مارٹن لوتھر کنگ جونیئرنے کیا کہا
پچاس برس پہلے، 4اپریل 1968ء کو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو قتل کردیا گیا۔ اپنے قتل سے ایک رات پہلے مارٹن لوتھر کنگ جونیئرنے میمفس میں ایک بڑے ہجوم کے سامنے اپنی آخری اثرانگیز تقریر کی۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا:
’’لوگ برسوں سے جنگ اور امن کے متعلق گفتگو کرتے رہے ہیں۔ اب وہ مزید اس بارے میں بات نہیں کرسکتے۔ اس دنیا میں اب تشدد اور عدم تشدد کے درمیان انتخاب کا سوال ہی نہیں، اب عدم تشدد اور عدم وجود کی بات ہے۔ آج ہم اسی مقام پر ہیں۔‘‘
موہن داس کرم چند گاندھی کے خیالات سے متاثر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا مزید کہنا تھا، ’’غربت، نسل پرستی اور Militarismبھی تشدد کی اقسام ہیںجو اسی منحوس چکر کا حصہ ہیں۔ یہ سب باہمی تعلق رکھتے ہیں، اور ہماری اس کمیونٹی میں ہماری زندگیوں کی راہ میں حائل ہیں۔ جب ہم ان میں سے کسی ایک برائی کو ختم کرنے میں کوشاں ہوتے ہیں تو ہم ان تینوں برائیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‘‘ یہ تھا مارٹن لوتھر کنگ کا فلسفہ۔ پچھلے پچاس برسوں میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ دنیا تشدد کی راہ پر کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ درحقیقت عدم وجود اَب نسل انسانی کا سب سے متوقع نتیجہ ہے۔ دنیا کی انتہائی پُرخطر حالت کے باوجود دنیا کی کئی تنظیمیں اور لوگ اب مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، گاندھی اور ان جیسے عدم تشدد کے حامی دیگر لوگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیںاور انسانیت کو امن، انصاف اور استحکام کی راہ پر ڈالنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
Nora Cabero بولیویا میں Movimient Humanista کے لیے کام کررہے ہیں۔اس تحریک کے کئی منصوبے ہیں، جن میں ثقافتوں کا باہمی میلان شامل ہے جس کا مقصد ہے اصلی اور حقیقی ڈائیلاگ کا فروغ تاکہ مختلف ثقافتوں کے لوگوں کو قریب لایا جاسکے، ان ثقافتوں کے درمیان تعلقات کو پروان چڑھایا جائے اور نسلی امتیاز اور تشدد کے خلاف مزاحمت کی جائے۔ ایک اور پروگرام ہے ، Worl Without Wars and Violence جس کا آغاز 1994ء میں کیا گیا اور 1995ء میں اسے پہلے بار کھلے عام چلی کی یونیورسٹی اور سینٹیاگو میں اوپن میٹنگ آف ہیومن ازم میں پیش کیا گیا۔ یہ چالیس سے زائد ممالک میں سرگرم ہے۔ یہ سماجی سطح پر سرگرم ہے اور Education for Nonviolence اور World March for Peace and Nonviolence جیسی بین الاقوامی مہموں پر کام کرتا ہے۔
ناروے کے ایڈی کالیسا نیارویا جونیئر Rwanda Institute for Conflict Transformation and Peace Building کی ایگزیکٹو سیکریٹری اور Alternatives to Violence Program کی صدر ہیں۔ گزشتہ اٹھارہ برس سے بہت سے ممالک بشمول برونڈی، چاڈ، کینیا، کانگو، روانڈا، صومالیہ، سوڈان، شمالی یوگنڈا وغیرہ میں وہ امن، مفاہمت، عدم تشدد اور سماجوں کو قریب لانے پر کام کررہے ہیں۔
روس میں Ella Polyakova اہم شخصیت ہیں جو Soldiers’ Mothers of Saint-Petersburg میں سرگرم ہیں۔ ایلا اور ان کے کولیگ روسی جبری فوجیوں کے حقوق پر کام کررہے ہیں۔ ایلا کا کہنا ہے، ’’جب ہم اپنی تنظیم کی بنیاد رکھ رہے تھے، تو معلوم ہوا کہ لوگ اپنے حقوق کے بارے میں آگہی نہیں رکھتے جو انہیں روسی آئین کے تحت حاصل ہیں۔ یہ کہ ’’انسانی وقار‘‘ کا تصور تقریباً ختم ہوچکا ہے، یہ کہ کوئی بھی جبری بھرتی کیے گئے فوجیوں کے حقوق تو ایک طرف، عوام کے حقوق کے لیے کام نہیں کررہا۔ ہم نے واضح طور پر یہ جانا کہ روسی فوجی محض مشین کا ایک پُرزہ ہیں۔ ہم نے جانا کہ ہر شخص کے لیے امید، خود اعتمادی اور بھروسا کس قدر اہم ہیں۔ ہمارے سفر کے آغاز میں، ہم نے ایسے لوگ دیکھے جو یہ جانتے ہی نہ تھے کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ ہمارے لیے یہ واضح تھا کہ آزادی اور وقار کے حصول کی راہ آگہی اور روشن خیالی سے ہوکر گزرتی ہے۔ اس لیے ہماری تنظیم کا مشن ہمارے اردگرد لوگوں کو آگہی فراہم کرنا ہے۔ سوشل ورک کا مطلب ہی لوگوں کو چیزیں اور حالات واضح کرکے دکھانا اور آگہی دینا اور انہیں قائل کرنا ہے۔ روسی آئین اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلامیے کی مدد سے ہم نے شہریوں اور ان کے حقوق کی راہ میں حائل دیوار کو گرانا شروع کردیا۔ ضروری تھا کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ حقوق، قوانین اور حالات کے واضح علم وآگہی ہی سے وہ ذمہ داری اٹھانے کے قابل اور تشدد اور استحصال سے اپنے تحفظ کے قابل ہوتے ہیں۔‘‘
بروس گیگنن Global Network Against Weapons & Nuclear Power in Space کے لیے کام کرتے ہیں، وہ حکومتوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قانون سازی کی جائے کہ بڑے جنگی ہتھیاروں کی تیاری نہ کی جاسکے۔خصوصاً وہ ہتھیار جو اب خلا میں بھیجے جانے کے قابل ہیں۔بروس کا کہنا ہے، ’’ان لوگوں کے ساتھ کام کرنا ایک اعزاز ہے جو Maine میں 43ہزار غربت زدہ بچوں کے لیے کام کررہے ہیں، ہزاروں جو صحت عامہ اور عوامی تعلیمی نظام سے محروم لوگوں کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘
1970ء کی دہائی سے دنیا کے ایک سرکردہ ایکٹوسٹ جان سیڈ اپنی زندگی جنگلوں کے تحفظ کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔ وہ Rainforest Information Centrein Australia کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں اور بارشی جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے چالیس سے زائد برس سے کام کررہے ہیں۔
متذکرہ بالا افراد اور تنظیموں کے علاوہ، دنیا بھر میں کئی تنظیمیں کسی نہ کسی طور عدم تشدد کے خلاف سرگرم ہیں، انہی میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں (بشمول بیوائوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف کام کرنے والی تنظیمیں) بھی شامل ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو،بچوں کے حقوق، مذہبی رواداری اور جنگوں کے خلاف بھی کئی افراد اور تنظیمیں سرگرم ہیں۔ ماحول اور فضا کے حوالے سے دنیا کی پُرخطر صورتِ حال کے باعث ماحولیات کے میدان میں بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر لوگ سرگرم ہیں۔
اگر آپ بھی اس سلسلے میں کسی عالمی تحریک کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو The People’s Charter to Create a Nonviolent World کے online pledge کو سائن کرسکتے ہیں، انفرادی سطح پر عملی طور پر تھوڑا ہی سہی کچھ حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اب مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے وژن کے مطابق دو ہی راستے ہیں، عدم تشدد یا عدم وجود، یعنی یا تو دنیا سے تشدد اور انتہاپسندی کی ہر صورت کے خاتمے کا حصہ بن جائیے یا پھر خود آپ کا اپنا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔
“