معاشرتی انصاف مشکل کیوں؟
عجب معاملہ ہے مغرب جہاں سرمایا دارانہ نظام اور مادہ پرستی عروج پر ہے وہاں ہر طبقہ کے لیے بہت اعلی معاشرتی انصاف موجود ہے ۔ اور اس کے خدوخال بلکل اسلام اور قرآن والے ہیں ۔ بلکہ ہالینڈ میں تو کچھ قوانین کو عمر لاء کا بھی نام دیا گیا ہے ۔ غیر ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا کیوں نہیں ہے ؟ کیونکہ ان کا نہ ترقی کرنا ہی استحصالی نظام ہے جو ان کے حکمرانوں نے ان پر مسلط کر دیا ہے ۔
میں کوئ ایک سال بیجنگ رہا ۔ وہاں کافی حد تک مغرب کا معاشرتی انصاف کا نظام لاگو تھا ، ٹھیک ہے آزادی رائے نہیُ تھی لیکن ایک عزت والی زندگی میسر تھی ۔ ۶۰ فیصد work force خواتین کی کیکن بس کی ہوسٹس والی بربریت سے پاک ۔ اب تو ٹرمپ نے WTO کو کہا ہے کہ چین کو ترقی یافتہ ملکوں کی لسٹ میں ڈالو تا کہ اس کی مصنوعات پر ڈیوٹیاں لگ سکیں ۔
پاکستان اور ہندوستان کو الگ ہوئے ستر سال ہو گئے ۔ اس تقسیم نے دس لاکھ جانیں تو لے لیں لیکن دونوں طرف کی آبادیوں کو ایک جہنم میں دھکیل دیا ۔ کل میں ارونداتی روئے کا نیا ناول
The Ministry of utmost happiness
پڑھ رہا تھا ۔ ۱۹۹۷ میں اس نے
God of small things
لکھ کر اس استحصال اور غربت کے سرکس کو پوری دنیا میں ننگا کیا ۔ اس کے ہر ناول اور مضمون کا چالیس زبانوں میں ترجمہ ہوتا ہے ۔ ۲۲ سال ہو گئے ہیں اسے لکھتے ان موضوعات پر ۔ مجال ہے ہندوستانی معاشرہ ٹس سے مس ہوا ہو ۔ چلو پاکستان میں تو زیادہ تر مارشل لاء کا ایلیٹ کلچر رکاوٹ رہا ۔ ہندوستان کی جمہوریت کس طرف جا رہی ہے؟
ابھی بھی ارونداتی عدالت اور کچہری کے چکر لگانے پڑتے ہیں ۔ ان کتابوں سے وہ کہتی ہے زیادہ پیسہ وکیلوں کی فیسوں اور ہوٹلوں پر لگ جاتا ہے ۔ سعادت حسن منٹو غریب کہ پاس وہ بھی نہیں تھا ۔ عدالتوں کی سیڑھیوں پر ہی جان دے دی ۔ لیکن تحریک چلائ رکھی جو مشعل آجکل ارونداتی اور کچھ اور لکھاریوں نے جلائ ہوئ ہے ۔
وہ اس ناول میں سرمد شاہ کا تزکرہ کرتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر آرمینیا کا یہودی تھا پھر مسلمان ہو گیا اور آخر میں روحانی ، اور اس کا بھی مادھو لعل حسین کی طرح ایک ہندو لڑکے سے معاشقہ بہت مشہور تھا ۔ وہ بھی ڈائجنیز کی طرح ننگا پھرتا تھا اور اپنے ٹرائل کے وقت بھی بادشاہ اورنگزیب کے سامنے ننگا ہی پیش ہوا تھا اور جب کلمہ سنانے کا کہا گیا تھا تو صرف لا اِ لہ تک سنایا اور سر قلم کروا لیا ۔ ارونداتی کہتی ہے مریدوں نے ہیلمٹ کی طرح وہ سر اُٹھایا اور چومنے لگ پڑے ۔ منہ سے وہی کلمہ ادا ہوتا رہا تھا ۔
یہ ناول اس نے ہیجڑوں پر لکھا ۔ ایک مسلمان حکیم کے گھر تین بچیوں کے بعد بیٹا ہوتا ہے جو دراصل ہیجڑا ہوتا ہے والدہ حکیم صاحب کو وہ جب پانچ سال کا ہوتا ہے بتاتی ہے اور گھر میں طوفان برپا ہو جاتا ہے ۔ بچہ کلاسیکل موسیقی کا بڑا شوقین ہوتا ہے ایک مشہور استاد کا شاگرد بن جاتا ہے ۔ والد حکمت میں مریضوں کو بیماری کا علاج دوائ سے نہیں بلکہ اشعار سے کرتے تھے ۔ ایسا ہی تھا جیسے ؛
درد منت کش دوا نہ ہوا ۔
بچہ کے آپریشن بھی ناکام ہوتے ہیں ۔ آخر اس کانام آفتاب سے انجم بن جاتا ہے وہ پہلے کچھ دیر ہیجڑوں کے محل ‘خوابگاہ’ جو شاہجہاں بنوا گیا تھا وہاں رہا پھر پولیس کو ہیسے دے کر قبرستان آباد ہو گئ ۔ جہاں اس کے والدین بھی دفن ہوتے ہیں ۔ اس کی ملاقات وہاں ایک ہندو لڑکے صدام حسین سے ہوتی ہے جس نے نام صرف اس لیے رکھا ہوتا ہے کہ اس نے ایک تھانیدار کو مارنا ہوتا ہے جس نے اس کے باپ کو اس کے سامنے بہت بے دردی سے قتل کروایا ۔ دونوں موت کے نگر میں ، ایک مارنے کے لیے اور دوسرا مرنے کے لیے ، ایک اپنی ہی دنیا آباد کرتے ہیں ۔ جو اصل ، حق اور سچ پر مبنی ہوتی ہے ۔
میں نے کوئ ایک سال ہو گئے لکھنا شروع کیا ۔ ارونداتی تو آرکیٹیکٹ تھی اور تخلیقی اثر اسے ادھر لے آیا ، میں تو ایک doer تھا ایلیٹ استحصالی مافیا کے ظلم و ستم نے امریکہ دھکیل دیا ۔ تو by default لکھنا شروع کر دیا ۔ سوچا تحریک جاری رکھیں جب تک خوں میں حرارت ہے ۔ عدالتوں سے بھی جان چُھٹی ہوئ ہے ۔ صرف پا غفور کے پاکستان میں اشتہاری ہیں ۔
کل میں نے اپنی فیس بُک پر ایک اشتہار لگایا ہوا تھا جو بحریہ کے مالک ٹھیکیدار ریاض نے دیا ہوا تھا ۔ جس کو حال ہی میں ریٹائرڈ جنرل اور جج چاہیے تھے ۔ مجھے بہت خوف آیا ، لگتا ہے اس نے مزید راؤ انوار اور کاشف عباسی پالنے ہیں ۔ ہمارا مقابلہ میرے ہم وطنو ان جلا دوں سے ہے ۔ اس مافیا سے ہے ۔ انہوں نے ہمیں یرغمال بنایا ہوا ہے ۔ ہمارے منہ سے آخری نوالا بھی چھین لیا ہے ۔ ہمیں دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے ۔ آئیں اُٹھیں ان کا مقابلہ کریں ان کو تحظ نحظ کر دیں ۔ پھر ہی ہم حضرت عمر کا اپنے پیارے نبی کا دیا ہوا معاشرتی نظام نافز کر سکیں گے وگرنہ یہ سرمد کی طرح ہماری گردنیں اتارتے رہیں گے ۔ یہ ہمارا وطن ہے ہم نے اس اپنے آباؤ اجداد کا خون بہا کر حاصل کیا ۔ احمد فراز کے اشعار پر ختم کروں گا ۔
ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں کے
ابھی ہے دور سحر تھوڑی دور ساتھ چلو
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔