ہم سب جانتے اور مانتے ہیں کہ مساجد اللہ کا گھر ہوتی ہیں، کسی انسان کی ملکیت نہیں۔ دل باغ باغ ہو جاتا ہے جب بھی کبھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کسی مقامی مسجد میں وہاں کے کسی کمی کمین، نچلے طبقے کے لوگ، دیہاڑی دار، معمولی حیثیت کے افراد اسی علاقے کے غیر معمولی حیثیت، نمبردار اور بڑے طبقے کے لوگوں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ راقم کو اس سال اعتکاف بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔ چند ضروری سامان بغل میں لیا اور گھر سے دور ایک جامع مسجد میں خیمہ زن ہو گیا۔ افطاری کے بعد کوشش یہی تھی کہ جلد از جلد عبادت میں مشغول ہوا جائے۔
اللہ کرے کہ کسی کا بھی پڑوس ہٹ دھرم ، ضدی، جاہل ، کمینہ، رزیل، شاطر، حاسد،، فضول، تنگ نظر، فرعون اور یزید جیسا نہ ہو۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میری بالکل دائیں طرف ایک نوجوان جو خیمہ زن ہے، اس نے اپنے خیمے کی چادر کی دیوار گرا رکھی ہے بلکہ اس نے کسی کو بھی چادر لٹکانے کی اجازت نہیں دی۔ سات، آٹھ افراد ایک ہی خیمے کے اندر اعتکاف بیٹھے ہوئے ہیں۔ موصوف کا گھر مسجد کی دیوار کے بالکل ساتھ جڑا ہوا تھا اور گھر کے سبھی بچے (بھانجے، بھانجیاں، بھتیجے، بھتیجیاں) یہاں تک کہ اس کے گھر آئے ہوئے مہمان بھی اس کے خیمے میں ہر وقت موجود ہیں۔ موصوف مسجد کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے، ہر لمحہ ایک شور و غل کی محفل جمائے ہوئے نظر آئے۔ نہ خود عبادت کرتے اور نہ ہی میرے جیسے مظلوم اور مسکین کو عبادت کی پٹڑی پر چڑھنے دیا۔ اب اس طرح کے ماحول میں نہ تو Privacy قائم رہ سکتی تھی اور نہ ہی خالص طریقے سے عبادت کی جا سکتی تھی۔ رات ڈیڑھ بجے نماز تسبیح ادا کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ سامان مسجد کے سیکنڈ فلور پر شفٹ کیا جائے اور سحری وہیں پر کی جائے۔ اللہ اللہ کر کے سامان شفٹ کیا۔
سیکنڈ فلور پر میرے ایک بہت ہی عزیز استادِ محترم کے علاوہ قصبے کے دو افراد اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے۔ آداب و تسلیمات کے بعد سارا معاملہ زیر بحث آیا تو پتا چلا کہ موصوف کے آباؤ اجداد نے مسجد ہذا کے لئے آدھی جگہ بھلے وقتوں میں دے رکھی ہے اور اب سارے انتظامی امور کے مالک وہی ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر مسجد کی لائبریری سے کسی کو کوئی دینی کتاب بھی اشو کروانے کی جازت نہ ہے۔ مسجد کا غسل خانہ بھی ان کی مرضی کے بغیر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ مسجد کا امام اور خطیب بھی ان کے تسلط سے آزاد نہیں۔ میرا سر چکرا گیا جب یہ سننے کو ملا کہ موصوف مسجد ہذا کے امام کے شاگرد رہ چکے ہیں اور امام مسجد کو بھی موصوف سے گالیاں اور دھمکیاں سننے کو ملتی ہیں۔
کیا ہم اتنے شر پسند، شدت پسند اور گدھے ہیں کہ سکول، کالج، یونی ورسٹیوں اور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ مساجد بھی ہماری اجارہ داری کے نرغے میں آ رہی ہیں۔ بھئی مساجد تمہارے باپ کی جاگیر نہیں ہیں۔ تمہارے دادا کی وراثت نہیں ہیں، بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں اور خدائے عزوجل کا گھر سب کے لئے ہمہ وقت کھلا ہوتا ہے، وہاں داخل ہونے کے بعد سب ایک جیسے ہو جاتے ہیں، کسی میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا، کوئی تمیز نہیں بچتی، خدا کی اجارہ داری کے سامنے ساری اجارہ داریاں ختم ہو جاتی ہیں۔
خدا خدا کر کے دن پورے کیئے اور دل ہی دل میں کڑھتا رہا کہ آج کے دور میں کیا کیا دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کیا ہم عبادت بھی آزادانہ طور پر نہیں کر سکتے۔ کیا ہمیں عبادتو ں کے اندر بھی ظلم، انتہا پسندی اور اجارہ داریوں کو برداشت کرنا پڑے گا؟کیا ہم مسلمان ہیں؟ ایسا ہوتا ہے مسلمان؟ کیا موصوف جس مقصد کو لے کر مسجد میں خیمہ زن ہوئے تھے، ان کا وہ مقصد پورا ہو گیا؟ کیا اس کے گناہ جھڑ گئے؟ کیا اس نے اللہ کی رحمت جذب کر لی؟ میں نہیں مانتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ مزید گناہوں کی ایک بھاری گٹھڑی اپنے کندھوں پر لاد کر ، گلے میں پھولوں کے ہار پہن کر گھر کو رخصت ہوئے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت عطاء کرے اور وہ اس بات کو سمجھ جائیں کہ بھئی مساجد تمہارے باپ دادا کی جاگیر نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبادت گاہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور عبادت گاہوں میں دنیوی محافل نہیں سجا کرتیں۔۔۔۔۔۔۔ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر حکم صادر نہیں کیئے جاتے۔۔۔۔۔۔ منافقت، شدت پسندی، شر پسندی، شیطانی سوچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا ور اجارہ داری کی مساجد میں کوئی جگہ نہیں۔ آپ کی گردن میں جو سریا ہے اس کو جلد از جلد کسی اچھے ڈاکٹر سے نکلوا لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی آپ کے لئے اور سب کے لئے بہتر ہے۔ تمہارے جیسے بڑے فرعون غرق ہوتے دیکھے ہیں اور بہت سارے یزیدوں کو سینہ پیٹتے دیکھا ہے۔ بڑے متکبروں کا سر کٹتے اور جھکتے دیکھا ہے۔ تم کس کھیت کی مولی ہو۔