آخری مختصر کہانی
تب میں کہانیوں سے واقف نہ تھا۔
فیکٹری کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس میں حکومت اسلحہ تیار کرتی ہے اس لیے ورکرز کے علاقے کو پوری طرح درختوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے تاکہ دشمن ملک کا جاسوس جہاز آئے تو اس کو وہاں جنگل ہی دکھائی دے، کسی طرح بھی یہ گمان نہ گزرے کہ یہاں پر کوئی فیکٹری ہے۔ ورکرز کے کواٹروں کی چھتوں کو تکونی قبر جیسا مٹیالا بنا دیا گیا تھا، تب ہم بچے ایسا ہی سوچا کرتے تھے کہ یہ بھی دشمن سے بچنے کی ایک ترکیب ہے کہ جب ان کا جہاز آئے گا جنگل اور قبرستان سمجھ کر واپس چلا جائے گا۔ میں وہاں گولیوں کی آواز سُن کر بڑا ہوا تھا، مجھے نہیں یاد کہ میرے پاپا نے کب مجھے بتایا ہوگا کہ یہ گولیوں کی آواز اس وقت آتی ہے جب وہاں پر اسلحہ چیک کیا جاتا ہے، بارود پھٹنے کی آواز آتی تھی تو میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہا کرتا تھا کہ اب فیکٹری میں بم پھوڑ کر چیک کیے جا رہے ہوں گے۔ ان میں سے ایک نے تب بتایا تھا کہ پہاڑوں سے پتھر کاٹنے کے لیے یہ بم پھوڑے جاتے ہیں لیکن مجھے اس کی بات پر اتنا یقین نہ تھا۔ شاید یہ اس لیے تھا کہ میرے لیے عام بات بہت غیر دلچسپ سی ہوگئی تھی۔ میں ہمیشہ کچھ ہولناک سننا چاہتا تھا، یا اتنا کچھ سُن لیا تھا کہ چھوٹی باتیں زیادہ متاثر نہیں کرتی تھیں اور میں ہر لمحہ متاثر رہنا چاہتا تھا، حیرت میں رہنا چاہتا تھا۔
یہی حیرت تھی جو مجھے اُن کے پاس لے گئی تھی اور پھر میں نے نت نئی کہانیوں سے ملنا شروع کیا تھا۔ وہ ہماری ہمسائی تھیں اور ان کی شخصیت بہت باکمال تھی۔ میں سکول سے آنے کے بعد شاید ہی کبھی اپنے محلے کے پندرہ گھروں میں نہ گیا ہوں، یونیفارم تبدیل کیے بغیر بستہ رکھتے ہی ایک ایک کے گھر میں جاتا اور وہاں ان لوگوں کے درمیان گھر کے باقی افراد کی طرح بیٹھ جاتا۔ اگر کوئی کھانا کھا رہا ہوتا تو مجھے کھانا دے دیا جاتا میں اخلاقی طور پر تھوڑے بہت انکار کے بعد کھالیا کرتا، بہن بھائی آپس میں کھیل رہے ہوتے تو چپ چاپ ان کے کھیل میں شامل ہوجاتا۔ ایک گھر سے نکل کر دوسرے میں بغیر کوئی دستک دیے داخل ہوتا ، میرے اپنے گھر میں داخل ہونے پر گھر والوں اور محلے والوں کے چہرے پر تاثرات بالکل ایک ہی طرح کے ہوتے تھے۔ سارا دن ایک ایک گھر میں گھومنے کے بعد شام کی دھند سی گرنے لگتی اور ماحول میں تھوڑی تھوڑی خاموشی چھانے لگتی تو میں خانم آنٹی کے گھر کا رخ کرتا۔ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت وہ سبزی کاٹ کر کچن میں داخل ہوچکی ہوں گی۔ مجھے ان کے پیازوں کے بھورے ہونے سے پہلے ان کے گھر پہچنا ہوتا تھا کیونکہ ان کی خوشبو کے ساتھ کہانی کا جو مزہ آتا تھا وہ اس سے پہلے تھا نہ بعد میں۔۔۔ میں سرد گہری شام کے وقت جب خاموشی سے ان کے کچن میں داخل ہوتا تو میرے ٹھنڈے بدن کو ان کے باورچی خانے میں پھیلی گرمائش کچھ ایسا سکون دیتی کہ چہرے پر مسکراہٹ سی کھل آتی۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر مسکرا دیتیں۔ میں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتا اور کہتا؛
"اچھا خانم آنٹی پھر کیا ہوا تھا؟"
وہ ہنڈیا میں چمچ ہلاتے ہوئے رُک کر چھت کو تھوڑا سا گھورتیں، کچھ یاد کرتیں اور پھر میری طرف دیکھ کر کہتیں؛
"کیا ہوا تھا؟ کہاں تک کہانی سُنائی تھی؟"
میں ان کی سُنائی کوئی بھی کہانی کبھی نہیں بھولا، آج تک نہیں بھولا، اس وقت بھی اسی طرح لفظ بہ لفظ یاد ہوا کرتی تھی مگر ہمیشہ انہیں کچھ پیچھے سے بتا دیتا تاکہ میں دوبارہ سے مزہ لے سکوں۔ وہ ہنڈیا میں چمچ ہلائے جاتیں اور آگے سے آگے بڑھتی چلی جاتیں۔ بیچ بیچ میں کہہ دیتیں؛
"یہ پلیٹ دھو دو، یہ کپ پکڑا دو، یہ چنگیر وہاں رکھ دو، جاؤ فرج سے دھنیا نکال لاؤ، یہ ٹماٹر واپس رکھ آؤ۔"
میں ان کی آنکھوں کو دیکھتا دیکھتا، متجسس، کہانی کے اگلے موڑ کی فکر میں سارے کام تو کیے جاتا مگر مجھے کچھ اور آس پاس دکھائی نہیں دیتا تھا، بس کردار ہوتے تھے، وہ مناظر ہوتے تھے اور ان کا چہرہ، چہرے پر لگی وہ آنکھیں جو لفظ لفظ کے ساتھ ایسے تاثرات دیتی تھیں کہ مجھے لگتا حرف بہ حرف سچ ہے۔ سچائی کے علاوہ کتنی اپنائیت تھی، کس قدر مامتا کے احساس سے معطر کہانیاں تھیں۔۔۔ دراصل ان کی ذات سے ہی یہ محسوس کیا تھا کہ ہر ماں ایک کہانی کار ہے جو سماج کے کورے کاغذ پر صدیوں سے ایک ہی طویل کہانی لکھتی چلی آ رہی ہے۔اس کی کہانی کا آغاز کی طرح کوئی انت نہیں ہے، یہ سب کہانی کے کردار ہی ہیں جو اپنی اپنی ضرورت کے مطابق آغاز کے مفروضے لگاتے ہیں، کہانی کا رُخ موڑنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں، کلائمیکس تک پہنچانے کی اَن تھک محنت میں جتے رہتے ہیں تاکہ بعد میں انجام تو دیکھ سکیں۔۔۔ مگر ایسا ہو نہیں پاتا، ایسا ہو ہی نہیں سکتا، جس دن ہوگیا تو اسی روز کہانی کار دم توڑ جائے گی اور کہانی بھی ادھوری رہ جائے گی۔۔۔
مجھے کسی نے کہا تھا کہ ہر آفت سے پہلےکچھ سناٹا سا چھا جاتا ہے۔ چرند پرند میں ایک پریشانی سی پھیل جاتی ہے اور ماؤں کے چہروں پر خوف کی پرچھائیاں دکھائی دینے ہیں۔ اس وقت میں سمجھ نہیں پایا تھا۔خانم آنٹی کے بدلتے چہرے کو محسوس تو کرتا تھا، ان کی کہانیوں کے بھیانک موڑ سے خوفزدہ تو ہوتا تھا لیکن سمجھ نہیں پاتا تھا یہ کس لیے ہو رہا ہے۔ ان کی کہانیوں میں سے کردار کم ہوتے جا رہے تھے۔ یُوں محسوس ہوتا تھا جیسے دنیا خالی خالی سی ہو رہی ہے، انسان کم ہو رہے ہیں، بیابان پھیلتا جا رہا ہے، ویرانی بڑھتی جا رہی ہے اور سارے مناظر رات جیسا اندھیرا رکھتے ہیں۔ اب ان کی کہانیوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ خوف بھی اترتا آرہا تھا۔ وہ پریشان چہرے کے ساتھ ایک جملہ ہر کہانی میں کہا کرتی تھیں؛
"ہر وہ ریاست ڈائن ہے جو ماؤں کے آنسو پلا پلا کر جوان دھرتی کو بنجر کر جاتی ہے۔"
میں سوچتا اور سوچتا ہی رہ جاتا کیونکہ میرے ذہن کی لغت میں ابھی ریاست، دھرتی اور بنجر کے معنیٰ بہت کچے تھے۔ وہ مجھے اور اپنے دو بیٹوں سے ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ باہر مت جایا کرو، گھروں میں رہا کرو!
جب پاپا رٹائر ہوئے اور ہم وہاں سے دوسرے شہر منتقل ہوئے تو اُن دنوں محلے کے نوجوان لڑکوں کو نشے کی لت لگ چکی تھی۔ سُنا کرتا تھا کہ فلاں کا بیٹا بھی نشہ کرتا ہے، فلاں بھی نشہ کرتا ہے۔ میرے سامنے وہ نوجوان چہرے جو پہلے زندگی سے بھرپور ہوا کرتے تھے بجھنے لگے تھے۔ دیکھتے ہی احساس ہوتا کہ جیسے کسی ناتجربہ کار مصور نے ان کے چہروں پر کسی صحرا کو پینٹ کرتے کرتے ادھورا چھوڑ دیا ہے۔
کہانیوں کی ایک کتاب بند ہوگئی۔
میں خود کہانیوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا، ماحول کی کروٹ پر مائیں کیوں بے چین ہوتی ہیں سمجھنے کی کوشش کرنے لگا، پھر محبت کے معنیٰ پر بھی غور کیا تو معلوم ہوا کہ میرے ارد گرد نفرتیں اس قدر پھیل چکی ہیں کہ مجھے ان کو مٹا کر محبتوں تک پہنچتے پہنچتے ایک طویل عمر چاہیے۔ میرے دوست اکثر کہا کرتے تھے کہ؛
"یار تمہاری کہانیوں میں محبت، رومانس نہیں ہوتا۔"
میں کہہ دیا کرتا؛
"ہاں! کیونکہ مجھے محبت اور رومانس سے پہلے اور بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ میں لکھنا چاہتا ہوں، محبت کی کہانیاں لکھنا چاہتا ہوں لیکن مجھے یہ بجھے ہوئے چہرے دکھائی دینے لگتے ہیں، ان اجڑی ہوئی زندگیوں کی چیخ و پکار سنائی دینے لگتی ہیں۔۔۔ مجھے شدت سے اُس سماج کا انتظار ہے کہ جب میں بیٹھ کر بہار کے قصے اور گل و رخسار کی حاشیہ آرائیاں کروں گا۔ ۔۔ لیکن ابھی نہیں ہو پاتا۔"
سال تیزی سے گزرتے رہے۔ کہانیاں خود کو آزاد کرواتی رہیں۔ میں اپنے کرداروں کے حصار میں گھرتا چلا گیا۔۔۔ آس پاس کی کچھ زیادہ خبر نہ رہی۔ بہت عرصے کے بعد ایک دن اچانک کسی نے مجھ سے پوچھا؛
"آپ کو کہانی لکھنے کا شوق کب سے ہے؟"
میں سوال کا جواب دینے ہی والا تھا کہ یک دم میرے ذہن میں خانم آنٹی کا خیال آیا۔۔۔ اور میں نے جھٹ سے جواب بدل دیا؛
"کہانی لکھنے کے شوق کا مجھے کچھ علم نہیں، البتہ مجھے کہانی سننے کا بے پناہ شوق تھا، اگر میں کہانیاں نہ سنتا اور کہانیاں سنانے والا خاموش نہ ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ میں تمام عمر لکھنے سے زیادہ سننے کو ترجیح دیتا۔"
اُس روز احساس ہوا کہ میری ان چھوٹی کہانیوں کو جنم دینے والی خانم آنٹی ہیں۔
مجھے ان کے پاس جانا ہے اور ان کو بتانا ہے کہ اب میں بھی کہانیاں سنانے لگا ہوں۔ وہ جان کر بہت خوش ہوں گی۔ میں نے دوستوں کو ڈھاپے پر چھوڑا اور سیدھا ٹرمینل جا کر اسی شہرِ کہانی گر کا ٹکٹ لے لیا۔ مجھے ان کو ڈھونڈنے میں دقت ہوئی، تھوڑی کوشش کے بعد جب ان کے گھر پہنچا تو وہ کہانی گو بالکل مرجھا چکی تھیں۔ ان کے چہرے پر جھریاں تھیں، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے ۔ ہونٹو ں پر ایک گمنام سی اداسی تھی۔ میں کچھ دیر ان کے سامنے رُکا اور پھر کہا؛
"شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟"
ان کی خاموش آنکھیں مسکرائیں، چہرے کی جھریوں نے اپنے راستے بدلے اور اداس ہونٹوں نے میرا نام بڑبڑایا، آگے بڑھ کر مجھے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا اور ماتھا چوما، گال چومے، ہاتھوں کے کٹورے میں میرا چہرہ بھر کر کہنے لگیں؛
"تم اتنے بڑے ہوگئے ہو؟"
میری مسکراہٹ ابھی ماضی کے راستوں سے بھاگتی ہوئی آ ہی رہی تھی کہ ان کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔ میں نے ان کو دوبارہ ساتھ لگا لیا، وہ سسکیوں سے رونے لگیں؛
"میرے بیٹے کو ڈائن کھا گئی! اس کو نشے نے لے لیا!"
میں سکتے میں آچکا تھا، میرے علم میں نہیں تھا کہ ان پر کیا گزری چکی تھی اور کیا گزر رہی تھی۔
ان کا دوسرا بیٹا جو میرا ہم عمر تھا گھر میں داخل ہوا۔ بہت گرم جوشی کے ساتھ ملا ، میں نے اس کے چہرے پر ایک جذبہ دیکھا تھا، ایک ایسا جذبہ کہ جو ہر باشعور نوجوان کے چہرے پر ہوا کرتا ہے۔ اب وہ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ کارل مارکس سے متاثر تھا اور مجھے اپنی تنظیم کے جدو جہد کے بارے میں بتا رہا تھا۔ وہ چاہ رہا تھا کہ میں اس کی تائید کروں اور اس کے ساتھ جس طرح بچپن میں مل کر کھیلا کرتا تھا اسی طرح اس تنظیم میں ساتھ چلوں۔ مزدوروں کے لیے آواز اٹھاؤں، کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف لکھوں، ملاں کے خود ساختہ فتوؤں کو بے نقاب کروں جس سے وہ عام لوگوں میں خوف پیدا کرتے ہیں ، ایک دوسرے کے لیے نفرتیں پیدا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو الگ کرتے ہیں۔
مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ان تمام سماجی گراوٹوں سے کتنا پریشان ہے، یہ بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے، کچھ ایسا کہ جس سے ماحول میں امن ہو، طبقاتی جنگ ختم ہو، سب مساوی حقوق پاسکیں، انصاف ملے، تعلیم ملے، جاگیردارانہ نظام سے چھٹکارا ملے۔۔۔ وہ بہت پُرعزم تھا، پُرجوش تھا اور آنٹی خانم اتنی ہی پریشان تھیں۔ وہ اسے رہ رہ کر چپ کروائے جا رہی تھیں۔ بار بار اس کی باتوں میں مُخل ہو رہی تھیں۔ ان کی گھبراہٹ میں سمجھ پا رہا تھا، مسکرا کر کہہ دیتا کیوں چپ کروا رہی ہیں؟ اس کو بولنے دیں، مجھے اچھا لگ رہا ہے یہ جو کچھ بھی کہہ رہا ہے۔
میں کافی دیر وہاں بیٹھا رہا مگر پھر گہری شام کی دھند گرنے سے پہلے میرے اندر اداسی اترنے لگی تو وہاں سے واپس آگیا، یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ مجھے جو کہانی کھینچ کر لاتی تھی اب کہہ رہی تھی کہ اُس سے دور بھاگ جاؤں۔ میں پہلی مرتبہ کوئی بھی کہانی نہیں سننا چاہتا تھا، شاید مجھ میں حوصلہ باقی نہ تھا۔
—–
کیلنڈر پھر سے بھاگنے لگا تھا میں اس کے پیچھے پیچھے سال پکڑنے کی کوشش میں تھا۔
ڈائن بھی بچے اسی رفتار سے نگلنے لگی تھی، چرند پرند کسی اور نگر کُوچ کرچکے تھے۔ مائیں مسلسل بے چین تھیں۔ یونہی کسی نے پوچھا کہ؛
" دھرتی کو ماں کیوں کہتے ہیں؟"
اور میں جواب دیتے دیتے کہیں کھو گیا؛
"دھرتی سچ میں ماں ہوتی ہے؟ دھرتی اگر اپنی آغوش میں پناہ دے تو ماں ہے۔۔۔ زندگی کو جنم دینے سے محروم رہے تو بنجر زمین کے سوا اور کچھ نہیں۔۔۔ اور جب یہ ڈائن۔۔۔۔ یہ ڈائن۔۔۔۔"
میں نے کچھ نہ کہا اور اُٹھ کر دوبارہ کئی سال بعد ٹرمینل کی طرف بھاگا، ٹکٹ لیا اور خانم آنٹی کے آنگن میں جا کھڑا ہوا۔ وہ اس مرتبہ لپٹ کر اور زیادہ شدتِ کرب سے چیخنے لگیں؛
"یہ ڈائن میرے دوسرے بیٹے کو بھی نگل گئی! اس بار میرے بیٹے کا قصور صرف سچ بولنا سچ کہنا تھا!"
ہمیں چپ چاپ بیٹھے بہت وقت بیت چکا تھا، ماحول پر بھی خاموشی طاری تھی۔ گہری دھندلی شام کسی کہانی کے ساتھ زمین پر دھیرے دھیرے اتر کر سرسرا رہی تھی مگر ہم خاموش ہی رہے۔۔۔ یہ خاموشی طول پکڑتی جا رہی تھی، یُوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کہانی دلان میں ٹہل رہی ہے ۔ عجیب کیفیت تھی کہ پہلی مرتبہ تجسس خوف کے پیچھے چھپ کر بیٹھا دکھائی دے رہا تھا شاید اسی لیے میں کوئی بھی کہانی سننے سے گھبرا رہا تھا لیکن یہ بھی ممکن نہ تھا کہ میں اس کہانی کو بغیر سنے ہی چلا جاؤں۔ میں رہ رہ کر آنٹی خانم کے ہونٹوں کی جانب دیکھ رہا تھا، اُن کی آنکھوں کی جانب دیکھ رہا تھا، ان کی آواز سننے کو بے چین تھا کہ آخر میں نے جی کڑا کرکے کہہ ڈالا؛
"اچھا خانم آنٹی پھر کیا ہوا تھا؟"
لیکن اب کے وہ بالکل خاموش رہیں، ان کی آنکھوں میں کوئی تاثر تو نہ ابھر البتہ ایک آنسو تھا جس نے گود میں گر کر خود کشی کر لی۔۔۔ سر جھکا رہا، ہونٹوں میں جنبش پیدا ہوئی، میں نے سوچ لیا تھا کہ آج کوئی بھی کہانی سنی تو وہ آخری ہوگی۔ اس کے بعد میں کہانی سے رشتہ توڑ دوں گا۔
اپنی ساری توجہ ان کی جانب کیے، سانسیں روکے، دھڑکنیں سمیٹے ان کے الفاظ سننے کو بے قرار بیٹھا تھا کہ آخری مختصر کہانی ان کی پلکووں پر جھلملائی اور پھر بجھ گئی؛
"اپنے بیٹے کی لاش کے قریب بیٹھ کر جب میں نے اس کا ہاتھ چومنا چاہا تو دیکھا ظالموں نے اس کی انگلیاں تک توڑ ڈالی تھیں۔"
٭٭٭ختم شد٭٭٭
19 اپریل 2017
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔