مرثیے کا ذکر ہو تو بھلا انیس و دبیر کیسے نہ یاد آئیں، دونوں حضرات اس صنف کو ایسی ادبی معراج پر پہنچا گئے کہ آج بھی مرثیہ انکے سحر میں گرفتار ہے۔ کسی بھی صنف سخن کی طرح مرثیے پر بھی فکری تقاضوں کا اثر پڑا، سوچ، زاویہ، لحن و لہجہ بدلا مگر پھر بھی آج مرثیہ زوال کا شکار ہے۔ زوال کا ایک عنصر شاید یہ بھی ہے کہ انیس و دبیر مرثیہ کو جس بلندی سے سرفراز کر گئے تھے، آنیوالے شعرا کیلئے یہ معیار ایک کڑا امتحان ثاپت ہوا۔
انیس اوردبیر، مرثیے کے دو عظیم المرتبت شاعر، کون بڑا کون چھوٹا یہ بحث آج تک ہو رہی ہے، میں فیصلہ کرنے کا قطعی اہل نہیں مگر یہ ضرور کہنا چاہونگا کہ دبیر کو چھوٹا بنانے میں علامہ شبلی نعمانی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح مرثیے کی تاریخ انیس و دبیر کے بغیر ممکن نہیں ویسے ہی دونوں کے تقابل کا معاملہ ہو تو شبلی نعمانی کی 'موازنہ انیس و دبیر' کے بغیر کس طرح ممکن ہے، گو کہ ایک صدی گزر گئی مگر آج بھی یہ کتاب موضوع بحث ہے۔ علامہ شبلی نعمانی دانشور، تاریخ دان، استاد، عربی و فارسی کے ماہر اس کتاب کے مقدمے میں ہی فیصلہ صادر کرتے ہیں "اردو ادب کی جو تاریخ لکھی جائیگی اسکا سب سے عجیب تر واقعہ یہ ہو گا کہ مرزا دبیر کو ملک نے میر انیس کا مقابل بنایا اور اسکا فیصلہ نہ ہو سکا کہ ان دونوں حریفوں میں ترجیح کا تاج کس کے سر رکھا جائے" اب فرمائیے اس قطعی فیصلے کے بعد موازنے کی گنجائش ہی کیا رہ جاتی ہے۔ نقاد تو اس کتاب کے حوالے سے بہت کچھ کہتے ہیں، ایک لمبی بحث ہے مگر جناب المیہ یہ ہے کہ جہاں انیس و دبیر کے تقابل کا معاملہ ہو تو علامہ شبلی نعمانی جیسا جید جن بیچ میں آ جاتا ہے، جسے نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس عہد میں یہ دونوں شاعر مقبولیت کی ایسی معراج پر تھے کہ انیس کو ماننے والے انیسئے اور دبیر کو ماننے والے دبیئرے کہلاتے تھے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کیا خوب کہا ہے کہ مولانا شبلی 'موازنہ انیس و دبیر ' لکھ کر انیسئے بن گئے۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ کربلا کے واقعات کو عرب ماحول سے جذبات و احساسات تبدیل کیے بغیر مقامی تناظر میں ڈھالنا ایک عظیم تخلیقی کارنامہ ہے۔ اس سے بڑھ کو کارنامہ یہ ہے کہ انیس و دبیر نے مرثیے کو مذھب کے دائرے سے نکال کر ادب کا لازوال حصہ بنا دیا، شاید ان میں سے ایک نہ ہوتا تو یہ عمل ناممکن تھا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ دونوں ایک ہی عہد میں نہ ہوتے تو بھی شاید یہ مسابقت ادبی شہ پاروں کو نوعیت اختیار نہ کر پاتی۔
مرثیہ عربی و فارسی سمیت دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی رائج ہے مگر اس صنف کو جو ادبی حیثیت اردو میں حاصل ہے وہ کسی زبان میں نہیں ملتی۔ متحدہ ہندوستان میں حیدرآباد دکن میں لگ بھگ 1503 اردو مرثیے کا آغاز کہا جا سکتا ہے، حضرت اشرف بیابانی کی کتاب نوسرہار میں پہلی بار مرثیہ لکھا گیا، اس زمانے کے اہم مرثیہ گو شعرا میں حضرت شاہ راجو، غواصی، وجہی، شاہ برہان حاتم، عبداللہ قطب شاہ شاہی، محمد قلی قطب شاہ شامل ہیں۔ شمالی ہند میں مرثیہ نگاری کا آغاز 1688 کے آس پاس روشن علی کی ’عاشور نامہ‘ اور اسی زمانے میں فضل علی کی ’کربل کتھا‘ کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ گویا یہ مرثیے کا دور اولین ہے، اس کے بعد سب سے اہم نام مرزا سودا کا ہے جنہوں نے اردو مرثیہ کو مسدس کی ہیئت عطا کی، ضمیر، سوز، خلیق، انیس، دبیر کا دور مرثیے کا عروج ہے۔ تیسرا اور موجودہ دور جس کا بانی جوش صاحب، سید آل رضا کو قرار دیتے ہیں۔ جدید مرثیے میں رثائیت سے زیادہ پیغام حسینی کی عظمت اور فلسفہ کربلا کو محور کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ سچ ہے کہ مرثیہ آجتک انیس و دبیر کے سحر میں گرفتار ہے۔ جدید مرثیہ کی تحریک میں میں جوش، سید آل رضا، رزم ردلوی، مہدی نظمی، قمر جلالوی، وحید اختر، نجم آفندی، محسن جونپوری، شوکت تھانوی، رئیس امروہوی، کوکب شادانی، راغب مراد آبادی، امید فاضلی، صبا اکبر آبادی، خمار فاروقی، شاہد نقوی اور نسیم امروہوی جیسے نام نمایاں ہیں جنہوں نے مرثیے کو نئی جہتیں و لہجہ عطا کیا۔ دلو رام کوثری کا مرثیہ ’قران و حسین‘، جوش کا ’آواز حق‘ نسیم امروہوی کا ’گل خوش رنگ‘ اور عزیز لکھنوی کا ’درس وفا‘ اہم گردانے جاتے ہیں۔ بھارت میں آج بھی روایتی مرثیے ترجیح دی جاتی ہے، جمیل مظہری سمیت دو چار ایسے ضرور ہیں جنہوں نے جدید مرثیے کی روش اپنائی۔ قطع نظر مذھب و مسلک اردو سے وابستہ بیشتر مسلم شعرا نے مرثیے کی صنف میں طبع آزمائی کی ہے مگر ہندو شعرا کا حصہ بھی کسی سے کم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کون ایسا ہو گا جس نے منشی چھنو لال دلگیر کا ’گھبرائے گی زینب‘ نہ سنا ہو، چھنو لال دلگیر کے اس مرثیے کو ناصر جہاں نے امر بنا دیا، چھنو لال دلگیر ناسخ کے شاگرد تھے اور کم و بیش 417 مرثیے لکھے ہیں۔ ان کے علاوہ اہل بیت کے غمگساروں میں دلو رام کوثری، منشی لچھمن داس، رام پرکاش ساحر، حکیم چھنو مل، مہاراجہ بلوان سنگھ راجہ، روپ کماری کنور، بالاجی تسامباک، جوش ملسیانی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، کالی داس گپتا رضا سمیت طویل فہرست ہے۔
کراچی میں ایک زمانہ تھا کہ مرثیہ نو تصنیف کی محافل ہوا کرتی تھیں، ڈاکٹر یاور عباس مرحوم نے بھی مرثیے کے ترویج میں بڑا کردار ادا کیا، ڈاکٹر ہلال نقوی، شارب ردولوی اور ڈاکٹر نیئر مسعود نے رثائی ادب کی تحقیق کے حوالے سے بڑا کام کیا ہے۔ استاد سبط جعفر مرثیے گوئی اور خواندگی کے حوالے سے بڑا نام ہے، جاوید حسن اور فرحان رضا مرثیہ خواں کی حیثیت سے معروف ہیں۔ گو کہ آج پاکستان میں مرثیے اور فروغ کیلئے متعدد ادارے قائم ہیں، محافل کا باقاعدگی کے انعقاد بھی ہوتا ہے اسکے باوجود مرثیہ زوال سے کیوں دوچار ہے۔ وحید الحسن ہاشمی اسکا تجزیہ کچھ یوں کرتے ہیں کہ ماضی میں مرثیے کو مجالس عزا میں مرکزی حیثیت حاصل تھی مگر اب یہ جگہ ذاکر نے لے لی ہے، انتظار حسین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے اور شاید اسی باعث مرثیہ اب عوام کے بجائے خواص تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔
میری کیا بساط کہ مرثیے جیسی عظیم صنف سخن پر کچھ کہہ سکوں، اس میدان میں بڑے محقق و مصنف موجود ہیں، بس آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے کہ مصداق اسے معدوم ہوتی صنف کا مرثیہ جانیئے۔ موضوع کی وسعت کو کالم میں سمونا بھی ناممکن ہے بیشمار نام اور کلام موجود، اسی باعث اشعار کو شامل نہ کیا، اپنی جہالت پر معذرت خواہ ہوں۔ چلتے چلتے جوش صاحب کا قطعہ
کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلوووں سے مسل سکتی ہے
کربلا خار تو کیا، آگ پہ چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارے کو بدل سکتی ہے
کربلا قلعہ فولاد ہے جراروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا