افسانچہ برائے تنقید و تبصرہ
میں اس وقت ایک شہر ' ماروی ' میں ہوں ؛ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ اس کا نام ماروی کیوں ہے لیکن مجھے اتنا ضرور پتہ ہے کہ ماروی ایک صحرائی دوشیزہ تھی جسے اُس صحرا کے راجہ ، عمر نے حکم عدولی پر اندھے کنویں میں ڈال دیا تھا ۔ کہیں یہ وہی صحرا تو نہیں ؟ کہیں یہ شہر وہی اندھا کنواں تو نہیں ؟ یہ مجھے معلوم نہیں ۔ شاید آپ کو پتہ ہو ؟
آئیے میں ، آپ کو اس شہر کے بارے میں کچھ بتاﺅں ۔
' ماروی ' آنے کے لئے آپ کو مشرق کی جانب ایک صحرائی راہ پر سات روز سفر کرنا پڑے گا اور پھر آٹھویں روز مغرب کا رخ کرنا پڑے گا ۔ جب آپ کا راستہ ریت میں معدوم ہو جائے تو سمجھیں کہ آپ اس شہر میں پہنچ گئے ہیں ۔ یہ ایک بڑی اندھی کھائی کے کنارے واقع ہے ۔ کھائی اتنی تاریک ہے کہ اس میں سورج کی ایک ننھی سی کرن بھی نہیں داخل ہو سکتی ۔
یہ شہر ایک لمبوترے مرتبان سا ہے جو سینکڑوں فٹ تک کرہ ِہوائی میں بلند ہے ۔ اس میں گول بل کھاتی متحرک سیڑھیاں ہیں ۔ اس کی گلیاں دائروں میں گھومتی رہتی ہیں ۔ اس شہر کو اوپر سے قلمی کانچ کے ایک بڑے گنبد نما ڈھکن نے ڈھانپ رکھا ہے جس پر ایک سنہری عَلم ہے اور اس پر ایک کوے کا سیاہ مجسمہ بنا ہے ۔ اس مرتبان جیسے شہر کی اندر ہر طرف ، ہر جگہ ، ہر سطح پر آئینے لگے ہیں جو شہر میں روشنی کو منعکس کرتے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ یہ روشنی کہاں سے آتی ہے ۔ آئینوں کا یہ نظام عمارتوں ، گھروں ، میدانوں ، تالابوں غرضیکہ ہر ڈھانچے اور ہر شے پر روشنی بکھیرے رکھتا ہے لیکن باہر سے کسی کو کوئی شے اور یہ روشنی نظر نہیں آتی ۔
اس شہر میں داخل ہوتے ہی ، ہر آنے والے کو اپنی قوت سماعت و گویائی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے جیسا کہ میں بھی ان سے محروم ہو چکا ہوں ۔ ہر آنے والا جدھر بھی دیکھتا ہے ، اسے آئینے ہی آئینے اور ان میں عکس نظر آتے ہیں ۔ جلد ہی وہ کسی گلی کی گولائی ، کسی دیوار یا کسی عمارت پر لگے کسی ایک آئینے میں اپنا عکس پہچان لیتا ہے ۔ اس شہر کی عمارتیں ایک دوسرے سے قطعاً مطاقبت نہیں رکھتیں ؛ کوئی بلند و بالا ہے تو کوئی بنیاد سے اٹھ ہی نہیں پائی ، جیسے ہی وہ اپنے عکس کو دیکھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ناک اس کے چہرے سے بہت باہر نکلی ہوئی ہے ، یا اس کا سر بہت سے ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے اور یا پھر اس کا جسم اونچائی کے مقابلے میں زیادہ چوڑا ہو گیا ہے ۔ کہیں وہ اپنے عکس میں خود کوایک مہین بانس سا پاتا تو کہیں اور وہ خود کو بونا نظر آتا ہے ۔ وہ چاہے جدھر سے بھی دیکھ لے اسے اپنا وہ عکس نظر ہی نہیں آتا ، جو اس کا اصل عکس ہونا چاہیے ۔ جلد ہی اس پر اپنے حقیقی عکس کی تلاش کا احساس مکمل طور پرحاوی ہو جاتا ہے ۔ وہ ایسے نئے زاویے تلاش کرنے لگتا ہے جن سے وہ اپنے اصلی عکس کو دیکھ سکے لیکن وہ جس زاویے سے بھی دیکھتا ہے ، اسے اپنا جسم ابھرا یا پچکا نظر آتا ہے یا پھر اس پر سلوٹیں ، جھریاں اور اپنا پنجر یوں نظر آتا ہے جیسے وہ عمر کی حد پار کر گیا ہو ۔ وہ یہ سب دیکھ کر سوچتا ہے کہ یہ تو میرے عکس میں نہیں ہونا چاہیے ۔
' ماروی ' میں ، بس ، میں اور میرے جیسے گم ہوئے مسافر ہیں یا اس کے باسیوں کے منحنی پنجر جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بھوک پیاس کے ہاتھوں ہی مرے ہوں گے ، ویسے ہی جیسے ماروی زندان میں مر گئی تھی ۔
ہم سب اس آئینوں بھرے شہرکی روشنی کے قیدی ہیں ۔ ہم اس شہر کی اَن گنت سطحوں پر اَن گنت زاویوں سے اپنے اصل عکس کی کھوج میں لگے ہیں کہ ہمیں یہی اپنا مقدر لگا ۔ ہم صدیوں سے اسی اُمید میں ہیں کہ کسی ایک حقیقی زاویے کو تلاش کر لیں لیکن وہ ہمیں مل ہی نہیں پا رہا ۔
بالآخر ، اب جبکہ میں یہ لکھ رہا ہوں ، میری اور ان سب کی امید ، مایوسی میں بدل گئی ہے اور ہم آرزو مند ہیں کہ یہ شہر اُس تاریک کھائی میں جا گرے جس کے کنارے یہ کھڑا ہے ۔ ۔ ۔ اُس اندھی کھائی میں جہاں ہم اپنے تحریف شدہ عکس نہ دیکھ سکیں ۔
اب آپ مجھے بتائیں کہ کیا یہ شہر اُسی صحرائی دوشیزہ کا ہے جس کو اس کے راجہ نے اندھے کنویں میں ڈال دیا تھا ؟ یا پھر میں اور میرے جیسے باقی سب کسی اور شہر میں کسی اور راجہ کی قید میں ہیں جہاں اس نے پہرے دار نہیں بس آئینوں اور ہمارے بگاڑے عکسوں کا ایک ایسا حصار کھڑا کر رکھا ہے جسے توڑنا ہم میں سے کسی کے بس میں نہیں ۔