امریکہ میں گدھے جیت گئے (ایک خبر)
“ اپنے ہاں بھی تو ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے ( ایک تبصرہ)
یہ دونوں جملے کہیں اور جا کر اپںی معنویت کھو دیتے ہیں، امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان گدھا ہے۔اور الّو مغرب میں حکمت اور دانائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
لیکن شاید ہی کوئی انسانی خصوصیت یا صفت ایسی ہو جو جانوروں کے حوالے کے بغیر مکمل ہوتی ہو۔
“ لیڈر ساڈا شیر ہے”
“ واہ بھئی ، تو تو چیتا ہے بھئی” یا “ چیتے کی طرح پھرتیلا” یا “ چیتے کی سی کمر”
بلبلِ ہند، شیرِ پنجاب، فلورنس نائٹنگیل، رومیل، دی لائن آف ڈیزرٹ۔
واہ ری میری بلبل، کیا کوئل کی سی آواز ہے۔
“ ہائے کیا ہرنی کی سی آنکھیں ہیں”
“ طوطا چشم کہیں کا”
“ یہ کیا جلے پاؤں کی بلی کی طرح سارے گھر کے جالے لیتی پھرتی ہو؟”
پانچسو “ ہارس پاور” کا انجن
“ کتّے کی طرح وفادار” “ لومڑی کی طرح چالاک” “ سانپ سے زیادہ زہریلا” “ اونٹ کی طرح کینہ پرور”
“ مست ہاتھی کی طرح جھومتے ہوئے”
“ میں گڑیا حسین، میری مورنی سی چال ہے”
“ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کیا ہوگا”۔
“ ان کی عقابی نظروں نے حالات کو بھانپ لیا”
“ اف کیا جل بِن مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی وہ؟”۔
یوں لگتا ہے کہ انسان نے اپنی ہر اچھی بری خصلت جانوروں سے لی ہے۔ جانور پھر بھی انسان سے بہتر ہیں کہ جانوروں کی سی زندگی گذارتے ہیں لیکن بہت سے انسان جانوروں سے بھی بدتر زندگی گذارتے ہیں۔ ادھر بہت سے جانور انسانوں سے بھی بہتر زندگی گذارتے ہیں۔
آج سے بہت سال پہلے کی بات ہے۔ میری بیگم لندن کی انڈرگراؤنڈ میں ایک ٹرین کے کونے والی سیٹ پر بیٹھ گئیں ۔ اگلے اسٹیشن پر ایک صاحب ایک کتّے سمیت ٹرین میں سوار ہوئے۔ کتا بے چینی سے ٹہلنے لگا اور بار بار کونے والی نشست کی طرف جارہا تھا۔ ٹرین کے عملے کے ایک شخص نے میری بیگم سے مودبانہ درخواست کی کہ وہ نشست چھوڑ دیں۔ وہ کتّے صاحب کے لیے مخصوص تھی۔ ہم نے اور دوسرے لوگوں نے بقیہ سفر کھڑے ہوکر طے کیا۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کون کس سے بد تر زندگی گذار رہا تھا۔
انسان اور جانور کا جنم جنم کا ساتھ ہے۔ آسمانی کتابوں میں بھی جانوروں کا ذکر جابجا آتا ہے۔ اصحابِ کہف کے کتّے سے کون واقف نہیں۔ حضرت عیسٰی کا گدھا، اور کتاب اللہ میں ان گھوڑوں کی قسم ہے جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں، ٹاپ مار کر پتھروں سے آگ جھاڑتے ہیں، پھر صبح کے وقت دھاوا بولتے ہیں،پھر غبار اڑاتے ہیں۔ اور دشمنوں کی صفوں میں جا گھستے ہیں ۔ اور اللہ کی کتاب میں ہی ہد ہد کا بھی ذکر ہے اور اس مچھلی کا بھی جس کے پیٹ میں حضرت یونس کو رکھا گیا تھا۔ اور کتاب اللہ میں جانوروں کو الانعام کہا گیا یعنی یہ بھی مالک کی نعمتوں کا حصہ ہیں۔ جانور جن میں سے ہم بعض سے غذا حاصل کرتے ہیں اور بعض کی سواری کرتے ہیں ۔ انہی کے چمڑے سے ہماری پوشاکیں اور پاپوش تیار ہوتے ہیں تو ان کی ہڈیوں اور انتڑیوں تک سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
یہی جانور سائنسی تجربات میں انسان کی مدد کرتے ہیں، اپنی جانوں کی قربانی دیتے ہیں۔ دشوار گذار پہاڑی علاقوں میں باربرداری کے کام آتے ہیں۔ خلا میں جاتے ہیں، جنگوں میں پیغام رسانی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں، میدان کارزار میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ مجرموں کو پکڑنے میں پولیس کی مدد کرتے ہیں۔
اور ان حیوانوں سے انسان پیار بھی بہت کرتا ہے۔ یوروپ وغیرہ میں تو لوگ جانور کو اپنے خونی رشتوں سے زیادہ چاہتے ہیں۔ بے شمار قصے کہانیاں، مصوری کے شاہکار، فلمیں انہی جانوروں پر بنی ہیں۔مجھے یاد ہے جب ہمارے ہاں نیا نیا ٹی وی آیا تو جانوروں والے سیریل بے انتہا مقبول تھے۔ لیسی Lassie (کتا) “ فیوری ( گھوڑا) فلیپر ( ڈولفن مچھلی) دکتاری ، شکاریات پر مبنی فلم کے کردار جوڈی ( چمپینزی) اور کلیئرنس ( کانا شیر) چھوٹوں اور بڑوں کے پسندیدہ پروگرام تھے،۔ جانوروں پر مبنی کارٹون بھی پسندیدگی میں سرفہرست رہتے ہیں ۔ کون ہے جسے مکی ماؤس، مائٹی ماؤس، ڈونلڈ ڈک، پک پینتھر وغیرہ پسند نہیں۔ میں اپنی بات بتاؤں کہ آج بھی اگر میرے سامنے ہالی ووڈ یا بالی ووڈ کی ایوارڈ یافتہ فلمیں ہوں اور دوسری طرف ٹام اینڈ جیری کے کارٹون ہوں تو میں ٹام اینڈ جیری دیکھنا پسند کروں گا۔
تمہید کچھ زیادہ طویل ہوگئی۔ میں دراصل چند ایک مشہور عالم جانوروں کی بات کرنا چاہتا تھا۔ یہ اپنے وقتوں میں بڑی بڑی عالمی شخصیات سے زیادہ مشہور ہوئے۔ یاد رہے یہ چند ایک کی بات ہورہی ہے۔ یقیناً تاریخ میں بہت سے مشہور جانور گذرے ہوں گے۔ میں یہاں سب کا تذکرہ نہیں کررہا۔ چند ایک جو میرے زمانے میں کسی وجہ سے مشہور ہوئے اور جنہیں “ سیلیبریٹی” یا “ لیجنڈ” کا درجہ حاصل ہوا۔ ان دو انگریزی الفاظ کے مترادف اردو الفاظ کو قصداً استعمال نہیں کیا ہے کہ پھر بات نہیں بنتی۔ ان میں سے کچھ میرے ہوش سنبھالنے سے بھی پہلے کے ہیں اور کچھ بہت ہی پہلے کے ہیں لیکن ان کا ذکر بہت سنا ہے۔
لائکا Laika
۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ اور سابقہ سوویٹ یونین میں خلا کو مسخّر کرنے کی دوڑ لگی رہتی تھی۔ بے شک امریکہ اس میں بہت آگے چلا گیا ہے، لیکن ابتداء میں سوویٹ یونین یعنی روس ہر مقابلے میں امریکہ سے آگے رہا۔ یہ 1957 کی بات ہے۔ روسی خلائی مشن اسپوتنک دوم میں روسیوں نے ایک کتّیا ، لائکا” کو خلا میں بھیجا۔ وہ شاید گرمی اور رفتار کا مقابلہ نہ کرسکی اور چھ یا سات گھنٹوں میں موت سے ہمکنار ہوگئی لیکن تاریخ میں اپنا نام ثبت کر گئی۔ لائکا پہلی جانور تھی جو خلا میں بھیجی گئی۔ کہتے ہیں کہ ماسکو کے ایک چوک میں اس قومی “ ہیروئن” کا مجسمہ آج بھی نصب ہے۔
ہیم دا چمپ Ham the Chimp
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ چمپینزی تھا جو بندروں میں سب سے ذہین مانا جاتا ہے۔ امریکیوں نے 1961 میں Ham نامی چمپینزی کو خلا میں کسی جاندار پر مرتب ہونے والے اثرات جاننے کے لیے بھیجا۔ ہیم کا انتخاب چالیس چمپینزیوں میں سے ہوا تھا۔ پھر اسی تجربہ کی روشنی میں امریکیوں نے ایلن شیپرڈ Alan Shapperd کو خلا میں بھیجا۔ 1957 میں پیدا ہونے والا یہ امریکی ہیرو جسے خلائی مشن کے دوران No.65 کے طور پر یاد کیا جاتا تھا 1983 تک زندہ رہا۔
شیر گر Shergar
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فروری 1983 کو دنیا میں ایک ہنگامہ مچ گیا جب پرنس کریم آغا خان کے گھوڑے “ شیر گر “ کو تین مسلح نقاب پوشوں نے اغوا کرلیا۔ شیر گر یقیناً بہت باکمال گھوڑا ہوگا کہ آخر آغا خان کا گھوڑا تھا۔ اس نے بہت سی دوڑیں جیتیں اور بڑے انعامات حاصل کئے۔ اور بھی گھوڑے ہوں گے جنہوں نے کارنامے انجام دئیے ہوں گے۔ لیکن شیر گر کے اغوا میں اس وقت کی آئرش ریپبلکن آرمی کا ہاتھ بتایا جاتا تھا کہ ان دنوں آئرلینڈ میں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی اور برطانیہ کا حال ہمارے کراچی جیسا تھا۔ شیر گر کی رہائی کے لیے دو ملین برطانوی پاؤنڈز کا مطالبہ کیا گیا۔ شیر گر کا بیمہ سوا چھتیس لاکھ پاؤنڈز میں ہوا تھا۔ اسی سے آپ اندازہ کرلیں کہ کتنا قیمتی گھوڑا تھا۔ آخر پرنس آغا خان کا گھوڑا تھا۔ لیکن آغا خان نے یہ تاوان ادا کرنے سے انکار کردیا کہ اس میں پینتیس اور شراکت دار بھی تھی۔ مجھے آگے کی کہانی کا علم نہیں۔ میرے خیال میں شیر گر کو مار ڈالا گیا تھا۔
ڈولی Dolly
۔۔۔۔۔۔
جانور ہر دور میں مختلف روپ میں انسان کے کام آتا رہا ہے۔ انسان کی طبیعت میں بھی ایک بے چینی، ایک تجسس ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرنے کا موجود رہا ہے۔ مجھے سائنس اور سائنسی تجربات کا بالکل علم نہیں۔ نہ مجھے یہ پتہ ہے کہ کلوننگ کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس سے کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ البتہ یہ یاد ہے کہ ڈولی نام کی ا سکاٹش بھیڑ پر کلوننگ کا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا، یا شاید وہ کلوننگ کے ذریعے وجود میں آئی تھی۔ پانچ جولائی 1996 کو اس تجربے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ڈولی 2003 تک زندہ رہی اور اس دوران اس نے چھ میمنے بھی جنمے۔ سنا ہے اس کی بھی حنوط شدہ لاش کسی میوزیم کی زینت ہے۔
شیرو
۔۔۔۔
ہمارے صدر مشرف صاحب کو کتّے پالنے کا بہت شوق تھا۔ ان کے اقدار سنبھالنے کے اگلے دن ان کی ایک تصویر اخباروں میں شائع ہوئی جس میں ان کے دونوں ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے دو عدد “ پپی” تھے۔ انہیں پلّا یوں نہیں کہہ سکتے کہ یہ پورے کے پورے کتے ہوتے ہیں۔ پِِلّا تو کتے کے بچے کو کہتے ہیں۔ پھر جب مشرف صاحب کا چل چلاؤ ہوا، یعنی جب انہیں بہ حالت مجبوری، بہ غرض علاج دوبئی جانا پڑا تو وہ اپنے کچھ کتّوں کو ائرمارشل اصغر خان مرحوم اور ہمارے موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان کے حوالے کرگئے۔ ان کا محبوب کتا “شیرو”ان کے اور خان صاحب کے مشترکہ دوست ہمایوں گوہر کے ذریعے عمران خان صاحب تک پہنچایا گیا۔ خان صاحب بھی کتّے پالنے اور جمع کرنے کے شوقین ہیں ۔ انہوں نے بھی جی جان سے اس سے پیار کیا لیکن سنا ہے دوسال قبل شیرو مرحوم ہوچکا ہے ۔حیات ہوتا تو آج سگِ اوّل کا خطاب پاتا۔ ۔۔
کچھ عرصہ قبل ایک اور بہت خوبصورت کتّے کا شہرہ تھا۔ یہ زورو Zorro تھا جس نے مسلح افواج کے پیش کردہ ڈرامے “ عہد وفا” میں کردار ادا کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ اس وقت کے مقبول ڈی جی آئی ایس پی آر محترم جنرل آصف غفور صاحب کا کتا ہے۔ اس کی درازی عمر کی دعا ہے۔
جاسوس کبوتر
۔۔۔۔۔۔
اگر کبھی آپ کا جی اداس ہے تو طبیعت بحال کرنے کے لیے میرا مشورہ ہے کہ کوئی بھارتی نیوز چینل لگالیں۔ آپ کو کوئی نہ کوئی لطیفہ ضرور سننے مل جائے گا۔
کچھ عرصہ قبل بھارتی میڈیا کی خبروں میں ایک کبوتر نے بہت نمایاں مقام حاصل کیا تھا جو بقول ان کے پاکستان کی جاسوسی کررہا تھا۔ مجھے نہیں علم کہ اس جاسوس کبوتر کا کیا حشر ہوا۔ اسے تہاڑ جیل میں ڈالا گیا یا “ را” کے افسران اس سے تفتیش کرتے رہے، یا دوران حراست ہندوستانی بارڈر سیکیورٹی فورس نے اس کا” چکن تکہ” بنا لیا۔ ویسے ہندوستانی کچھ غلط بھی نہیں کہتے۔ پاکستانی بطور تحفہ کچھ نہ کچھ بھارت بھیجتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی گرمی بھیجنے کی سازش کرتے ہیں تو کبھی ٹڈی دل کا رخ ہندوستان کی جانب کردیتے ہیں۔
رانی
۔۔۔۔
اس دکھیا کا نام تو “رانی “ تھا لیکن اس کی زندگی تو انسانوں سے بھی بدتر تھی۔ یہ ہمارے چڑیا گھر کی ہتھنی تھی جو چڑیا گھر کے عملے کی نگہداشت کے نتیجے میں سلم ہو کر گائے جتنی رہ گئی تھی۔ اسے اتنی زیادہ ڈائٹنگ کرائی گئی کہ بے چاری بیمار رہنے لگی اور آخر کار جان، جاں آفرین کے سپرد کردی۔ کراچی کے چڑیا گھر کی ہتھنی کے ساتھ بھی وہی ہوا جو بقیہ کراچی کے ساتھ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں بقرعید پر ایک سے بڑھ کر ایک جانور آتا ہے۔ چند سال قبل بڑی عید پر میں کراچی میں تھا۔ ان دنوں “ ٹام کروز” کی بڑی دھوم تھی یہ اندرون سندھ سے لایا گیا ایک بکرا تھاجو بکرا پیڑی میں بہت رش لے رہا تھا۔ اس کی شہرت کا زور “ سلمان خان” اور “شاہ رخ خان “ کی آمد سے ٹوٹا۔ ساہیوال سے لائے گئے ان بیلوں کی قیمت لاکھوں میں تھی۔ بقرعید کے اگلے دن ان قیمتی ہستیوں کے گلے پر چھری پھیر دی گئی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...