نئے الفاظ اور اصطلاحیں پیدا کرتے ہیں۔ہماری اردو بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ ‘‘(از مقدمہء آبِ حیات،مفید عام پریس لاہور،۱۸۹۹ صفحہ نمبر ۳۶)
اور پھر بے چارے اس ایک لفط ’’مشکور‘‘ ہی پر کیا موقوف! اردو زبان میں کئی الفاط کے ساتھ معنوی تصرف کیا جا چکا ہے۔ اور پورے تزک و احتشام کے ساتھ عوام و خواص استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے استعمال پر کہیں سے شور اٹھتا دکھائی نہیں پڑتا۔ معتوب ہوئے تو بس ’’مشکور‘‘ اور ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘۔ براہ راست تفہیم کے لئے چند ایک مثالیں ملاحظہ کریں۔
مندرجہ ذیل تمام ہی لفظ مفرس ہو کر عربی سے اردو میں آئے ہیں۔
مفرس عربی لفظ عربی معنی اردو معنی
حکمت عقل، فلسفہ تدبیر، چال
حلیہ زیور چہرہ
خط لکیر نامہ،ںلیٹر
دفعتہ یک مشت اچانک
رسالہ مقالہ جریدہ، میگزین
صداقت دوستی سچائی
غلیظ گاڑھا گندہ
فضا کشادگی، خلاء ماحول، کیفیت
منظور دیکھا گیا قبول کرنا
اس کے بعد ایسے الفاظ کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا جو عربی سے فارسی نے اخذ کئے اور فارسی زبان میں ہی ان پر تصرف واقع ہوا۔ پھر بعد کو تصرف شدہ اردو میں لئے گئے۔ (منقول از ’’اردو پر فارسی کے لسانی اثرات)
لفظ عربی معنی فارسی معنی جنہیں اردو نے قبول کیا
اخلاص خالص ہونا بے لوث محبت
اعتراض آگے آجانا، پھیل جانا شکایت
تخلص نجات پانا، جدا ہونا شاعر کا مختصر نام
تعمیر آباد کاری عمارت سازی، عمارت
دہشت تعجب و حیرانی خوف
شان ارادہ شوکت و عظمت
مذکورہ بالا تمام حوالوں کی رو سے، تصرف کو بے جا قرار دینا، زبان پر ظلم کے مترادف ٹہرتا ہے۔ لہٰذا لفظ ’’مشکور‘‘ کے معنوی تصرف کو اردو میں بہ معنی ’’شکر گزار‘‘ قبول کر لینے میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ کی فصاحت کے ضمن میں میرا مضمون بعنوانِ ’’استفاد حاصل کرنا۔ فصیح یا غیر فصیح‘‘ (مطبوعہ روزنامہ انقلاب بمبئی مورخہ۱۳ نومبر ۲۰۱۱ ) دیکھا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ’’مشکور‘‘ بہ معنی ’’شکرگزار‘‘ اردو میں رائج، مستعمل اور فصیح ہے۔بآخر میں یہ کہہ کر رخصت لوں کہ آپ نے میرا مضمون پڑھا، میں مشکور ہوں۔۔