::: "مارکسی ادبی تنقید کی آبلہ فریبی " :::
ادب کی تنقید ایک ایسا میدان ہے جو بہت سے اپنے قاری کو ادب سے دور اور کبھی قریب بھی کردیتی ہے۔ عموما ادب نقاد تخلق کاروں کی باتوں سے کڑتا بھی ہے اور اسے مسترد بھی کردیتا ہے۔ اور کچھ مثبت زہن کے ناقدیں افہام و تفھیم کے زریعے ادب میں توسیعی فکر کا سبب بھی بنتا ہے. بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کی نفی دانش کے تحت ناقد اپنی چڑچڑاہٹ پر قابو نہیں پا سکتا اور اچھی خاصی بات کرتے کرتے پٹڑی سے اتر جاتا ہے۔ اس میدان میں اردو میں کلیم الدیں احمد، انیس ناگی، وارث علوی، سلیم احمد ، افتخار جالب اور باقر مہدی وغیرہ پیش پیش ہیں۔ اندھی عنیت پسندی، کھوکھلی فکریات، فاسد انّا،عدم مطالعہ، آمرانہ ذہن،تنقیقدی نرگسیت، نصابی تنقید کا پھسپسا جلال { جیسے یہ نقاد کمال سمجھتے ہیں} انھیں ایک ایسے زندان میں لاپھینکتا ہے جہاں یہ ناقدیں کا سفر اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی ذات پر ختم ہوجاتا ہے۔ جس کا آفاق محدود اور فکری اور معاشرتی منافقتوں سے لبریز ہوتا ہے۔ اور اپنے جھوٹ اور دیمک زدہ فکریات کو اپنے قاری پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض دفعہ وہ زمانی اور مکانی طور پر اپنی چونکا دینے والی باتوں سے اپنے قادی کو متاثر کرتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ باتیں ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔ وہ اپنی تنقیدی فطانت کا مذاق اڑواتا ہے بلکہ اپنی شخصیت کا بھی " فالودہ" کردیتا ہے۔ اوراس کا ردعمل یوں ہوتا ہے کہ پھر کچے زہن کے ناقدیں اس کے بخیئے بھی اتارتے ہیں اور جو ان ناقدیں نے تھوڑی بہت مفید اور اچھی باتیں بھی کی ہوتی ہیں مگران کی غلط تشریح و تفھیم کی جاتی ہے۔ اور ادب کی محبت میں اس گندی " لانڈری" کو مزید گندہ کیا جاتا ہے۔ خاص کر ادب اور انتقادات کو الجھا دیا جاتا ہے۔
جدید ادب کے خود ساختہ نقادوں نے اس میدان پر جابرانہ قبصہ کررکھا ہے۔ کوئی اسی سال سے یساریت پسند تنقیقد نے " لبرل ازم" کی آڑ میں جو گل کھلائے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اور ادبی تنقید کو نظری مضوعات کے طور پر دیکھتے اور اس کی تشھیر کرتے نظر آتے ہیں۔ اور مارکسی تنقید ابھی تک یہ بات نہیں سمجھا سکی کی وہ کتنی " ترقی پسند" ہے۔ اور نہ ہی آئیڈیالوجیکل جبر سے آزاد ہوسکی ہے۔ اور نہ یہ ادبی تنقید کو فکری آزادی کا کوئی خاکہ ترتیب نہیں دے سکی ہے۔ اس اگڑ بگڑ نے اردو کی ادبی تنقید کو جمود کا شکار کررکھا ہے۔ ادھرروایتی اور قدامت پسند ادبی تنقید نے یساریت پسند کی مادہ پرست تنقید کو مسترد کردیا۔ جہاں فرد کی جمالیات کو وجود نہیں اور کتھارسیس{ تطہیر/ تزکیہ} نیں ہوپاتا۔ اس بات کو مارکسی نقاد لوکاش نے محسوس کیا تھا۔ جن کے نظیات سے عموما سکہ بند مارکسی جان بوجھ کر نظریں چراتے ہیں۔ مارکسی تنقید ثقافتی حصار میں انسان کی معاشرتی سرگرمیوں اور حرکیات کو معیشت سےنتھی کردیتی ہے۔ جس کے پس منظر میں معاشرتی بیزاری بہت ہوتی ہے۔ جو ان کی جھنجھلاہٹ کا بحران ہوتا ہے اور انسان کے دوسرے معاشرتی اور بشری مطالبات سے نظریں چراتا ہے اور قدامتت پسند فکری ڈھانچے کو کھرچنا چاھتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔