شبلی نے شعر العجم میں اچھی طرح واضح کیا ہے کہ کسی وقیع و رفیع خیال یا واقعہ یا سین کوجو ایک سے زائد اشعار کا محتاج ہوایک ہی شعر میں اداکرنا شاعرانہ کمال ہوتا ہے. "
غالب کی طرح مصحفی کے کلام میں بعض ایسے اشعار موجود ہیں جو شبلی کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں …مصحفی دبستان لکھنو کے بانی اور ریختہ کے دوسرے بڑے استاد ہیں. انہوں میر اور سودا کی بنیادوں پر محکم عمارت شاعری کھڑی کی. مصحفی کا Impact غالب داغ اور مومن وغیرہ پر پڑا …
مثال کے طور پر
مصحفی
درِ جنت پہ بھی زنہار نہ رکھوں میں قدم
گر ذرا چیں بہ جبیں صورت رضواں دیکھوں
مومن
نہ جاؤں گا کبھی جنت میں میں نہ جاؤں گا
اگر نہ ہووے گا نقشہ تمہارے گھر کا سا
اس قسم کی اور بھی مثالیں ہیں بہر کیف..
مصحفی نے متقدمین کے ہر بہترین رنگ کو نکھار کر قابل تقلید بنایا بی شک ان کی غزلیہ شاعری کی اہمیت پہلے اور آج کی طرح آییندہ بھی کم نہ ہوگی…بعض عمدہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
مثال ١
اے مصحفیؔ کل کوچۂ خوباں میں گئے تھے
دیکھا جو وہاں سایۂ دیوار گرے ہم
"گرے ہم" یعنی ہم ایسے ڈھیر ہوئے کہ پھر اٹھنے کا نام نہیں لیا
مثال ۲
پھر وہ بے تابیِ دل، یاد دلائی گل نے
اک ذرا صبر تہہِ دام مجھے آیا تھا
یعنی تہہِ دام میں ہم گل کی یاد اور تصور تک بھلا چکے تھے(ناگہاں ) کسی پھول کو کیا دیکھا اس" غیرتِ گل محبوب" کی یادآگئی اور دل بیتاب ہواٹھا .
مثال٣
یہ عمر دراز اپنی جوں زلفِ خوباں
پریشانئ و سوگواری میں گزری
زلف کے پیچ و خم کی رعایت سے پریشانی اور
زلف کے سیاہ رنگ کی رعایت سے سوگواری لایا ہے
جیسا کہ اکثر سوگوار لوگ سیاہ کپڑےپہنتے ہیں .
عمدہ مثال رعایت لفظی کی ہے
مثال ٤
ممنون ہوں میں جی میں سگِ کوئے یار کا
نامے کو مِرے لے چلا ہے استخواں کی طرح
تشریح..
آج تک نامہ بر پرندے اور انسان تو بہت ہوئے انکی مثالیں اردو ادب میں کہیں نہ کہیں مل ہی جاتی ہیں
لیکن کتے کا کوئے یار میں نامہ بر ہونے کا اعزاز مصحفی نے دیا ہے ..خوش مزاقی کا شعر ہے .
مثال ٥
ہوا میں ہے وہ کیفیت کہ نخل اس باغ کے سارے
گلے میں بانہیں ڈالے ہیں کھڑے باہم شرابی کی طرح
ہوا،پیڑ .. انکاجھولنا شرابی سے مشابہ ہے …
مثال ٦
لکھنا کمر کا اس کے علاقہ سریں کے ساتھ
اک مو سے کھینچی ہے دو کہسار کی شبیہہ
شعر،غیر شائستہ سہی لیکن تخیل پر لطف ہے
مثال ٧
چھوڑا نہ ایک لحظہ تری زلف نے خیال
رخ سے الگ ہوئی تو گلے سے لپٹ گئی
ذوالمعنی …گلے سے لپٹنا
مثال ۸
کیا قیامت ہے کہ وہ شوخ چھپائے منہ کو
اپنا دیدار ہمیں روز جزا دکھلا کر
واقعہ نگاری کی مثال ہے
مثال ۹
آکے کوچے میں ترے دل تسلی کے لئے
روزن در سے ہی ہم آنکھ ملا جاتے ہیں
دل تسلی عمدہ ترکیب ہے اور روزن در سے آنکھ ملانا …یعنی تجلی گاہ محبوب کو دیکھنا پر لطف خیال ہے
مثال ١۰
مے پی کے اس چمن سے کون اٹھ گیا ہے جو ہے
انگڑائیوں کا عالم پھولوں کی ڈالیوں ہر
متحرک تشبیہات نہایت عمدہ ہیں
مثال ١١
وہ دل میں یہ نازاں کہ میرا رعب تو دیکھو
میں خوش کہ خیالِ نگہ ِ دور کسے ہے؟
تشریح:
یعنی محبوب کی بزم میرے دور بیٹھنے کے دو مدعے ہیں ایک تو اس کو یہ گماں گزرے گا میں اسکے رعب کی وجہہ سے دور بیٹھا ہوں اور دوسرے یہ کہ میں محبوب کی اداؤں کو دور سے جی بھر کر دیکھوں گا..کس قدر لطیف خیال ہے
کیونکہ قرب میں محتاط رہنا پڑتا ہے اور بغل میں رقیبوں کے سامنے، بیٹھ کر محبوب کے چہرے پر سامنے نظر گاڑھنا ممکن نہیں…
مثال ١۲
افسوس آشیاں پہ مرے برق گر پڑی
جب فصلِ گل میں میں نے کئے بال و پر درست
مطلب جب آشیاں نہ تھا تب میرے بال و پر نہ تھے جب پال و پر ملے تو آشیانہ جل گیا.. یعنی میں ہمیشہ ایک نہ ایک مصیبت میں گرفتار رہا. عمدہ شعر ہے اس کا ایک مطلب یہ نکلتا ہے آشیان جلنے کی صورت میں مجھے دوبارہ آشیان بندی میں مصروف ہونا پڑے اور اس شغل سے اغلب گماں یہی ہے کہ میرے بال و پر پھر سے جھڑ جائیں گے..
مثال ١٣
مجھ کو سحر خجل نہ کرے روئے یار سے
بس اتنی التجا ہےشبِ انتظار سے
اس شعر میں صبح کو خجل ہونے کی ممکنہ صورتوں کی یوں نشاندہی کی جاسکتی ہے
پہلی صورت
یا تو شبِ انتظار میں ،جزبہ عشق صادق، معشوق کو کھینچ لائے .
دوسری صورت
یا شب انتظار جو وصل کے لئے پہلے سےطے اور مقرر کی جاچکی ہے کی صبح ہونے یعنی اس کے فوت ہونے سے پہلے ہی وہ انتظار کھینچنے والے عاشق کو آغوش لحد میں سلادے…تاکہ بے وصل دیدار کی شرمندگی سے نہ دوچار ہونا پڑے..
عجیب مگر پر لطف شعر ہے
مثال١٤
گرم سفر رہے منزل کو پر نہ پہنچے
آوارگی نے ہم کو ریگِ تواں بنایا
آوارگی اور ریگ رواں کی وجہہ تشبہہ کا جواب نہیں.
مثال ١٥
شب تری مجلس میں واں دور قدح چلتا رہا
تا سحر یاں آنسوؤں سے سبحہ گردانی ہوئی
پیالوں کی گردش کو آنسؤں کی روانی سے تشبیہ…. کیا کہنے
مثال ١٦
مجھے اشکوں میں یوں لخت جگر بہتے نظر آئے
کہ جیسے وقت شب دریا میں عالم ہو چراغاں کا
اشکوں میں لخت جگر کا بہنا.. دریا میں چراغاں کا سماں کیا ہی خوبصورت تشبیہہ سازی ہے
مثال ١٧
جرسِ ناقۂ لیلی کی طرح دشت بدشت
ساتھ پھرتا ہے لئے یہ دلِ نالاں ہم کو
لیلی کی اونٹنی کے گھنگھرو کو دلِ نالاں سے زبردست تشبیہ دی ہے..
مثال ١۸
بھلا میں ہاتھ دھو بیٹھوں نہ کیونکر جان سے اپنی
کہ چلنے میں تمہارے موج دریا کی روانی ہے
دریا کی روانی کے ساتھ متاع جان کا بہہ جانا .. محبوب کی چال کی مناسبت سےدریا کی روانی لایا ہے .. خوبصورت تشبیہ ہے
مثال ١۹
مے پی کے اس چمن سے کون اٹھ گیا ہے جو ہے
انگڑائیوں کا عالم پھولوں کی ڈالیوں ہر
مےکے خمار کے زیر اثر کیفیت کو پھولوں کی ڈالیوں کی انگڑائیاں سے خوبصورت منظر کشی کے لئے جھومنے کی کیفیت بھی الفاظ تشبیہ کے ساتھ پینٹ کردیا ہے جو کہ شاعرانہ معجزہ ہے.
مثال ۲۰
رعایت لفظی اور نشتریت
کہا تو نے ، نہ دیکھا کر مجھے کیا عذر ہے مجھ کو
بجا لاؤں گا تیرا حکم تا مقدور آنکھوں سے
نہ دیکھنے کی تاکید کے بعد آنکھوں سے اسکی تعمیل کا یقین دلانا رعایت لفظی کی عمدہ مثال ہے
مثال ۲١
ہم جانتے ہیں کوچۂ جاناں کا مرتبہ
مسجود خلق ہے یہ عجب سر زمین ہے
کوچہ جاناں کا مسجود خلق ہونے کے لحاظ سے عجب سرزمین کہنا رعایت لفظی ہے
مثالو۲۲
کی ذرا آبِ دمِ شمشیر قاتل نے کمی
ورنہ پیمانہ ہماری عمر کا لبریز تھا
آب دم قاتل کی کمی کے لحاظ سے پیمانۂ عمر لبریز ہونے کے ساتھ لطیف تر رعایت لفظی ہے یعنی اگر اب دم قاتل میں کچھ کمی ہے تو ادھر ہمارا شوق شہادت اسکی کمی کو پورا کر رہا ہے کیا ہی عمدہ نشتریت ہے
مثال ۲٣
سر سے اک شعلہ لگا ایسا کہ ساری جل گئی
کچھ نہ پوچھو ہم سے شمعِ انجمن کی سر گزشت
سر سے شعلہ لگ جانے سے شمع کے جلنے کے عمل کو سرگزشت کہنا رعایت لفظی یے
مثال ۲٤
شیخ کعبہ سے اٹھ نکل باہر
گھر میں بیٹھے خدا نہیں ملتا
جد و جہد اور سیر و سیاحت کی ترغیب
مثال ۲٥
جادۂ شمشیر تھا یا کوئے یار
پاؤں کے رکھتے ہی یہاں سر گیا
محبوب کی گلی کو جادۂ شمشیر کہا ہے.. دراصل عاشق کی نیستی کا مزکور ہے
مثال ۲٦
دل کو یوں ربط ہے اس ابروئے خمدار کے ساتھ
عشق جس طرح سپاہی کو ہو تلوار کے ساتھ
اس شعر کا یہ متن امیر مینائی سے منقول ہے اصل دیوان میں تھوڑا مختلف ہے
آخر میں مصحفی کا ایک قول:
’’میں شعر و شاعری اور امیروں سے ملاقات پر تبرّا کرتا ہوں اور ان سے بھاگتا ہوں۔’‘ (ریاض الفصحا)