(Last Updated On: )
’’آجکل تو ہر شخص دوسرے سے بیگانہ ہے‘‘، یہ جملہ ہمیں روز مرہ کی بنیادوں پر سننے کو ملتا ہے۔ جدید عہد کی شاعری اور ادب میں بھی ہمیں اس بیگانگی کا تذکرہ جا بجا نظر آتا ہے۔ اس مظہر کی عملی جھلک ہم زندگی کے ہر شعبے اور سماج کے ہر طبقے میں دیکھ سکتے ہیں۔ انسان کی انسان سے، فرد کی سماج سے، سماج کی فرد سے اور سب سے بڑھ کر انسان کی خود اپنی ذات سے بیگانگی۔ اخلاقی واعظ، مذہبی ناصحین اور لبرل دانشور اس بیگانگی کی وجہ انسان کی ’’فطری‘‘خود غرضی کو گردانتے ہیں۔ اس سے زیادہ بیہودہ اور غیر سائنسی دلیل اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ کرہ ارض پر بنی نوع انسان کا ارتقائی سفرلگ بھگ تیس لاکھ سال پر محیط ہے اور اس میں آخری چند ہزار سال کو چھوڑ کرباقی کے تمام عرصے کا ہر روز انسان نے بقائے حیات کی جاں سوز جدوجہد میں گزارہ ہے۔ فطرت کی اندھی قوتیں تھیں جنہیں انسان ابھی سمجھتا نہ تھا، وحشی درندے تھے جو انسان سے کہیں زیادہ جسیم اور طاقتور تھے، بھوک تھی، بیماری تھی، سخت موسم تھے، موت ہر پل گھات لگائے بیٹھی رہتی تھی۔ کیا ایسے میں بنی نوع انسان کی بقا ممکن ہو سکتی تھی اگر اس دور کا ہر انسان نام نہاد ’’فطری ‘‘ خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اپنی بقا کے متعلق سوچتا؟ اس کا جواب ہے نہیں۔ انسان کی بقا امداد باہمی اور فطرت کے جبر کا مل جل کر مقابلہ کرنے میں تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس عہد کا انسان ’’ذاتی بقا‘‘ کے تصور سے بھی ناآشنا تھا۔ قبیلے یا گروہ کی بقا میں ہی ہر فرد کی بقا تھی۔ ایک، سب کے لئے اور سب، ایک کے لئے کا اصول ہی اس عہد میں بقائے حیات کا ضامن ہو سکتا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ انسان فطرتاً خود غرض نہیں ہے اور نہ ہی انسان کی کوئی مستقل غیر متغیر فطرت ہے۔
تو پھر آج کا انسان اتنا بیگانہ کیوں ہے؟ اس بیگانگی کی مادی وجوہات کیا ہیں؟اس کی مختلف اشکال کیا ہیں؟کیا یہ بیگانگی ماقبل از سرمایہ داری طبقاتی سماجوں(غلام داری، جاگیر داری)میں بھی تھی یا یہ صرف سرمایہ داری کی پیداوار ہے؟یہ بیگانگی انسان کو کس طرح برباد کر رہی ہے؟اور اس سے چھٹکارا پانا کس طرح ممکن ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب مارکس نے اپنے نظریہ بیگانگی کے تحت دیا۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ مارکس انسان کے اس المیے کے متعلق کیا کہتا ہے۔
مارکس اپنے علمی و نظریاتی سفر کے ابتدائی مراحل سے ہی اس مسئلے سے خاصی دلچسپی رکھتا تھا۔ اس کی دلچسپی کا محرک صرف وہ محققانہ تجسس ہی نہ تھا جو کہ اسے بطور ایک مادیت پسند فلسفی ہر سماجی مظہر کے پیچھے پنہاں مادی وجوہات تک پہنچنے اور ان کا جدلیاتی تجزیہ کرنے پر اکسا رہا تھابلکہ یہ اس کا حساس اور ہمدرد دل تھاجو اسے اس موضوع کی طرف کھینچے لیجاتا تھا۔ اس امر کا اظہار اس کی تحریر میں بھی ہوتا ہے۔ جب ہم بیگانگی کے موضوع پر مارکس کو پڑھتے ہیں تو اس کے الفاظ صرف علمی حوالے سے ہی ہمیں متاثر نہیں کرتے بلکہ ہمارے احساس کو بھی جکڑ لیتے ہیں۔ اس موضوع پر مارکس کے خیالات کا پہلا تفصیلی اظہار ہمیں 1844ء کے معاشی اور فلسفیانہ مسودات میں نظر آتا ہے۔ بعد میں داس کیپیٹل کی جلد اول میں وہ کموڈٹی فیٹشزم (استصنامِ شے) پر بات کرتے ہوئے اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہمیں مارکس کی کئی تحریروں میں اس مظہر کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ ملتا ہے۔ اس موضوع کی وسعت اور پیچیدگی کے پیش نظر یہ تو ممکن نہیں ہو گا کہ ہم اس مختصر سے مضمون میں اس کا مکمل احاطہ کر سکیں مگر ہم قاری پر مارکس کے نظریہ بیگانگی کے بنیادی خدوخال واضح کر نے کی بھر پور کوشش کریں گے لیکن یاد رہے کہ مارکس پر لکھی جانے والی کوئی بھی تحریر اس کی اصل تصانیف کا متبادل نہیں ہو سکتی۔
مارکس کے نظریہ بیگانگی کا ماخذ
’’ہیگل کے مطابق جدلیات خیال کا ارتقا بالذات ہے۔ مطلق خیال کا وجود(نہیں معلوم کہاں)نہ صرف ازل سے ہے بلکہ وہ ساری موجود دنیا کی حقیقی اور جان دار روح بھی ہے۔ وہ اپنے آپ میں ان سب ابتدائی مدارج کے دوران ارتقا کرتا ہے جن کی تفصیلی بحث ’منطق‘میں کی گئی ہے اور جو سب خود اس میں شامل ہیں۔ پھر وہ فطرت میں تبدیل ہو کر خود کو ’بیگانہ‘ کر لیتا ہے اور وہاں خود شعوری کے بغیر، قدرتی لازمیت کے روپ میں ایک نئے ارتقا سے گزرتا ہے اور آخر کار انسان کی خود شعوری کے روپ میں واپس آتا ہے۔ یہ خود شعوری اپنا خام اظہار تاریخ میں کرتی ہے یہاں تک کہ مطلق خیال آخر کار ہیگلیائی فلسفے کی صورت میں اپنے آپ تک دوبارہ واپس آ جاتا ہے۔ اسی لئے فطرت اور تاریخ میں نمودار ہونے والا جدلیاتی ارتقا یعنی اس ترقی پسند حرکت کا ابتدا سے بلندی کو جانے والا علت ومعلول کا باہمی ربط جو تمام پر پیچ وخم حرکتوں اور عارضی پسپائیوں کے درمیان اپنا رستہ بنا لیتا ہے، یہ ارتقا ہیگل کے مطابق خیال کی اس خود حرکتی کی صرف نقل ہے جو ازل سے نہ جانے کہاں جا رہا ہے، لیکن بہر صورت وہ سوچنے والے انسان کے دماغ سے بالکل آزاد ہے۔ اس نظریاتی گمراہی کو ختم کرنا ضروری تھا۔ مادی نقطہ نظر کی طرف آ کر ہم نے انسانی تصورات میں حقیقی چیزوں کی شبیہیں دیکھیں، بجائے اس کے کہ ہم حقیقی چیزوں کو مطلق خیال کی اس یا اس منزل کی شبیہیں سمجھتے۔ ‘‘(اینگلز، لڈوگ فیور باخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ، 1886ء)
مارکس کے دیگر کئی اہم خیالات کی طرح اسکے نظریہ بیگانگی کی جڑیں بھی ہیگلیائی فلسفے میں پیوست ہیں لیکن ہیگل کا تصور بیگانگی اس کی جدلیات کی طرح اپنے سر کے بل کھڑا تھا۔ ہیگل کے مطابق یہ فطرت کی صورت میں خود کو بیگانہ کر لینے والے مطلق خیال کا واپس اپنے آپ کی طرف ارتقا ہے جس کا عکس ہمیں تما م تر انسانی سرگرمی میں نظر آتا ہے یعنی انسان کی بیگانگی درحقیقت اس ارتقا پذیر خیال کی اپنے آپ سے بیگانگی کا عکس ہے۔ مارکس نے ہیگل کے تصور بیگانگی کو ٹھوس مادی بنیادیں عطا کرتے ہوئے اسے پیروں کے بل سیدھا کھڑا کیااور بتایا کہ حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔ مارکس کے مطابق یہ انسانی سرگرمی ہے جس کا عکس ہمیں خیال کے ارتقا میں ملتا ہے اور اسی لئے درحقیقت یہ انسان کی بیگانگی ہے جس کا عکس ہمیں اس کے شعور میں ملتا ہے۔ لیکن کیا انسانی بیگانگی کی نوعیت ہمیشہ سے ایسی ہی تھی جیسی کہ وہ ہمیں جدید دور میں ملتی ہے؟ قبل از تہذیب عہد کے قدیم انسان کے لئے فطرت اس کی سمجھ بوجھ سے بالاتر ایک پراسرار بیگانی ہستی کی حیثیت رکھتی تھی لیکن انسان خود اپنی سرگرمی اور اس کی تخلیق کردہ چیزوں سے بیگانہ نہ تھا۔ عہد تہذیب کا انسان فطرت کو تو مسخر کرتا گیاہے لیکن اسی تاریخی ارتقا میں وہ خود اپنے آپ اور اپنی ہی تخلیقات(بشمول ریاست، مذہب، ثقافت ) سے بیگانہ بھی ہوتا گیا ہے اور بورژوا سماج میں ہمیں یہ دونوں عوامل اپنی بھر پور ترقی یافتہ شکل میں نظر آتے ہیں۔ جہاں انسان ایک طرف ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے وہیں اس کی خود اپنے آپ، اپنی محنت کی پیداوار اور دوسرے انسانوں سے بیگانگی بھی ایک آفاقی مظہر بن چکی ہے۔ لیکن آخر عہد تہذیب کے انسان اور بالخصوص بورژوا سماج کے انسان کی اس بیگانگی کی وجہ کیا ہے؟ مارکس بیگانگی کی اس نوعیت کے تجزئیے کا آغاز بورژوا سماج میں پائی جانے والی بیگانہ محنت کی سب سے ترقی یافتہ شکل سے کرتا ہے۔
بیگانہ محنت
مارکس کے نظریہ بیگانگی کی مادی بنیادیں مزدور کی اپنی محنت سے بیگانگی پر استوار ہیں۔ ذرائع پیداوار پر بورژوا طبقے کی نجی ملکیت میں ہونے کے باعث کسی بھی محنت کش کے پاس زندہ رہنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ منڈی میں(کسی سرمایہ دار کے ہاتھ) اپنی قوت محنت بیچے۔ یعنی مزدور کی قوت محنت سرمایہ دارانہ نظام میں ایک کموڈٹی(شے) بن جاتی ہے جسے منڈی میں خریدا اور بیچا جا سکتا ہے اور مزدوراس کو سرمایہ دار کے ہاتھ اجرت کے عوض فروخت کر کے اپنے زندہ رہنے کا سامان کرتا ہے۔ یوں محنت کش کی قوت محنت اس کے مادی وجود سے جنم لینے کے باوجود محنت کش کے اپنے لئے قدر استعمال بننے کی بجائے سرمایہ دار کے لئے قدر استعمال بن جاتی ہے جبکہ خود مزدور کے لئے اس کی حیثیت محض ایک قدر تبادلہ کی ہی رہ جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کی یہ کموڈیفیکیشن محنت کش کو اس کی محنت سے بیگانہ کرنے کا موجب بنتی ہے اور یہی امر اس بیگانگی کی جڑ ہے جو بورژوا سماج کے رگ وریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ معاشی اور فلسفیانہ مسودات میں مارکس اس بیگانگی کے چارمختلف پہلوؤں کی وضاحت کرتا ہے جن کا جوہر اسی بیگانہ محنت پر مبنی ہے۔
1۔ محنت کش کی محنت کی پیداوار سے بیگانگی
چونکہ محنت کش کی قوت محنت اس کے اپنے لیے استعمال میں آنے کی بجائے سرمایہ دار کی ملکیت بن کرسرمایہ دار کے استعمال میں آ رہی ہے اور نتیجتاً اس محنت کی پیداوار پر بھی سرمایہ دار کا تصرف ہے لہٰذامحنت کش اس بیگانہ محنت کی پیداوار سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں محنت کش کی اپنی محنت کا مادی اظہار(پیداوار) اس کے لئے ایک اجنبی، ایک بیگانی شے بن جاتا ہے۔ ایک ایسی شے جس پر اس کا کوئی تصرف نہیں، ایک ایسی شے جو اس کی مرضی ومنشا سے آزاد خارجی مظہر کے طور پر اس کے مدمقابل آجاتی ہے۔ محنت کش جتنی زیادہ پیداوار کرتا ہے، اس کی تخلیق کردہ یہ بیگانی معروضی دنیا اتنی ہی طاقتور ہو کر اس کے مد مقابل آ جاتی ہے، جتنی زیادہ وہ محنت کرتا ہے، اتنی ہی اس کی باطنی دنیا خالی ہوتی جاتی ہے۔ وہ جتنی زیادہ اپنی زندگی(محنت)اس شے (پیداوار) میں ڈالتا ہے، اتنی ہی اس کی زندگی اس سے بیگانی ہو کر اس شے کی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جتنی عظیم اس کی محنت کی پیداوار ہو گی، وہ خود اتنا ہی کمتر ہوتا جائے گا۔ محنت کش جتنی زیادہ پیداوار کرے گا، اس کے پاس اپنے استعمال کے لئے اتنا ہی کم ہو گا۔ وہ جتنی زیادہ قدر پیدا کرے گا، اتنی ہی اپنی قدر کھوتا جائے گا۔ اس کی محنت سے پیداکردہ اشیا جتنی خوبصورت ہوتی جائیں گی، وہ خود اتنا ہی بد صورت ہوتا جائے گا۔ اس کی پیداوار جتنی مہذب ہوتی جائے گی، وہ خود اتنا ہی وحشی ہوتا جائے گا۔ اس کی محنت جتنی ترقی یافتہ ہوتی جائے گی، وہ خود اتنا ہی کند ذہن ہوتا جائے گا۔
محنت کش جتنی زیادہ پیداوار کرتا ہے، اس کی تخلیق کردہ یہ بیگانی معروضی دنیا اتنی ہی طاقتور ہو کر اس کے مد مقابل آ جاتی ہے
اس کی مثال جدید صنعت سے لی جا سکتی ہے جہاں آٹو میٹک اور کمپیوٹرائزڈ مشینوں کے آنے سے اوقات کار کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں۔ اس سے جہاں پیداوار اور سماجی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے وہیں مزدور کا استحصال بڑھا ہے اور اس کا اپنی ہی تخلیق کی ہوئی سماجی دولت میں حصہ کم سے کم ہوتا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آٹو میشن کی وجہ سے مزدور کا کام بھی پہلے سے کہیں زیادہ یکسانیت، یک رخے پن اور تکرار (repetition)کا شکار ہوگیا ہے۔ مشہور فلمساز و اداکار چارلی چپلن کی 1936ء کی فلم ’’ماڈرن ٹائمز‘‘ میں اس عمل کو خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔
مارکس اس مظہر کی تشبیہہ مذاہب اور دیگر مافوق الفطرت ہستیوں کی تخلیق سے دیتا ہے کہ کس طرح یہ ہستیاں خود انسان کی تخلیق ہونے کے باوجود تاریخی ارتقا کے عمل میں انسان سے بیگانہ ہو کرایک آزادانہ وجود حاصل کر لیتی ہیں اور انسان پر حکمرانی کرنے لگتی ہیں۔ اور انسان ان بیگانی طاقتور ہستیوں کی جتنی زیادہ پرستش کرتا ہے، جتنی ان کی اپنے آپ پر حکمرانی کو تسلیم کرتا جاتا ہے، اتنی ہی اس کی روح غریب ہوتی جاتی ہے۔
ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بیگانگی کے اس پہلو کی لا تعداد مثالیں ملتی ہیں۔ ذرا سوچیے کہ کسی امیر شخص کے لئے ایک عالیشان بنگلہ تعمیر کرنے والا مزدورجب کبھی اپنے آپ کو اس بنگلے کے سامنے سڑک پر کھڑا پاتا ہے تو وہ بنگلہ، اس کی اپنی محنت کی پیداوار، اسے اپنے آپ سے کتنابیگانہ لگتا ہے۔ وہ اپنی ہی محنت کی اس پیداوار سے کتنا مرعوب ہوتا ہے۔ ایک عالیشان شاپنگ پلازہ کو اپنے ہاتھوں سے تعمیر کرنے والا مزدور جب کبھی اس کے سامنے سے گزرتا ہے تو اسے اپنا آپ کتنا حقیر محسوس ہوتا ہے۔ کسی کار ساز پلانٹ میں کام کرنے والا ایک ورکر جب شہر کی فٹ پاتھوں پر پیدل چلتا ہے تو اسے اپنے پاس سے گزرتی گاڑیاں اپنے آپ سے کتنی دور، کتنی اجنبی، کتنی بیگانی لگتی ہیں، حالانکہ وہ اس کی اپنی محنت کی پیداوار ہیں۔ جب محنت کش بڑی بڑی سڑکوں، عمارتوں، عالیشان گھروں، ساز وسامان کی بہتات اور روشنیوں میں ڈوبے کسی شہر کو دیکھتے ہیں، تو یہ سب کچھ ان کے لئے( ان کی اپنی محنت کی پیداوار ہونے کے باوجود)ایک پر اسرار، مافوق الفطرت ہستی کا روپ دھار لیتا ہے، جو ان سے بیگانہ ہے، جو ان پر حاکمیت رکھتی ہے، جس کے وہ غلام ہیں۔ ۔ بالکل ویسے جیسے انسان کے اپنے تخلیق کردہ خدا اس سے بیگانہ ہو کر اس کے حاکم بن جاتے ہیں۔
بیگانگی کے اس پہلو کا تجزیہ کرتے ہوئے مارکس ایک اور اہم نکتہ بھی اٹھاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ محنت کش فطرت کے مہیا کردہ خام مال کے بغیر کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتا۔ فطرت ہی وہ سب کچھ مہیا کرتی ہے جس پر محنت عمل کرتے ہوئے پیداوار کرتی ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں فطرت کی مہیا کردہ چیزوں کے بغیرمحنت کا مادی اظہار نہیں ہو سکتا۔ یہ محنت ہی ہے جس کے ذریعے فطرت اور انسان کے بیچ موجود لازمی تعلق اپنا اظہار کرتا ہے۔ اگر محنت کش کی محنت اس کے اپنے آزادانہ استعمال میں ہو گی، تبھی وہ اس تعلق کی حقیقت اور لازمیت کو بھی جان سکے گا اور نتیجتاًفطرت اس کے لئے ایک ایسی مانوس خارجی دنیا بن سکے گی جس کے مہیا کردہ خام مال پر اپنی محنت کے ذریعے عمل کرتے ہوئے وہ بیک وقت اپنی ذات کا اظہار بھی کر سکتا ہے اور اپنی زندگی کو رواں دواں رکھنے کا سامان بھی۔ لیکن بیگانہ محنت انسان اور فطرت کے مابین اس تعلق کو بھی انسان سے بیگانہ کر دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں پوری فطری دنیا بھی انسان کے لئے ایک اجنبی، ایک بیگانی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔
2۔ محنت کش کی پیداواری عمل سے بیگانگی
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کام پر جاتے ہوئے ہر مزدور کا چہرہ اداس اور بجھا ہوا کیوں ہوتا ہے؟اور کام سے واپسی پر تمام تر تھکن کے باوجوداس کے چہرے پر خوشی کی ایک جھلک کیوں ہوتی ہے؟کیا آپ جانتے ہیں کہ چین کی کئی بڑی نجی صنعتوں کی بلند وبالا عمارتوں کے گرد جال لگائے جاتے ہیں کیونکہ ہر سال ورکرز کی ایک بڑی تعداد کام کی اکتاہٹ سے تنگ آ کرفیکٹری کی چھت سے کود کر خود کشی کر لیتی ہے؟آخر کیا وجہ ہے کہ ہر اجرتی محنت کش کو ہمیشہ کام پر جاتے ہوئے ہول اٹھتے ہیں، خوف محسوس ہوتا ہے، اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے؟آخر وہ اپنی شفٹ ختم ہونے تک ایک ایک پل گن کر کیوں گزارتا ہے؟اور جب ڈیوٹی ختم ہونے کا وقت ہوتا ہے تو اس کے دل میں آنے والا پہلا خیال’’شکر ہے، جان چھوٹی!‘‘کیوں ہوتا ہے؟سرمایہ داروں کے ٹوڈی لبرل دانشوروں کے نزدیک اس سب کی وجہ انسان کی ’’فطری‘‘ کام چوری ہے۔ لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس نام نہاد فطری کام چوری کے ساتھ انسان غاروں سے نکل کر ستاروں پر کمند ڈالنے کے قابل کیسے ہوا۔ خیر بورژوازی کے یہ زر خرید ’’اہل دانش‘‘کبھی بھی منطق کی زبان نہیں سمجھیں گے۔ ان سے اور ان کے آقاؤں سے مزدور انقلاب اپنے طریقے سے ہی نپٹے گا۔ ابھی ہم مارکس کی طرف واپس چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ بیگانگی کے اس پہلو کے متعلق کیا کہتا ہے۔
مارکس کے مطابق محنت کش کی پیداواری عمل سے بیگانگی، اس کی بیگانہ محنت کا منطقی نتیجہ ہے۔ جب مزدور کی قوت محنت اجرت کے عوض سرمایہ دار کی ملکیت بن جاتی ہے، جب اس محنت کا استعمال سرمایہ دار کرتا ہے، جب اس کی پیداوار سرمایہ دار کی ملکیت ہوتی ہے، جب یہ سب کچھ مزدور کے لئے بیگانہ ہو تا ہے تو پھر پیداواری عمل بھی اس کے لئے بیگانہ کیونکر نہ ہو۔ لہٰذا پیداواری عمل سے مزدور کی بیگانگی کی جڑیں بھی اس کی اپنی محنت سے بیگانگی میں پیوست ہیں۔ محنت انسان کے لئے نہ صرف زندہ رہنے کے لئے درکار وسائل کی تخلیق کا ذریعہ ہے بلکہ اس کی ذات کے اظہار کا لازمی وسیلہ بھی ہے۔ لیکن اجرتی محنت اور اس سے جڑا پیداواری عمل مزدور کے لئے صرف اپنے آپ کو زندہ رکھنے کاہی ذریعہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یوں اس کی محنت اس کی ذات کے اظہار کا وسیلہ بننے کی بجائے محض بقائے ذات کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔ اسی لئے کام کے دوران وہ اپنی ذات کا اظہار نہیں بلکہ اس کی نفی کر رہا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کام کے دوران وہ خوش نہیں بلکہ افسردہ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداواری عمل کے دوران اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں نکھرنے کی بجائے برباد ہوتی ہیں۔ اجرتی محنت کش کے لئے اس کا کام اس کی ذات کا ایک حصہ اور اظہار ہونے کی بجائے بیگار اور اس کی ذات سے بیگانہ خارجی مظہر بن کر رہ جاتا ہے۔ اسی لئے کام کے دوران وہ بے سکون ہوتا ہے اور جب وہ کام نہیں کر رہا ہوتا اس وقت وہ پر سکون ہوتا ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ اس بیگانگی کے نتیجے میں انسان صرف اپنے حیوانی افعال مثلاً کھانا، پینا، جنسی عمل وغیرہ کی انجام دہی کے دوران ہی اپنے آپ کو ایک آزاد عامل کے طور پر محسوس کر پاتا ہے اور اپنے انسانی افعال ( محنت کے ذریعے تخلیق وتعمیر)کو کسی حیوان کی طرح محض زندہ رہنے کے ایک ذریعے کے طور پر سرانجام دیتا ہے۔ یعنی جب محنت کش اپنی محنت، اس محنت کی پیداوار اور پیداواری عمل سے بیگانہ ہو جاتا ہے تو وہ درحقیقت اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہو چکا ہوتا ہے۔
3۔ انسان کی نوع انسان کے جوہر سے بیگانگی
نوع انسان کا جوہر کیا ہے؟ انسان وہ واحد جاندار ہے جو شعور رکھتا ہے۔ نہ صرف اپنی ذات کے ہونے کا بلکہ اپنی پوری نوع اور فطرت کے وجود کا شعور۔ باقی جانداروں کے برعکس انسان آئیڈیاز تخلیق کر سکتا ہے، منصوبہ بندی کر سکتا ہے، مستقبل کی پیش بینی کر سکتا ہے۔ اسی لئے جہاں باقی جانداروں کی فعالیت غیر شعوری اور ان کی فوری جسمانی ضروریات کے تابع ہوتی ہے وہیں انسانی سرگرمی شعوری ہوتی ہے یعنی انسان ایک آئیڈیا تخلیق کر کے پھر اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عمل کرتا ہے اور لازمی نہیں کہ انسان یہ سب زندہ رہنے کی کسی فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہی کرے بلکہ انسانی سرگرمی کا دائرہ کار یونیورسل ہوتا ہے۔ یہی شعوری سرگرمی ہی نسل انسان کا جوہر ہے۔ اسی شعوری سرگرمی کے ذریعے ہر انسان انفرادی طور پر اور نوع انسان اجتماعی طور پر اپنے انسان ہونے کا اظہار کرتی ہے۔ یہی نوع انسان کی حقیقی زندگی ہے۔ اسی کے ذریعے انسان اپنے ارد گرد کی فطری دنیا کو بدلتا آیا ہے اور بدلے میں خود بھی تبدیل ہوتا گیا ہے۔ لیکن لازم ہے کہ انسان یہ سرگرمی ایک آزاد عامل کی حیثیت سے اپنی ذات کے اظہار کی خاطر کرے نہ کہ اپنی مرضی کے بر خلاف کسی مجبوری کے تحت، کسی اور کی منشا کے لئے۔ لیکن بورژوا سماج میں بالکل اس کے الٹ ہوتا ہے۔ وہ شعوری سرگرمی (محنت)جو نسل انسان کا جوہر ہے، اس کی حقیقی زندگی ہے، محنت کش کے لئے (اجرتی محنت کی شکل میں)محض زندہ رہنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یعنی محنت کی کموڈیفیکشن کے نتیجے میں جنم لینے والی بیگانہ محنت، محنت کش کو نوع انسان کے جوہر سے بھی بیگانہ کر دیتی ہے۔
4۔ انسان کی انسان سے بیگانگی
مارکس کہتا ہے کہ انسان کی اپنی محنت سے بیگانگی، اس محنت کی پیداوار سے بیگانگی، پیداواری عمل سے بیگانگی، اپنی ذات اورنوع انسان کے جوہر سے بیگانگی ناگزیر طور پر انسان کی انسان سے بیگانگی کو جنم دیتی ہے۔ مارکس کے مطابق انسان کی اپنی ذات سے بیگانگی کا پہلا اظہار ہی اس کی دوسرے انسانوں سے بیگانگی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہمارے لئے ایک محنت کش کی دوسرے محنت کش سے بیگانگی کو سمجھنا تو آسان ہے لیکن انسانوں میں تو سرمایہ دار اور محنت کش دونوں شامل ہیں۔ تو کیا سرمایہ دار بھی بیگانگی کا شکار ہوتے ہیں حالانکہ وہ تو اپنی قوت محنت اجرت کے عوض کسی کو نہیں بیچتے ؟اس کا جواب ہاں میں ہے، کیونکہ سرمایہ دار کی شعوری سرگرمی بھی حقیقی معنوں میں آزاد یعنی ذات کے اظہار کے طور پر نہیں ہوتی بلکہ سرمائے کے نظام کے آہنی قوانین کے تابع ہوتی ہے۔ یعنی سرمایہ دار بھی نوع انسان کے جوہر اور خود اپنی ذات سے بیگانہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن سرمایہ دار کی بیگانگی کئی حوالوں سے محنت کش کی بیگانگی سے مختلف بھی ہوتی ہے۔ ایک تو جہاں محنت کش کو بیگانگی(خود استحصال زدہ ہونے کی وجہ سے) بیگانہ سرگرمی کے کے طور پر محسوس ہوتی ہے وہیں سرمایہ دار(بیگانہ محنت کا استعمال کنندہ ہونے کی وجہ سے) اس کو محض ایک سماجی حقیقت کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ دوسرا، چونکہ محنت کش پیداواری عمل میں شریک ہوتا ہے اور اپنی محنت کا استحصال کرواتا ہے، اسی لئے وہ بیگانگی کو ایک عملی مسئلے کے طور پر محسوس کرتا ہے جبکہ سرمایہ دار بیگانگی کو مجرد انداز میں دیکھتا ہے۔ تیسرا یہ کہ اگرچہ سرمایہ دار بھی سرمائے کے تابع ہونے کی وجہ سے اپنی ذات کے اظہار سے محروم ہوتا ہے لیکن مزدور کی طرح کسی اور کے ہاتھوں اس کی محنت کا استحصال نہیں ہو رہا ہوتا۔ اسی لئے بیگانگی کے ذہنی اور جسمانی اثرات جتنے مزدور کے لئے تباہ کن ہوتے ہیں اتنے سرمایہ دار کے لئے ہر گز نہیں ہوتے۔
اسی طرح محنت کش کی سرمایہ دار سے بیگانگی کی نوعیت بھی مزدور کی مزدور سے بیگانگی کی نوعیت سے مختلف ہوتی ہے۔ جب سرمایہ دار مزدور کی قوت محنت کو خرید لیتا ہے اور اس کے نتیجے میں مزدور کی محنت اور اس کی پیداوار مزدور سے بیگانی ہو جاتی ہے تو لازمی طور پر اس محنت کو استعمال میں لانے اور اس کی پیداوار پر ملکیت رکھنے والا شخص بھی مزدور کے لئے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اور بالکل ویسے جیسے مزدور بیگانہ محنت کی وجہ سے اپنی ہی پیداکردہ اشیاکے تابع ہو جاتا ہے، ان سے مرعوب ہو جاتا ہے، ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے، ویسے ہی وہ سرمایہ دار کو ایک ایسی ہستی کے طور پر دیکھتا ہے جو اس کے کنٹرول سے باہر ہے اور اس پر حاکمیت رکھتی ہے۔ وہ اس سے مرعوب ہوتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے مقابلے میں نہایت حقیر جانتا ہے۔ حتی کہ خود پیداکنندہ ہونے کے باوجود وہ اپنی پیداکردہ اشیا کو سرمایہ دار کی ہی تخلیق اور ان پر اس کی ملکیت کو بر حق سمجھتا ہے۔
کموڈٹی فیٹشزم
سرمایہ کی جلد اول میں مارکس سرمایہ دارانہ سماج میں بیگانگی کے ایک اور پہلو کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔ مارکس اسے کموڈٹی فیٹشزم( استصنام شے) کا نام دیتا ہے۔ آسان اردو میں ہم اس کا ترجمہ اشیا پرستی بھی کر سکتے ہیں۔ یہ ایک مشکل تصور ہے۔ آئیں اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سرمایہ داری، یونیورسل کموڈٹی پروڈکشن کا نظام ہے یعنی اس میں تمام پیداوار منڈی میں بیچنے کی غرض سے کی جاتی ہے۔ تمام تر پیداوار بکنے کے لئے کموڈٹیز کی صورت میں منڈی پہنچتی ہے جہاں ان کی قدر تبادلہ کی مناسبت سے یا تو ان کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے یا پھر قدر کے کسی آفاقی متبادل( پیسے) کے ساتھ۔ لیکن اشیا کی قدر تبادلہ کا تعین کیسے ہوتا ہے؟اشیا کی قدر ہی، تبادلے کے عمل میں، ان کی قدر تبادلہ کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ اور اشیا کی قدر کا تعین ان کو بنانے میں صرف ہونے والی مجرد انسانی محنت( جسے لازمی سماجی وقت محن کی صورت میں ماپا جاتا ہے)کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ منڈی میں اشیا کا تبادلہ درحقیقت پیداواری عمل میں شریک انسانوں کی محنت کے معروضی اظہار(اشیاکی صورت میں) کا تبادلہ ہوتا ہے۔ یہی امر کسی بھی انسان کی محنت کے سماجی کردار کو بھی عیاں کرتا ہے کیونکہ اس کی پیداکردہ شے کا منڈی میں تبادلہ صرف تبھی ممکن ہے جب وہ دوسروں کے لئے کوئی نہ کوئی قدر استعمال رکھتی ہو۔ اسی لئے منڈی میں اشیا کا تبادلہ انسانی محنت کے سماجی کردار کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ انسانی محنت کا یہ سماجی کردار ہی درحقیقت دو انجان انسانوں کے مابین موجود سماجی رشتے کی بنیاد بنتا ہے۔ مگر چونکہ سرمایہ داری میں محنت کش اپنی محنت کی پیداوار سے بیگانہ ہوتا ہے اور یہ پیداوار یعنی کموڈٹی اس کے کنٹرول، اس کی مرضی ومنشا اور حتی کہ اس کے علم کے بغیر تبادلے کے عمل میں آتی ہے لہٰذا انسانی محنت کے سماجی کردار سے جنم لینے والا انسانوں کے مابین موجود سماجی رشتہ منڈی میں اشیا کے مابین سماجی رشتے کا روپ دھار لیتا ہے۔ یہ انسان کی انسان سے بیگانگی کا ایک نہایت ہی خوفناک پہلو ہے جس میں انسانوں کے مابین سماجی رشتہ ختم ہو کر اشیا کے مابین ایک سماجی رشتہ بن جاتا ہے۔ یوں لوگوں کو اپنی ہی پیداکردہ اشیا پر اسرار ہستیوں کی مانند دکھتی ہیں جو خود سے اپنا ایک آزادانہ وجود، حرکت اور معروضی خصوصیات رکھتی ہیں۔ یوں بجائے اس کے کہ انسان کی پیداوار محنت اس کے تابع ہو، وہ اپنی ہی پیداکردہ اشیا کی پرستش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی مظہر کو مارکس اشیا پرستی یا کموڈٹی فیٹشزم(استصنام شے) کا نام دیتا ہے۔ اس فیٹشزم کی انتہائی شکل ہمیں قدر کے آفاقی متبادل یعنی پیسے کی پرستش کی صورت میں نظر آتی ہے جو کہ بورژوا سماج میں کسی خدا سے بھی زیادہ طاقتور، آزاد اور پر اسرار حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ داس کیپیٹل کی پہلی جلد کے پہلے باب کے آخر میں مارکس نے اس عمل کو انتہائی تفصیل اور خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ حصہ اس باب کا سب سے مشکل حصہ بھی ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ اشیا (کموڈیٹی)اگر ایک دوسرے سے باتیں کرسکتیں تو اپنی قدر کے متعلق کیا کہتی۔ انداز بیان سے بالکل ایسا لگتا ہے کہ اشیا زندہ ہو کر ایک دوسرے سے انسانوں کے متعلق گفتگو کر رہی ہیں۔
’’اگر اشیاء کو گویائی نصیب ہو جائے تو وہ کہیں کہ :ہماری قدرِ استعمال ہی ایسی چیز ہو سکتی جس میں انسان کو دلچسپی ہو۔ شے ہونے کے ناتے یہ ہماری خوبی نہیں۔ شے ہونے کی حیثیت سے ہماری خوبی در اصل ہماری قدر ہے۔ ہمارا اشیاء کی حیثیت میں فطری تبادلہ اسی بات کی دلیل ہے۔ ایک دوسرے کی نگاہوں میں ہم محض اقدارِتبادلہ کے اور کچھ نہیں۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ اشیا معیشت دانوں کی زبان سے کیا کہتی ہیں۔
’’قدر‘‘۔ (مراد قدرِ تبادلہ)’’ اشیاء کا خاصہ ہوتا ہے، اور دولت‘‘(مراد قدرِ استعمال)’’انسانوں کا۔ قدر کا تعلق، اس لحاظ سے، محض تبادلوں کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ دولت کا نہیں۔ ‘‘ ’’دولت‘‘ ( مراد قدرِ استعمال )’’ کوانسان ہی سے منسوب کیا جا سکتا ہے، اورقدر کو اشیاء کے ساتھ۔ ایک آدمی یا ایک گروہ دولت مندہوتا ہے، ایک موتی یا ہیرا قدر کے حامل ہوتے ہیں….۔ ایک موتی یا ہیرا قدر کے حامل ہوتے ہیں بالکل موتی یا ہیرے کے بطور۔
کسی کیمیا دان نے بھی آج تک موتی یا ہیرے میں قدرِ تبادلہ دریافت نہیں کی۔ اس کیمیاوی عنصر کے وہ معاشی کھوجی، جنہوں نے بار بار تنقیدی بصیرت کے دعوے کئے ہیں، وہ بھی جان جاتے ہیں کہ چیزوں کی قدرِ استعمال کا شمار ان کے اپنے مادی خواص میں ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف ان کی قدر، ان کے شے(commodity )ہونے کی وجہ سے ان کا جزو بنتی ہے۔ اس اعتبار سے جو عنصر ان کی قدرِ استعمال کا تعین ان کے تبادلے کے بغیر ہی کرتی ہے، وہ مخصوص حالات ہیں جس کے تحت انسان اور چیزیں براہِ راست تعلق میں آتے ہیں، دوسری طرف ان کی قدر ان کے تبادلے ہی سے اخذکی جا سکتی ہے، یعنی ایک سماجی عمل کے تحت۔ یہاں ہمیں ایک بہترین دوست، ڈاگ بیری(Dogberry )یاد آ جاتا ہے جس نے اپنے ایک قریبی سکول کو یہ اطلاع بہم پہنچائی تھی کہ :’’خوش بخت انسان ہونا مقدر کی با ت ہے؛لیکن پڑھائی لکھائی ایک فطری صلاحیت ہے۔ ‘‘ (مارکس، سرمایہ، باب اول، جلد اول)
ما قبل از سرمایہ داری سماجوں میں چونکہ کموڈٹی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر تھی اور پیداوار کا غالب ترین حصہ اپنے یا حکمران طبقے(جاگیر دار، غلام مالکان وغیرہ)کے براہ راست استعمال کے لئے پیدا کیا جاتا تھااور جو تھوڑی بہت پیداوار کموڈٹی کی شکل میں ابتدائی نوعیت کی منڈیوں میں آتی تھی، اسے بھی زیادہ تر پیدا کنندہ (ہنر مند، دستکار وغیرہ)خود بیچتے تھے، لہٰذا ان سماجوں میں کموڈٹی فیٹشزم کا مظہر بھی نا پید تھا۔
بیگانہ محنت اور نجی ملکیت
چونکہ محنت کش ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت نہیں رکھتااور اسی لئے زندہ رہنے کے واحد ذریعے کے طور پر اپنی قوت محنت کو منڈی میں بیچنے پر مجبور ہے جبکہ سرمایہ دار ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت رکھنے کی ہی بدولت مزدور کی قوت محنت خرید کر اسے پیداواری استعمال میں لاتاہے لہذا بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ نجی ملکیت ہے جو بیگانہ محنت کا ابتدائی سبب بنتی ہے۔ لیکن مارکس کہتا ہے کہ حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔ یہ درحقیقت اپنی ابتدائی اشکال میں( مثلاً قبیلے کے جنگجو افراد کا بزور طاقت یا بطور خراج دیگر افراد سے کام لینا یا ان کی پیداوار کو ہتھیا لینا، غلاموں کی آقاؤں کے لئے محنت وغیرہ)بیگانہ محنت تھی جس کا مجتمع شدہ مادی اظہار نجی ملکیت کی صورت میں سامنے آیا۔ ہاں لیکن ایک بار جب نجی ملکیت تاریخ میں نمودار ہو گئی تو پھراس کے اور بیگانہ محنت کے بیچ رشتہ دو طرفہ ہو گیااور دونوں ایک دوسرے کو بڑھاوا دینے کا سبب بننے لگیں۔ لیکن ان دونوں کے مابین موجود رشتے کی دریافت صرف نجی ملکیت کے ارتقا کی حتمی شکل یعنی بورژوا ملکیت کے نمودار ہونے کے بعد ہی ہو سکی۔ یہاں پر ایک سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اگر بیگانہ محنت کسی نہ کسی شکل میں ماقبل از سرمایہ داری طبقاتی سماجوں میں بھی موجود تھی توکیا ان سماجوں میں بھی سرمایہ داری کی طرح بیگانگی ایک آفاقی مظہر کے طور پر موجود تھی؟ایسا نہیں تھا۔ چونکہ ماضی کے سماج واضح طور پر دوطبقات (ملکیت رکھنے اور نہ رکھنے والے)میں بٹے ہوئے نہ تھے بلکہ کئی طبقات ( بشمول آزاد کسان، ہنر مند، دستکار وغیرہ)پر مشتمل ہوتے تھے اسی لئے بیگانہ محنت بھی ان سماجوں میں ایک آفاقی مظہرکے طور پر موجود نہ تھی، اسی طرح نہ ہی یہ سماج یونیورسل کموڈٹی پروڈکشن پر مبنی تھے اور نہ ہی ان میں محنت کی کموڈیفیکیشن وجود رکھتی تھی لہذا بیگانہ محنت(اور نتیجتاً بیگانگی) کی کسی نہ کسی شکل اور مقدار میں موجودگی کے باوجود بیگانگی ان سماجوں میں ایک آفاقی مظہر کے طور پر موجود نہیں تھی۔
بیگانگی اور کمیونزم
بیگانہ محنت انسان کی ذات کی نفی ہے جو کہ تاریخی ارتقا کے ایک مخصوص مرحلے پر ظہور پذیر ہوئی اور آج محنت کی کموڈیفیکیشن کی صورت میں اپنی حتمی شکل کو پہنچ چکی ہے۔ صرف اس نفی کی نفی سے ہی انسان حقیقی معنوں میں انسان بن سکتا ہے۔ جدیدسماج میں اس بیگانہ محنت کا مجتمع شدہ مادی اظہار بورژوا نجی ملکیت کی صورت میں ہوتا ہے۔ یعنی اس نجی ملکیت کی نفی کرتے ہوئے ذرائع پیداوار پر محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی کمیونسٹ سماج کی تخلیق ہی جو ’’ہر ایک سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لے، اور ضرورت کے مطابق دے‘‘، نوع انسان کو اس بیگانگی سے نجات دلا سکتی ہے۔ صرف تبھی انسان اپنی حقیقی منزل یعنی تسخیر کائنات کی جانب صحیح معنوں میں گامزن ہو سکتا ہے۔ مارکس کے دیرینہ دوست اور عظیم انقلابی استاد اینگلز کے الفاظ میں’’یہ نوع انسان کی عظیم جست ہو گی، جبر کی اقلیم سے آزادی کی اقلیم میں۔ ‘‘