مارکس کا سرمایہ داری نظام پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ نظام مختلف حیلوں اور طریقوں سے انسان سے، اور بطورِ خاص محنت کش طبقے سے اس کی انسانیت چھین لیتا ہے۔ اس بات کو بیان کرنے کے لئے مارکس نے ”بیگانگی“ یا (Alienation) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔
سید سبط حسن کے بقول، اس سے مراد تشخص ذات کا ضیاع ہے۔ یعنی حالاتِ زندگی سے پیدا ہونے والی وہ ذہنی کیفیت جس کی وجہ سے انسان دوسرے انسانوں سے اپنے معاشرتی ماحول کو، حتیٰ کہ خود اپنی قوّت، محنت، اور محنت کی پیداوار کو بیگانہ اور غیر سمجھنے لگتا ہے۔ (تعارف، مارکس کا تصورِ بیگانگی از صفدر میر)
جہاں تک اس سماجی اور نفسیاتی مظہر کی وجوہات اور محرکات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں سید سبط حسن لکھتے ہیں:
”شخصیت کی یہ توڑ پھوڑ اور بشریت کا یہ ضیاع معاشرے کے طبقات میں تقسیم ہونے کا نتیجہ ہے۔ جب تک طبقے وجود میں نہیں آئے تھے بلکہ قبیلوں کی نوعیت بڑے گھرانے کی تھی، معاشرہ ایک سالم وحدت تھا۔ فرد کی شخصیت معاشرے کی اجتماعی شخصیت کا اٹوٹ انگ تھی اور اس کا تخلیقی عمل معاشرے کے تخلیقی عمل کا ایک جز تھا، اس سے پوری طرح ہم آہنگ۔ موجود سرمایہ داری نظام میں طبقاتی تفریق کے باعث بیگانگی ذات کے عمل نے بڑی شدّت اختیار کر لی ہے اور معاشرہ میں بے یقینی، نا آسودگی، اور ذہنی انتشار وباء کی صورت میں پھیل رہا ہے“
مارکس کے نزدیک انسان کا نوعی وصف، جو اسے دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتا ہے، اس کا با اختیار اور شعوری تخلیقی عمل ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ذات کا اظہار اور اس کی تشکیل و تکمیل کرتا ہے۔ محنت اسی اظہارِ ذات اور تکمیلِ ذات کا ایک ذریعہ ہے۔ انسان کی محنت اس کا اپنے آپ کو، حیوانات سے الگ، بطورِ انسانی نوع کے تسلیم کرانے کا عمل ہے۔ سرمایہ داری نظام میں یہ تخلیقی انسانی عمل سرمایہ دار کے قبضے میں چلا جاتا ہے کیونکہ مزدور کو اس کی محنت کا پھل اسی وقت اور اسی قدر ملتا ہے جب اور جس قدر سرمایہ دار کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ محنت سے جڑے تمام آلات، کل، مشینیں، پراسیسز اور محنت کے نتیجے میں ہونے والی پیداوار تک سے محنت کار لاتعلق ہو جاتا ہے۔ اسی لاتعلقی کو کارل مارکس نے بیگانگی یا (Alienation) کا نام دیا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد بقول ڈاکٹر احمد حسین کمال کے :
”انسانی تاریخ پہلی مرتبہ بدترین اقتصادی اور معاشی غلامی کے دور میں داخل ہو رہی تھی جس میں محنت کار انسان، کسان اور مزدور، اپنی محنت کی قدر متعین کرنے سے محروم ہو رہا تھا اور سرمایہ دار اس کا مالک بن رہا تھا“۔
نفسیات کی دنیا میں بیگانگی یا ”زخود رفتگی“ کا یہ تصور نیا نہیں، البتہ مارکس کی تحقیق یہ ہے کہ اس مظہر کے پیچھے معاشی وجوہات اور پیداواری رشتوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔
مارکس بیگانگی کو سرمایہ داری نظام کی ایک لازمی خصوصیات بتاتا ہے اور اس حوالے سے سرمایہ داری نظام کو جاگیرداری سے بھی بدتر قرار دیتا ہے۔ مارکس نے اس بیگانگی کی چار شکلیں متعین کی ہیں۔
1۔ محنت کار کی اپنی محنت سے بیگانگی:
سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کار کی محنت اسی وقت پیداوار دیتی ہے جب سرمایہ دار کو اس کی ضرورت ہو اور وہ اس کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہو۔ اس طرح محنت، محنت کار کی اپنی ملکیت نہیں رہتی بلکہ اس کی ذات سے خارج ”شے“ بن جاتی ہے جس پر اب محنت کار کو کوئی اختیار باقی نہیں رہا۔
2۔ اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں سے بیگانگی:
مزدور اپنی محنت سے جو کچھ پیدا کرتا ہے وہ معمولی اجرت کے عوض سرمایہ دار کی ملکیت میں چلا جاتا ہے۔ سرمایہ دار ہی اس کی قیمت متعین کرتا ہے اور بسا اوقات محنت کار اپنی ہی پیدا کردہ شے کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اس طرح اس کی اپنی محنت کی پیداوار اس کی حریف بن کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔
3۔ دوسرے انسانوں سے بیگانگی:
انفرادیت، یا زیادہ صحیح معنوں میں نفسانفسی، سرمایہ دارانہ معاشروں کا ایک لازمی جز ہے۔ بقول مارکس کے، محنت کی پیداوار سے بیگانگی کا، حیاتیاتی عمل اور نوعی زندگی سے بیگانگی کا، براہِ راست نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان دوسرے انسانوں سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ انسان جب اپنا حریف ہوتا ہے تو وہ لامحالہ دوسرے انسانوں کا بھی حریف ہوتا ہے۔
4۔ بحیثیت انسان، نوعی زندگی سے بیگانگی:
انسان اپنے آزادانہ اور با اختیار شعوری تخلیقی عمل کے ذریعے ہی اپنے آپ کو دوسرے حیوانوں سے الگ نوع کے طور پر شناخت کرتا ہے مگر محنت، محنت کی پیداوار، اور دوسرے انسانوں سے بیگانگی کے نتیجے میں انسان محض زندہ رہنے کے لئے محنت کرتا ہے۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد پیٹ بھرنا اور بچے پیدا کرنا رہ جاتا ہے۔ اس طرح، ”جو حیوانی ہے، وہ انسانی بن جاتا ہے اور جو انسانی ہے وہ حیوانی“۔
یہی بیگانگی ذاتی طور پر لایعنیت، مردم بیزاری، اور سماج سے لاتعلقی سے ہوتی ہوئی سماج دشمنی اور دیوانگی کی حد تک بھی جا سکتی ہے۔
بیگانگی کی یہ تمام شکلیں کسی نہ کسی طرح ہمارے شعراء کے کلام میں بھی در آئی ہیں اور مختلف شعراء نے اپنے اپنے طریقے سے ان کو بیان کیا ہے، مثلاً بہادر شاہ ظفر کو دیکھیے :
دن اور ہے، رات اور، زمیں اور، زماں اور
رہتے ہیں زخود رفتہ جہاں، ہے وہ جہاں اور
غالب، لایعنیت کے موضوع پر:
بے صرفہ ہی گزرتی ہے، ہو گرچہ عمرِ خضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے
غالب ہی نے اپنے معاشی حالاتِ کے حوالے سے، جو اس وقت کے سیاسی اور سماجی حالات کا نتیجہ تھے، سالک کے نام ایک خط میں لکھا ہے :
”یہاں خدا سے بھی توقع باقی نہیں، مخلوق کا کیا ذکر۔ کچھ بن نہیں آتی۔ آپ اپنا تماشائی بن گیا ہوں۔ رنج و ذلّت سے خوش ہوتا ہوں۔ یعنی میں نے اپنے آپ کو اپنا غیر تصور کیا ہے۔ جو دکھ مجھے پہنچتا ہے، کہتا ہوں لو غالب کے ایک جوتی اور لگی“۔
بیگانگی کی اس سے بہتر تصویر اتنے کم لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
فیض صاحب نے بھی لکھا ہے :
موت اپنی نہ عمل اپنا نہ جینا اپنا
کھو گیا شورشِ گیتی میں قرینہ اپنا
ساحر لدھیانوی کی نظم بھی اسی کیفیت کو بیان کرتی ہے :
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل مری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے
پل دو پل مری جوانی ہے۔
جون ایلیاء کی ساری شاعری آج کے نوجوان نسل کی اسی مایوسی، بے مقصدیت، لایعنیت، اور زخود رفتگی کی مثال ہے:
مجھ سے ملنے کو آپ آئے ہیں
بیٹھیے، میں بلا کے لاتا ہوں
اور آخر میں مارکس کے تصورِ بیگانگی کو بیان کرتی ہوئی منیر نیازی صاحب کی ایک غزل:
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خاموشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خاک ہے، جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لئے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
ان سب کے علاوہ مارکس کے تصورِ بیگانگی کو سمجھنے کے لیے چارلی چیپلن کی فلم ”ماڈرن ٹائمز“ کا صرف چند سیکنڈز کا اوپننگ سین دیکھ لینا ہی کافی ہے۔ ویسے پوری فلم سرمایہ داری پر بہترین تنقید اور مارکس کے فلسفہ بیگانگی کی منظر نگاری ہے۔
مارکس بیگانگی کی ان تمام شکلوں کو ختم کرنے کا حل معاشرتی انقلاب کے ذریعے ایک ایسے نظام کے قیام کو قرار دیتا ہے جس میں کوئی شخص اپنی محنت کی پیداوار اور اس کی قدر متعین کرنے کے عمل سے محروم نہ ہو۔ اس طرح محنت کار اپنی ذات کا اظہار اور تکمیل کرتے ہوئے نہ صرف خود آزاد ہوگا بلکہ معاشرے کے دوسرے طبقات کو بھی آزاد کرائے گا۔