ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے زیراہتمام ایک اور تنقیدی پروگرام پیش کیا گیا ادارہ عالمی بیسٹ اردو پویئٹری اب تک 211 ایسے ہی کامیاب پروگرام پیش چکا ہے
مشاعرہ بعنوان ردیفی مشاعرہ تھا جس کا
تاریخ : 13-07-2019
وقت شام سات بجے باقائدہ تلاوت کلام پاک اور حمد و ثناء سے آغاز ہوا اور پھر ہر طرف سے واااہ واااہ ؛ کیا کہنے ، لاجواب ،بہت خوب بہت خوب ، اور عمدہ، بہت اعلی، جیسے خوشبو بھرے لہجوں کے جل ترنگ بجتے رہے اور احباب ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے رہے
جسا کہ مختلف موضوعات کے مختلف ردیف شعراء کی نظر کیے گئے تھے جن پر ہر ایک شاعر نے تبع آزمائی کی اور اپنے اپنے انداز میں اشعار کی لڑیاں پرویں اور خو ب داد و تحسین سمیٹتے نظر آئے –
ردیف کچھ یوں تھے
1۔ہم دونوں
2۔کچھ نہیں
3۔لکیریں
4۔کی طرح
5۔اک شخص
صدر محفل کا صدارتی خطبہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
احباب ذی وقار
پہلی بات تو ادارے کی تمام انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھ جیسے کم علم شخص کو مسند صدارت کی کرسی کے لیے اہل سمجھا۔
آج کا پروگرام واقعی منفرد رہا ہے کہ دوسرے پروگراموں میں صرف ایک ردیف پر طبع آزمائی کی جاتی تھی۔جس میں اکثر خیالات و بحر کا ٹکراؤ ہوجانا عام سی بات تھی ،لیکن اس پروگرام میں پانچ عدد ردیف تھیں۔جس پر شعراء کرام نے خوب طبع آزمائی کی۔
ویسے تو ردیف کے لغوی معنی ہیں گُھڑ سوار کے پیچھے بیٹھنے والے کے ہیں ۔ا ہمارے شعراء کرام بھی ایک کے بعد دوسرے،تیسرے ،چوتھے یعنی کہ ردیف کی شکل میں آتے گئے اور خوبصورت کلام پڑھنے کو ملتا رہا۔
شعری اصطلاح میں ردیف سے مراد وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہے جو قافیے کے بعد مکرر آئیں اور بالکل یکساں ہوں۔ ردیف کا ہر مصرعے میں ہونا لازمی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ غزل کے اشعار میں مصرعہ ثانی میں دہرائے جاتے ہیں۔ لیکن اس مشاعرے میں شامل شعراء کرام کا کوئی ثانی نہیں۔ بہت ہی خوبصورت کلام لکھتے ہیں۔
وہ غزل جس میں ردیف ہو اس کو مردف غزل کہتے ہیں۔
اور ایسی غزل جس میں ردیف کا استعمال نہ کیا گیا غیر مردف غزل کہلاتی ہے
ہمارے اس مشاعرے میں باقاعدہ کہکشاں ادب حسیں ستاروں کی محفل سجائی گئی ہے۔جو فروغ ادب میں پیش پیش ہیں۔
سفر میں ہونے کی وجہ سے زیادہ گفتگو نہیں کر سکتا۔
المختصر ادارے کے ایک اور کامیاب پروگرام پر سب احباب کو مبارکباد
ہم ڈوبتے مہتاب سے لائیں گے نئی صبح
ابھری ہیں سر سحر ضیا ء بار لکیریں
صابر جاذب لیہ پاکستان
مہمان خصوصی
تورات کی ہیں مثل نہ انجیل کی طرح
ہم علم میں ہیں سوکھی ہوئی جھیل کی طرح
ڈاکٹر مینا نقوی مراد آباد بھارت
مہمان اعزای
بھلا کیوں نہ محبت کا کریں سامان ہم دونوں،
فرشتے ہم نہیں جاناں! کہ ہیں انسان ہم دونوں
اطہر حفیظ فراز فیصل آباد پاکستان
ناقدین
مسعود حساس کویت
افتخار راغب دوحہ قطر
ممتار احمد آرزو پاکستان
نظامت
اشرف علی اشرف سندھ پاکستان
رپورٹ
خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ
پروگرام آرگنائزر
محمد احمر جان رحیم یار خان پاکستان
پروگرام آئیڈیا
توصیف ترنل ہانگ کانگ
حمد
تیری حمد و ثناء میں لکھوں
میرا جب تک چلے یہ قلم
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا
نعت رسول
ہو نگاہ کرم یا نبی یا نبی
شعر ہو جائیں میرے وحی کی طرح
مصطفیٰ دلکش ممبئی مہاراشٹر الہند
کر دئے ہم نے جتنے تھے شکوے غلے
کہنے سننے کو اب تو بچا کچھ نہیں
روبینہ میر کشمیر بھارت
جب آدمی کو آدمی کھائے گا پھاڑ کر
آئے گا ایسا دور بھی یہ دور کچھ نہیں
جعفر بڑھانوی بھارت
جی رہا ہوں مان کر شیداّ سُکھ کی زندگی
پی رہا ہوں درد و غم دُکھ شراب کی طرح
علی شیدا کشمیر
تم نے اٹھا کے مجھ کو رکھا ہے طاق پر
جیسے میں ہوں پُرانے اخبار کی طرح
اشرف علی اشرف سندھ پاکستان
ایک مدت ہوئی بچھڑے ہوئے تم سے لیکن
اب بھی بستر پہ مہک ہے ترے بالوں کی طرح
مصطفیٰ دلکش ممبئی مہاراشٹر الہند
پیار کا اک سنسار بنائیں ہم دونوں
اک دوجے سے ہاتھ ملائیں ہم دونوں
شیخ نورالحسن حفیظی سرینگر کشمیر
میری انکھوں سے ہمہ وقت ہے جاری انجم
چشمہء شوق ترے حسن کے دھاروں کی طرح
غزالہ انجم بورے والا پاکستان
جو بیچ دے ضمیر کو دولت کی حِرْص میں
اُس رہنماۓ قوم کا کردار کچھ نہیں
رضاالحسن رضا پاٸتی امروہہ یو پی بھارت
مجھ کو روتے ہوئے دیکھ کر کہہ گیا
شعبدہ گر ترا مدعا کچھ نہیں
عتیق دانش لاہور پاکستان
مندروں مسجدوں تک ہی محدود سب
اس سے آگے کوئی سوچتا کچھ نہیں
اصغر شمیم،کولکاتا،انڈیا
ہوش اڑاتی ہے مرے ،تیرے بدن کی خوشبو
رات رانی کےکھلے پھول کی خوشبو کی طرح
خواجہ ثقلین
ترے دم سے رونق تھی اس بزم میں
یہ محفل ہے تیرے بنا کچھ نہیں
عقیل احمد رضی ممبئی انڈیا
میرے یہ چند الفاظ ہر اس شخص اور شاعر کے لئے ہیں جو سخن شناس اور سخن پسند ہے
شاعر کی زبان سے نکلے الفاظ عظمت و تمکنت اور وقار کے حامل ہوتے ہیں شاعر اپنے شعروں میں خیالات کو خوبصورت الفاظ کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ شاعر جب بھی لب کشائی کرتا ہے تو عشقِ مجازی کو عشقِ حقیقی کو بیان کرتا ہے اور انکی طرف اشاروں توجہ دلاتا ہے
ایک اچھا شاعر اپنے اردگرد کے ماحول اورواقعات کو اپنے ذہن کے آئینے میں رکھ کر صاف و شفاف اور پاک لفظ نکال کر انہیں حسین لہجوں، رویوں ، رشتوں اور دکھ سکھ اور تنگی و فراوانی ،نفرت و محبت کے تمام زاویوں سے پرکھ کر اشعار کی صورت کوئی نظم یا غزل تخلیق کرتا ہے جسے باشعور اور غیر شعور لوگوں کے دل و دماغ راحت محسوس کرتے ہیں
میں آخر میں تمام احباب کے لئے دعا گو ہوں کہ ربِ
تعالی آپ سب کے سخن اور رزقِ سخن میں فراوانی عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ کامیابیوں سے نوازاے
اسی کے ساتھ اجازت چاہوں گا اس امید کے ساتھ کہ آیندہ بھی مجھ مجھ خاکسار کو خدمت کے لئے یاد کیا جائے گا اللہ آپ سب کو سلامت رکھے آمین