مریم نواز، عوام کی عدالت میں
وزیراعظم نوازشریف کی بیٹی مریم نواز اپنے خاندان کے خلاف ناجائز دولت کی بیرون ملک منتقلی کے مقدمے کے سامنے پیش ہوئیں۔ اُن کے مخالفین اور حامی دونوں اس مقدمے کے حوالے سے دلائل اور جذبات رکھتے ہیں۔ مریم نواز شریف 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران سیاست میں داخل ہوئیں۔ اُن دنوں وہ ماڈل ٹائون میں مسلم لیگ (ن) کے قائم سیکریٹریٹ میں بیٹھی تھیں۔ اس سیاسی پارٹی کے دفتر کی بڑی شہرت ہوئی کہ وہاں لاتعداد ٹیلی ویژن اور اُن پر لاتعداد چینلز کی خبریں اور تجزیے مسلسل نشر ہوتے دیکھے اور سنے جاتے تھے۔ اور اُن کو مانیٹر کرکے پارٹی کی اعلیٰ قیادت سیاسی اور میڈیا حکمت عملی طے کرتی تھی۔ بڑی تعداد میں تنخواہ پر رکھے گئے سابق صحافی اور دیگر لوگ یہاں ہروقت موجود رہتے۔ ایک شعبہ سوشل میڈیا کا بھی تھا۔ یہاں پارٹی کی تقریباً تمام اعلیٰ قیادت موجود ہوتی تھی۔ راقم کو بھی چند بار یہاں جانے کا موقع ملا۔ واقعی یہ ایک جدید دفتر تھا۔ یہ دفتر میاں نوازشریف کے گھر کو پارٹی سیکریٹریٹ میں تبدیل کرکے بنایا گیا تھا۔ یہاں اس حوالے سے دلچسپ معلومات ملیں کہ سب لیڈر اپنا اپنا کھانا لاتے ہیں۔ راقم کو متعدد ممالک کی سیاسی پارٹیوں کے دفاتر دیکھنے کے مواقع ملے ہیں، وہاں سب سے اہم اور نوٹ کرنے والی بات وہاں کا کچن ہوتا ہے جو ایک کینٹین پر مبنی ہوتا ہے۔ وہیں سے لیڈر اور کارکن دونوں اپنا کھانا سستے داموں خرید کر کھاتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے اپنی جماعت کے اندر نئی اور عوامی روایات کو قائم کیا۔ اس پارٹی کے اندر میں نے لیڈرا ور کارکن کو پارٹی دفاتر کے اندر ایک ہی کھانا کھاتے اور ایک ہی میز پر بیٹھے پایا۔ اب اس پارٹی کا کلچر بھی کافی حد تک بدل چکا ہے۔ میرے لیے یہ خبر حیران کن تھی کہ وہ قیادت جو کئی سال پرویز مشرف کی حکومت میں جلاوطن رہی اور یہاں واپس آنے کے لیے بے چین رہی اور آخری برسوں میں میاں نوازشریف اور شہباز شریف مختلف ذرائع سے یہ پیغامات دیتے رہے کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں، اب ہم ایسا نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے روزنامہ جنگ میں خواجہ آصف کے متعدد خطوط بھی مرحوم ارشاد احمد حقانی کے کالم میں چھپے جن پر راقم نے انہی کے کالموں میں شریف خاندان کی طرزِسیاست پر سوالات اٹھائے، جن کو بقول ارشاد احمد حقانی مرحوم، شریف برادران اور خواجہ آصف سمیت مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنمائوں نے توجہ سے پڑھ کر ان غلطیوں کے ازالے کا اظہار کیا جو اُن سے ماضی کے ادوار میں سرزد ہوئیں۔ 2007ء میں پاکستان آمد کے بعد میاں نوازشریف اور اُن کے بھائی جناب شہباز شریف یہی تاثر دیتے رہے کہ ہم بدل چکے ہیں۔2013ء کے انتخابات میں راقم نے پی ٹی وی کے پروگرام ’’الیکشن آر‘‘ کے لیے جناب میاں نواز شریف کا خصوصی انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو سے قبل میاں نوازشریف سے پارٹی اور دیگر موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کا موقع ملا۔ اس دوران نجم سیٹھی، جناب عرفان صدیقی اور جناب پرویز رشید بھی وہاں موجود تھے۔ راقم نے باقاعدہ انٹرویو سے قبل پھر انہی سوالات کو اٹھایا کہ کہیں آپ دوبارہ وہی طرزِحکمرانی تو نہیں اپنائیں گے اور ایسے ہی سوالات باقاعدہ انٹرویو میں بھی کیے۔ ان کے جوابات بھی میاں نوازشریف نے مثبت دئیے کہ ہم بدل چکے ہیں۔
مریم نوازشریف کا سیاست میں آنا مجھ جیسے شخص کے لیے کوئی خوش آئند خبر نہیں تھی۔ موروثی سیاست میں ایک اور اضافہ۔ لیکن انہی دنوں میں نے اسی صفحے پر ایک کالم ’’مریم نوازشریف‘‘ کے عنوان سے لکھا جو اُن کے لاہور کے ایک سکول میں اُن کے بچوں کے داخلے کے حوالے سے ایک واقعہ پر مبنی تھا، جو مجھے اس غیرملکی سکول کی لبنانی سربراہ دینا نے سنایا تھااور اس واقعے کی کہانی مریم نوازشریف کے حق میں جاتی تھی۔ اس کا تعلق اُن کی سیاست سے ہرگز نہیں تھا مگر یہ توقع لگائی تھی کہ وہ سیاست کو خاندانی اثرورسوخ کی بدولت پروان چڑھانے کی بجائے عام آدمی کی ثقافت کو اپنائیں گی۔
مسلم لیگ (ن) کے حکومت میں آنے کے بعد مریم نواز وفاقی حکومت میں دوسری اہم اور طاقتور شخصیت ہیں اور اسی طرح پنجاب میں وزیراعلیٰ کے صاحب زادے حمزہ شہباز شریف۔ شریف خاندان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی علامت ہیں، لیکن افسوس اُن کی موجودہ حکومت میں موروثی سیاست مزید مضبوط ہوئی۔ پانامہ کیس میں ملوث ہونے کے بعد اس بات نے تقویت پکڑی کہ وہ موروثیت کو مضبوط کررہے ہیں۔ مریم نواز کو عدالت نے پیشی پر بلایا، اس پر کہا گیا کہ بہنوں بیٹیوں کو عدالتوں میں نہ گھسیٹو! لیکن وہ بیٹی اور بہن ہی نہیں، وہ بیس کروڑ پر حکمرانی کیے گئے ملک کی دوسری اہم ا ور طاقتور شخصیت ہیں۔ وہ گھر میں بیٹھی خاتون نہیں بلکہ پاکستان کے سیاہ وسفید کی بڑی حصہ دار ہیں۔ اگر اُن کو عدالت میں بلایا جاتا ہے تو اُسے مردانہ عدالت کہنا عدالت کی توہین ہے۔ عدالتیں نہ مردانہ ہوتی ہیں نہ ہی زنانہ۔ عدالت کی کوئی صنف نہیں ہوتی۔ مریم نواز اپنے متضاد بیانات اور خاندان پر لگے الزامات کے جواب دینے کی پابند ہیں۔ اور جس طرح اور جس انداز میں وہ عدالت میں پیش ہوئیں، اس نے یہ ثابت کیا کہ ہمارے ہاں جاگیردارانہ ثقافت نہیں بلکہ شہنشاہی ثقافت پروان چڑھ رہی ہے۔ اسلام آباد پولیس کی کارندہ نے جس طرح ان کی قدم بوسی کی، اس نے ان کی شہنشاہی ثقافت کی تصدیق کی۔ اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا، جب وہ جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد میڈیا کے نمائندوں کو جواب دینے میں ناکام رہیںاور اپنی اڑھائی انگلیاں اٹھا کر ’’ایک منٹ، ایک منٹ‘‘ کرتی رہیں۔ پھر سوالات اٹھانے کا موقع دینے اور جواب نہ دینے کا موقع بنا کر چلی گئیں۔ وہ اس وقت جمہوری حکمرانی کی ثقافت کی نمائندہ نہیں بلکہ شہنشاہی ثقافت کی شہزادی کے طور پر میڈیا کے سامنے کھڑی تھیں اور اردگرد خوشامدیوں کا اکٹھ جمع تھا۔ درحقیقت اس موقع پر انہوں نے اپنی ناکام قیادت کا مظاہرہ کیا۔ ذرا تصور میں لائیں، اگر اس موقع پر غلام حیدر وائیں مرحوم ہوتے یا ملک معراج خالد مرحوم تو کیسے میڈیا کے سامنے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے۔ اور یہ بھی تصور کریں کہ اگر مریم نواز کا وہ خاندانی پس منظر نہ ہو جو اُن کے پاس ہے اور نہ ہی مال ودولت اور اُن کو سیاست میں مقام بنانا پڑے توپھر اُن کا حال ایسی سینکڑوں درمیانے درجے کی خواتین کی طرح ہوتا جو سیاست کے میدان میں سال ہا سال کارہائے نمایاں سرانجام دینے کے بعد بھی کسی اعلیٰ مقام پر نہ پہنچ پاتیں، جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ جیسے پاکستان پیپلزپارٹی کی شاہدہ جبیں جنہوں نے جیلیں اور قلعہ کاٹا اور جن کا ایک بھائی سزائے موت کا حق دار ٹھہرایا گیا مگر وہ آج بھی سیاست کے میدان میں کہیں نظر نہیں آرہیں۔ حالاںکہ شاہدہ جبیں جیسی لاتعداد خواتین ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کے سیاسی میدان میں ایک مردانہ معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ ایسی خواتین جیلوں میں نہ صرف بند کی گئیں بلکہ لاہور قلعے کے عقوبت خانے میں اُن کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مریم نواز، آپ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئی ہیں اور آپ بیس کروڑ غریبوں پر حکمرانی کررہی ہیں۔ آپ کا طرزِ سیاست شہنشاہی ہے جمہوری نہیں۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کو جمہوریت نہیں کہتے۔ جمہوریت ایک طرزِزندگی ہے جو آپ کے ہاں شاید ہی ہو۔ آپ عدالت کو بھی جواب دہ ہیں، عوام کو بھی اور میڈیا کو بھی۔ اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔ آپ نے میڈیا کو جواب دینا گوارا نہیں کیا۔ بڑے لیڈر بحرانوں میں جنم لیتے ہیں اور بڑے لوگ (اوپری طبقے کے لوگ) بحرانوں میں غرق ہو جاتے ہیں۔ آپ صرف وزیراعظم کی صاحب زادی اور پاکستان کے امیرترین خاندان سے تعلق رکھنے والی ’’شہزادی‘‘ہی نہیں بلکہ پاکستان کے سیاہ وسفید کی مالکہ بھی ہیں۔ آپ پر واجب ہے کہ آپ خلق خدا کو جواب دیں۔