میرے خیال میں پاکستان میں ایسا کوئی لکھا پڑھا شخص نہیں ہوگا جس نے قدرت اللہ شہاب صاحب کا نام نہ سنا ہو ایسا کوئی ادیب یا شاعر نہیں ہوگا جس نے قدرت اللہ شہاب صاحب کی مشہور تصنیف " شہباب نامہ " کو نہ پڑھا ہو اگر کسی نے نہیں پڑھا بھی تو شہاب نامہ ضرور سنا ہوگا اور میرے خیال میں پاکستان کی ایسی کوئی لائبریری نہیں ہوگی جس میں " شہباب نامہ " نہ ہو ۔ قدرت اللہ صاحب کی یہ کتاب پاکستانی تاریخ کی ایک اہم ترین کتاب ہے جو ملکی حالات و واقعات کی ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ سابق صدر جنرل آغا محمد یحی خان کے متعلق بہت سی دلچسپ باتیں مشہور اور ان سے منسوب ہیں ۔ جنرل صاحب نے ملک کے اعلی سول افسران سے جو پہلا خطاب کیا وہ بھی بہت دلچسپ اور یادگار ہے ۔ قدرت اللہ شہاب صاحب اپنی اس کتاب میں ایک جگہ سابق صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا محمد یحی خان کے ملک کے اعلی سرکای افسران کے ساتھ ہونے والے اس اجلاس کی روئیداد کچھ اس طرح بیان کی ہے ۔
جنرل یحی خان نے مارشل لاء کے نفاذ کے 10 روز بعد ملک کے اعلی سرکای افسران کا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں میجر جنرل جنرل پیرزادہ سمیت دیگر فوجی افسران بھی موجود تھے ۔ جنرل صاحب نے سرکاری افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بڑے خوشامدی اور چاپلوسی کرنے والے ہیں ۔ آپ حکمرانوں کے ہاں میں ہاں ملا کر ان کو ناکام بناتے ہیں جبکہ اپنے ناجائز مفادات ان سے حاصل کرتے ہیں ۔ آپ لوگوں کی مہربانی سے جنرل ایوب خان ناکام ہو گئے ۔ یاد رکھیں میں ایک سپاہی ہوں آپ کے جال میں پھنسنے والا نہیں ہوں ۔ میں آپ کو وارننگ دیتا ہوں کہ ابھی آپ سدھر جائیں ورنہ مجھے سیدھا کرنا آتا ہے ۔ آپ لوگوں میں حق بات کرنے کی جرئت ہونی چاہیے ۔ میں نے مجبوری کے باعث ملک کا اقتدار سنبھالا ہے ۔ میں اپنا مشن مکمل کر کے واپس بیرکوں میں چلا جائوں گا ۔ اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے اجلاس میں شریک افسران سے کہا کہ آپ کو مجھ سے جو سوال کرنا ہے کھل کر کریں ۔ جس پر ایک بیورکریٹ ایم ایم احمد و دیگر افسران نے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا کہ صدر صاحب یہ ہمارے ملک اور قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو ملک کی ڈوبی ہوئی کشتی کو بحفاظت نکالنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔ ان افسران کے سوال نما خوشامدی کے الفاظ سن کر جنرل صاحب بہت خوش دکھائی دیئے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ان افسران کا شکریہ ادا کیا ۔ جنرل صاحب نے کہا اور کوئی سوال کرنے والا ہے تو قدرت اللہ شہاب نے اٹھ کر کہا کہ جنرل صاحب میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ آپ ملک کو کب تک ٹھیک کریں گے اور آپ کو کون کون سے اہم کام کرنے ہیں؟ جس پر جنرل صاحب نے کہا کیا تم اخبارات نہیں پڑھتے ہو ان میں کیا لکھا ہوتا ہے ۔
قدرت اللہ شہاب نے جواب میں کہا کہ بالکل سر ، میں اخبارات پابندی کے ساتھ پڑھتا ہوں ان میں آجکل یہ لکھا ہوتا ہے کہ سڑکیں صاف ہو رہی ہیں نالیوں میں فنائل کا اسپرے کیا جا رہا ہے ۔ دکانوں میں جالیاں لگ رہی ہیں اور دفتروں میں حاضریاں لگائی جا رہی ہیں ۔ جس پر جنرل صاحب نے کہا کہ پھر آپ کو اور کیا چاہئے قدرت اللہ شہاب نے کہا کہ آپ سے میری بس ایک گزارش ہے کہ جس طرح انگریزوں کی حکومت میں اگر کسی ایک انگریز آفیسر کو انگلش کی رسم الخط میں اردو لکھنا آتا تھا تو حکمران اس کو جنوبی ایشیا کے تمام مسائل کا ماہر سمجھتے تھے اسی طرح آپ بھی جنرل ایوب خان کے سابق ملٹری سیکریٹری میجرجنرل پیرزادہ صاحب کو پاکستان کے تمام مسائل کا ماہر نہ سمجھیں تو بہتر ہے جس پر یحی خان نے کہا کہ چلو دیکھیں گے جس کے بعد اجلاس برخاست ہو گیا ۔