مارٹن 1483 میں جرمنی میں پیدا ہوئے، اس کا باپ تانبے کی مائننگ اور ریفائن کرنے کا بزنس کرتے تھے۔ اسے ایک مذہبی یونیورسٹی میں داخل کرایا گیا۔ اسکول کے زمانے میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ یہ بچہ مذہب کے معاملے میں 'تخریب کار' نکلے گا۔ بلکہ اس نے دینیات کی تعلیم کو بڑی لگن کے ساتھ پڑھا، وہ روزے رکھتا، دعائیں ، نمازیں پڑھتا، 'اعتراف گناہ' کی رسم میں شامل ہوتا۔ اس کے کمرے میں گرم کرنے کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھتا، دعائیں کرتا۔ تعلیم مکمل ہونے پراس نے راہب Monk بننا تھا۔
لوتھر 1510 میں روم پہلی اور آخری بار گیا۔ وہاں اس نے تمام مذہبی پروٹوکول کو پورا کیا، سینٹ جان کی سیڑھیوں کو آیات پڑھتے گھٹنوں کے بل چل کر پار کیا۔ اس نے خاص طور پر وہاں ایک مقدس قول پڑھا، کہ ' از روئے ایمان ہی ہرشخص پرلازم ہے کہ وہ متقی ہو'۔ لیکن لوتھر نے روم (پاپائیت کا دارالحکومت) بے حد وحساب کرپشن اور تعیش دیکھی۔۔ جب کہ روحانیت برائے نام ہی تھی۔ لوتھر نے روم سے واپس آ کرکہا، کہ روم تو طوائفوں کا اڈا ہے۔۔۔
لوتھر کی 1512 میں ڈاکٹریٹ مکمل ہوگئی، اس نے روم میں جو روحانی کھوکھلا پن اور جعل سازی دیکھی تھی، اس سے چرچ کے ساتھ اس کا پھروسہ نہ ٹوٹا۔ پوپ نے روم میں سینٹ پیٹر کا محل نما ایک عمارت بنانے کا اعلان کیا۔ لوتھر کو پوپ کی اییسی فضول شاہ خرچیوں پر غصہ آیا۔ لوتھر نے 95 احتجاجی پیپرز/تھیسس لکھے اور ان کو یونیورسٹی کے چرچ کے گیٹ پر چپکا دیا۔۔۔ بہت سے لوگوں نے جب وہ پیپرز پڑھے، تو ان کو وہ بہت دھماکہ خیز معلوم ہوئے۔ اس کا کہنا تھا، کہ کفائت شعاری اور سادہ زندگی ہی نجات کا راستہ ہے۔ دوسرے گناہ گار کو معاف کرنے کا اختیار صرف خدا کو ہے نہ کہ کسی پادری کو۔۔۔ پوپ کی کونسل نے لوتھر کو حکم دیا کہ وہ اپنے ان 'گناہ آلود' خیالات سے دستبردار ہو۔۔۔ لیکن لوتھر نے انکار کردیا۔
اس دوران لوتھر کیتھولک مذہب کے ساتھ ہی وابستہ رہا۔ لیکن اس نے فیصلہ کیا، کہ وہ ہولی رومن بادشاہ اور چرچ سے اپنے باغیانہ افکار کا دفاع کرے گا۔ 1518 میں لوتھر کو روم طلب کیا گیا، لیکن جرمنی کے فریڈرک نے درخواست کی کہ لوتھر سے پوچھ گچھ جرمنی میں ہی کرلینے کی اجازت دی جائے۔۔ (جہاں لوتھر کے لئے قدرے نرم ماحول رہے گا)۔ لوتھر نے بائبل سے دلیل دیتے ہوئے کہا، کہ چرچ کی بنیاد پوپ کے عہدے پر نہیں رکھی ہوئی۔۔ بلکہ کرسچن ایمان پرہے۔۔ لوتھر کو احساس تھا، کہ وہ مذہب میں جو اصلاحات کا تقاضہ کررہا ہے، اس کے سیاسی نتائج بھی برآمد ہونگے۔۔ اس نے جرمن قوم کی مسیحی اشرافیہ کو لکھا، " کہ سب مسیحی جب بتسمہ لیتے ہیں، وہ اسی وقت پادری بننے کے اہل بھی ہوجاتے ہیں۔۔ (الگ سے پادریوں کا نظام بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔) اور جو بھی بائبل پڑھ لیتا ہے۔۔ وہ اس کی شرح و تفسیر کرنے کا بھی اہل ہے۔۔ اس کے لئے پیشہ ور مولویوں کی اجاداری کی ضرورت نہیں۔۔ کیتھولک چرچ کا جو نیچے سے اوپر روم تک جو پاپائیت کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔۔ یہ خیالات اسے چیلنج کررہے تھے۔۔ اور اچھا خاصے انقلابی تصورات تھے۔
1521 میں پوپ ایک دینی حکم صادر کرتا ہے کہ لوتھر مرتد ہوگیا ہے۔۔ چنانچہ اسے چرچ، مذہب، معاشرے سے باہرنکال دیا جائے۔۔۔ عام حالات میں اس طرح کے حکم کا مطلب تھا، کہ اب مذہبی عدالت میں مقدمہ چلے گا اور جہاں اس طرح کے الزام میں سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس وقت جرمنی کے سیاسی حالات ایسے نہ تھے۔۔ یہ رائے پائی جاتی تھی، کہ لوتھر کی بات سننی چاہئے۔۔ لوتھر جس شہر میں بلایا گیا تھا، راستے میں لوتھر لوگوں کے خطاب کرتا گیا، اور لوگ اسے مسیحا سمجھنے لگ گے۔۔ عوام کا ہجوم اسے دیکھنے کے لئے امڈ آتا۔۔ وہ حیران ہوتے یہ شخص کون ہے جو دنیاوی اور دینی لحاظ سے اتنے طاقت ور ادارے کو چیلنج کررہا ہے۔۔ جب لوتھر اسمبلی کے سامنے پیش ہوا، تو لوتھر نے اپنے ایک ایک لکھے لفظ کو تسلیم کرلیا۔۔ اسمبلی صدر آرچ بشپ نے لوتھر کو کہا کہ وہ اپنے خیالات سے تائب ہو۔۔ جس پر لوتھر نے سوچنے کے لئے وقت مانگ لیا، لیکن اس رات سوچنے کے بعد لوتھر نے اپنے خیالات پر ثابت قدم رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا موقف تھا، کہ اس کے خیالات مقدس کتابوں اور روایات کی روح کے مطابق ہیں۔ وہ اپنے ضمیرکے خلاف نہیں جائے گا۔ ' میں یہاں پر کھڑا ہوں، میں اور کچھ نہیں کرسکتا'
لوتھر کی بغاوت نے دوسرے مذہبی راہنماوں کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ
جرمنی اور سووئٹزرلینڈ کے کئی شہروں سے اصلاح پسند حلقوں کی طرف سے اس کی حمائت ہونی شروع ہوگئی۔ کئی پادریوں نے 'کنوارا' رہنے کی شرط توڑ دی۔ مذہبی خطبے کے دوران اس عقیدے کو بھی چھوڑ دیا، کہ روٹی اور وائن ۔۔ حضرت عیسی کے خون اور جسم میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ مقدس میوزک بند کردیا گیا، اور گرجا گھروں کے اندر لگی پینٹنگز کو توڑنا شروع کردیا۔۔۔ اب اس نئے ریڈیکل مسیحی مذہب کی تبلیغ کرنے کے لئے جتھے بن کرنکلنے لگے۔۔ لوتھر کیتھولک چرچ کے آگے نہ جھکا لیکن اس نے اپنی زندگی مشکلات کا شکار ہوگئی تھی۔ شاہی فرمان جاری ہوچکا تھا کہ لوتھر کے خیالات غیرقانونی ہیں۔ اور ان کو جلانے کا حکم دیا جاتا ہے۔۔ لوتھر نے ایک قلعے میں پناہ لے لی۔۔ تاکہ حالات سنبھلنے کا انتظار کیا جائے۔۔ اگرچہ اب لوتھر پبلک میں موجود نہ تھا، لیکن اس کے روائتی چرچ سے باغیانہ خیالات جنگل کی آگ کی طرح جرمنی میں پھیلتے گے۔ اس کی ایک وجہ اب پرنٹنگ پریس بھی انقلاب برپا کرچکا تھا۔ کئی مقامی سیاسی قیادتیں بھی روم کے تسلط سے آزاد ہونا چاہتی تھی۔ جس سے کئی اور اصلاح پسند مذہبی مفکر لوتھر کی حمائت میں سامنے آنا شروع ہوگے۔۔ لوگوں نے اپنے بچوں کا بتسمہ کرانا بند کردیا۔۔ بلکہ بڑوں نے اپنا بتسمہ دوبارہ سے لینا شروع کردیا۔۔
لوتھرکے ترمیمی خیالات میں سماجی انصاف اور مساوات کا درس موجود تھا۔ چنانچہ چرچ اور جاگیرداروں کی لوٹ مار کے خلاف وہاں کسانوں نے بغاوتیں بھی شروع ہوگئی۔۔ لوتھر ایک مذہبی ریفارمر تو تھا۔ لیکن سماجی مصلح نہ تھا۔ اس نے اس طرح کی عوامی اور کسانوں کی بغاوتوں کے بارے سنا، تو اس نے ان کے خلاف آواز اٹھائی۔۔ اس نے کسانوں کے تشدد کی مذمت کی اور اسے شیطان کا فعل قرار دیا۔ چنانچہ کسانوں کی بغاوت کو کچل دیا گیا۔ اور ان کے لیڈر کوسزائے موت دے دی گئی۔ لوتھر نے کسانوں کی بغاوت کی مخالفت بھی حضرت عیسی کے اس فرمان کی وجہ سے کی تھی کہ " جو حصہ سیزر کا ہے اسے دو، جو تمھارا ہے وہ اپنے پاس رکھو"۔
جب ہولی رومن ایمپائر نے اس نئے لوتھر فرقے کے خلاف سخت ایکشن لینے کی کوشش کی، تو جرمنی کے مقامی اصلاح پسند راجے نوابوں نے رومن ایمپائر کے خلاف ' احتجاج ' پروٹیسٹ کیا۔۔۔ اسی پر لوتھر کی تحریک کا نام ' پروٹسٹینٹ' بن گیا۔ ان کے اپنے مذہبی اصول وضع ہوگے۔۔ اور یہ تحریک یورپ کے دیگر ملکوں میں بھی پھیلنے لگی۔ لوتھر کی تحریک نے مغربی عیسائی دنیا میں تقسیم پیدا کردی تھی۔ جب کہ کئی صدیوں سے کیتھولک چرچ کا بلا شرکت غیرے غلبہ تھا۔ اب یورپ کیتھولک جنوب اور پروٹیسٹنٹ شمال میں تقسیم ہوچکا تھا۔ فرانس اس فالٹ لائن کے درمیان میں تھا۔ جہاں پر 16ویں صدی میں مذہبی تنازعات پھوٹ پڑے۔۔ اسی کے نتیجے میں انگلینڈ بھی 1534 میں روم کے چرچ سے الگ ہوگیا۔۔
مارٹن لوتھر نے شادی بھی ایک راہبہ نن سے کی تھی۔ جس کا مطلب تھا کہ عیسائیت میں مذہبی پادریوں اور راہباوں کے لئے تجرد کی زندگی لازمی نہیں۔ اب لوتھر نے نئے چرچ سسٹم کے عقائد اور قواعد وضع کرنے شروع کردیئے۔۔ اور الگ پروٹیسٹنٹ فرقے کے چرچ بننے شروع ہوگے۔ لوتھر نے بائبل کا جرمنی زبان میں ترجمہ کیا۔ لوتھر نے مذہب کے اندر عقل استمعال کرنے کی مخالفت کی تھی۔ بلکہ اس نے عقل کو دین کا دشمن قرار دیا۔ لوتھر مذہب کے نام پرمقدس جہادی جنگوں کے بھی خلاف تھا۔ لوتھر نے لاطینی زبان میں قرآن کا ترجمہ بھی پڑھا تھا۔ وہ اسلام کو محمڈن ازم کہتا تھا۔ عثمانیہ ایمپائر کی وجہ سے اسلام کو ترکی سمجھتا تھا۔ وہ اسلام کو شیطان کا مذہب کہتا تھا لیکن اس نے قرآن کی اشاعت پر پابندی کی مخالفت کی۔۔ لوتھر ساری زندگی یہدویوں کے بھی خلاف رہا۔ وہ یہودیوں کو عیسی کا قاتل سمجھتا تھا۔۔ وہ 1546 میں 62 سال کی عمر میں وفات پاگیا۔
مارٹن لوتھر کی پرٹیسٹنٹ مذہب۔۔۔ ہمارے اسلام کے وہابی فرقے کی طرح ہی بن گیا۔ ایک کٹر Pure مسیحیت۔۔۔
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...