مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی جولائی کا حبس بھی امنڈ آتا ہے اور وومنز ڈے کے حوالے سے پھبتیاں کسی جانے لگتی ہیں۔ اس تھڑے بازی میں نہ صرف مرد بلکہ وہ خواتین بھی شامل ہوتی ہیں جن کے ہاتھوں میں پکڑے پلے کارڈز پر " مجھے گھر کی ملکہ اور تجھے گلی کی کتیا بننا پسند ہے" اور "میرا محرم، میرا محافظ" وغیرہ وغیرہ۔
ایسی ذہنیت سے کیا بات کرنی جو ساری دنیا کو اپنی عینک سے دیکھنے کی عادی ہو اور جنہیں یہ لگتا ہے کہ ان کا دنیا میں آنے کا مقصد محض روٹی کپڑے اور پناہ گاہ کے بدلے مردوں کے ہر استحصال کو برداشت کرنا ہے۔ جب تک عورت معاشی طور پر خودمختار نہیں ہو گی، وہ اسی طرح خود کو کموڈٹی سمجھتی رہے گی۔ یہ ایک لمبی بحث ہے لہذا اسے ایک ہی پوسٹ میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ یہ موضوع تبادلہ خیال کا متقاضی ہے۔ فی الوقت میں اس ایک سلوگن کی بات کرتی ہوں جسے اتنا متنازعہ بنا کر جہالت کے گٹر اچھالے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ! یہ سلوگن ہے " میراجسم، میری مرضی" اس نعرے کو اب تک اتنے معنی پہنائے جا چکے ہیں کہ اصل مطلب اس ٹھٹے بازی میں کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے۔
آخر کیوں؟ کیوں عورتوں کی "مرضی" سے سب کو مرگی پڑنے لگتی ہے؟ ایک انسان کے جسم پر اس ہی کی مرضی ہونی چاہئیے۔ کیا مردوں کے جسم پر کسی اور کی مرضی چلتی ہے؟ ایک حضرت کف اڑاتے فرما رہے تھے کہ عورتیں جب میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگاتی ہیں تو دراصل وہ جسم فروشی اور اسقاط حمل کی "اجازت" مانگ رہی ہوتی ہیں۔ اب اس سوچ کا کیا کیجیے؟ جسے لگتا ہے کہ عورتوں کو بازار میں جا بیٹھنے کے لئے "اجازت" درکار ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اپنے گناہ کے بدلے پیش کر کے باعزت بری ہونے کا حق نہیں رکھتا۔ وہ "ونی" میں بہن یا بیٹی دینے کا مجاز نہیں۔ وہ عورت کو مار پیٹ کرنے کا اور جسمانی آزار پہنچانے کا حق نہیں رکھتا ۔ میرا جسم میری مرضی کا مطلب یہ ہے کہ مرد بیٹے کی چاہ میں بیوی کو بار بار زچگی سے گزرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اگر ایک عورت مزید بچے نہ پیدا کرنا چاہے تو آپریشن کے لئے اسے شوہر کی "اجازت" درکار ہوتی ہے۔ وہ اپنے اعضا عطیہ کرنے کے لئے بھی شوہر کی اجازت کی محتاج ہے۔ کیوں؟ اسے کب کیا کس کے لئے کرنا ہے، یہ فیصلہ آدمی کیسے کر سکتے ہیں؟
محرم رشتوں کی درندگی کا شکار ہونے والی بچیوں کے معاملے میں چپ کیوں سادھ لی جاتی ہے؟ ماموں، چچا اور خالو کو تو چھوڑہے، سگے باپ اور بھائی تک اس انسانیت سوز جرم کے مرتکب ہوئے ہیں مگر اس پر بات کریں تو مشرقی معاشرے کی عظمت کے گن گانے والوں کی چیخیں ناقابل برداشت ہو جاتی ہیں کہ مت دکھاو یہ گند!! ہمارے معاشرے کی اقدار پہ چوٹ پڑتی ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ وہ مجرم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے جسم پر "ہماری مرضی" چلے گی۔ ورکنگ پلیس پر کوئی عورت جب ہراسمنٹ کا نشانہ بنتی ہے، سڑک پر چلتے ہوئے اسے چھوا جاتا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ میں اسے "دستیاب" مال سمجھا جاتا ہے، کام کی پوری یا بروقت اجرت نہیں ملتی تو دراصل یہ سب اسی پیغام کی ترسیل ہوتی ہے کہ "تمہارا جسم ہماری مرضی"۔ باپ کی مرضی ہے، کسی کے پلے بھی باندھ دے، شوہر کی مرضی ہے جب چاہے دھنک کر رکھ دے اور جب چاہے اسے اپنی نسل سونپ دے، بھائی کی مرضی ہے بہن کو اپنے کرتوت کے تاوان کے طور پر پیش کر دے، بیٹے کی مرضی ہے ، ماں سے سب ملکیتی اختیارات چھین لے، باس کی مرضی ہے کہ ماتحت کو جب چاہے بلا کر اپنی گرسنہ طبیعت خوش کرے، سڑک پر چلتے لفنگے کی مرضی ہے کہ عورت کو باہر نکلنے کی پاداش میں "سبق" سکھائے، کسی نفسیاتی جنونی کی مرضی ہے کہ رشتہ ٹھکرائے جانے کے بعد اس انکار کی جرات کا بدلہ لینے کے لئے عورت کے منہ پر تیزاب پھینک دے یا چھریوں کے وار سے اس کے چہرے کا نقشہ بگاڑ کر رکھ دے!
نہیں!! یہ مرضیاں نہیں چلیں گی! کیونکہ جس کا جسم ، اس کی ہی مرضی! اور اس سے جسے مرگی آتی ہے، آتی رہے!