ایک سرکاری ملازم کی شہرت کو چار چاند لگ گئے کہ اس نے لاہور میں فوڈ سٹریٹ بنائی۔ حکمرانوں کو علم سے شغف ہوتا تو ہوشیار سرکاری ملازم ’’کتاب سٹریٹ‘‘ بناتے لیکن یہ الگ موضوع ہے۔
ان صاحب کو دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کا سربراہ بنایا گیا۔ ایک پارک کا کچھ حصہ انہوں نے ایک تجارتی ادارے کو الاٹ کردیا۔ اس پر سپریم کورٹ نے جواب طلبی کی اور حکومت کو ان کے خلاف ایکشن لینے کا حکم دیا۔ یہ ایک الگ قصہ ہے۔
ترقیاتی ادارے میں ان کی آمد کے بعد اچھے کام بھی ہوئے۔ بہرطور ’’عوامی‘‘ سیکٹر ان کی توجہ سے بھی محروم ہی رہے۔ یوں لگتا تھا ان کا دھیان ان مقامات کی طرف زیادہ جاتا تھا جو بڑی بڑی شاہراہوں کے کنارے تھے۔ وہاں سے حکمرانوں کے قافلے گزرتے تھے اور ان کی نظر ترقیاتی کاموں پر پڑ سکتی تھی۔ ہمارے ایک دوست‘ جو خود اعلیٰ منصب پر فائز تھے‘ ایک پارک میں شام کو سیر کیا کرتے۔ نماز کا وقت ہوتا تو وہ کبھی کسی بنچ پر‘ کبھی کسی گوشے میں گھاس پر اور کبھی کسی درخت کے نیچے نماز ادا کرتے۔ کچھ سوچ بچار کے بعد انہوں نے ترقیاتی ادارے کے سربراہ کو ایک نیم سرکاری مکتوب بھیجا اور تجویز پیش کی کہ اس پارک میں‘ جہاں سیر کرنے والے کثیر تعداد میں آتے ہیں‘ نماز کے لیے ایک پختہ چبوترہ بنا دیا جائے۔ ہفتے‘ پھر مہینے گزر گئے‘ کوئی جواب نہ آیا۔ یاد رہے کہ نیم سرکاری مراسلہ‘ نیم ذاتی بھی ہوتا ہے اور اسی کے پاس جاتا ہے جس کے نام ہوتا ہے۔ مہینے برس میں تبدیل ہو گئے۔ سربراہ نے خط لکھنے والے کو‘ جو ان کا ہم مرتبہ بلکہ سینئر بھی تھا‘ کوئی جواب نہ دیا۔
یہ صرف ایک مثال ہے۔ حکومتِ پاکستان کو جو امراض لاحق ہیں‘ ان میں سب سے خطرناک مرض سرطان ہے اور وہ یہی مرض ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ستر‘ پچھتر فیصد خطوط کا سرکاری محکموں میں کوئی جواب نہیں دیا جاتا تو مبالغہ آرائی ہرگز نہ ہوگی۔ محکموں اور وزارتوں کے جو سربراہ مخلص اور فرض شناس ہوتے ہیں وہ ایک نظام وضع کرتے ہیں جس کے تحت انہیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کتنے خطوط کا‘ کتنی درخواستوں کا‘ جواب نہیں دیا گیا اور وہ ’’تاخیر‘‘ کے زمرے میں آ رہی ہیں۔ صدر ضیاء الحق کے زمانے میں جنرل مجیب الرحمن پہلے اطلاعات کے اور پھر ثقافت کے سیکرٹری تھے۔ باہر سے موصول ہونے والے ایک ایک کاغذ کو خود دیکھتے اور ضروری ہوتا تو اس پر اپنے ریمارک لکھتے۔ ایک بار کسی سائل نے درخواست کی یاد دہانی کرانے کے لیے ریمائنڈر (Reminder) بھیجا۔ جنرل مجیب الرحمن نے اس پر لکھا:
"I hate to receive reminder" یعنی مجھے اس بات سے نفرت ہے کہ یاد دہانیوں کی نوبت آ جائے۔
حکومت پاکستان کے دفتروں میں‘ کیا وفاقی اور کیا صوبائی‘ ایسی مثالیں عام ہیں کہ مراسلے کا جواب نہیں دیا گیا اور اس کے ایک دو نہیں‘ درجنوں ریمائنڈر بھی جواب کے مستحق نہ سمجھے گئے۔ آج اگر وزیراعظم یہ قانون بنا دیں کہ کسی مراسلے‘ کسی درخواست‘ کسی تحریری استفسار کا جواب ایک ہفتے یا زیادہ سے زیادہ دس دن میں نہ دیا گیا تو متعلقہ وزیر اور سیکرٹری کو برطرف کردیا جائے گا تو یقین جانیے‘ اس ملک کی کایا پلٹ جائے گی۔
کیا آپ کو معلوم ہے پٹرول کا موجودہ بحران کیوں پیدا ہوا؟ اس کا سبب یہ ہے کہ متعلقہ وزارتوں نے پی ایس او کے مراسلوں کو حسبِ معمول درخور اعتنا نہ سمجھا۔ پی ایس او نے وزارت پٹرولیم کو اور پانی اور بجلی کی وزارت کو 24 دسمبر کو متنبہ کیا اور 30 دسمبر کو ایک بار پھر آگاہ کیا کہ صورتِ حال خطرناک موڑ مڑ رہی ہے۔ پی ایس او نے بتایا کہ ایل سی ڈیفالٹ ہو رہے ہیں۔ 28 نومبر سے لے کر 24 دسمبر تک سولہ ایل سی ڈیفالٹ ہو چکے تھے۔ حکومت نے کہا تھا کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادھار دیا جائے۔ پی ایس او نے اس پر عمل کیا اور مالی لحاظ سے پستی گئی۔ بینکوں سے اس کے اپنے قرض کی حد بھی ختم ہو گئی۔ دونوں وزارتوں نے پی ایس او کے خطوط پر کوئی توجہ نہ دی۔ اگر وزیراعظم اس معاملے کی تفتیش خود کریں تو چشم کشا عوامل سامنے آئیں گے۔ خطوط کے جواب نہ دینے کی اور ایکشن نہ لینے کی ذمہ داری متعلقہ افسر یا اہلکار پر تو عائد ہوتی ہی ہے‘ اصولی طور پر آخری ذمہ داری سیکرٹری کی ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص کو وفاقی سیکرٹری لگایا گیا ہے‘ اسے تنخواہ اور مراعات کا قابلِ رشک پیکیج عوام کے خون پسینے کی کمائی سے دیا جا رہا ہے اور وہ یہ بھی نہیں کر سکتا کہ اس کے دائرہ انتظام میں حساس مراسلوں پر فوری ایکشن لیا جائے تو وہ بدترین سزا کا مستحق ہے۔ شیرشاہ سوری نے قانون بنایا تھا کہ جس گائوں میں قاتل اتنے عرصہ تک نہ پکڑا گیا اُس گائوں کے نمبردار کو ہولناک سزا دی جائے گی۔
آپ اندازہ لگایئے‘ ہزاروں لاکھوں انسان پٹرول پمپوں پر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں‘ مریض ہسپتالوں میں پہنچنے سے پہلے دم توڑ رہے ہیں۔ طالب علم امتحان گاہوں میں نہیں پہنچ رہے۔ حاملہ عورتیں ایڑیاں رگڑ رہی ہیں اور شفاخانوں تک نہیں پہنچائی جا سکتیں‘ تاجر اور کمپنیوں کے ذمہ دار ا ہلکار ہوائی اڈوں تک نہیں پہنچ سکتے‘ مایوسی اور فرسٹریشن کی انتہا میں لوگ پٹرول پمپوں پر ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں‘ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو رہے ہیں‘ پٹرول پمپوں کے بے قصور ملازمین کے سر پھاڑنے کے در پے ہیں اور وزیراعظم متعلقہ وفاقی سیکرٹری کو سزا کیا دے رہے ہیں؟ معطلی! کیا آپ کو معلوم ہے کہ معطل کیے جانے والے سرکاری ملازم کو پوری تنخواہ ملتی رہتی ہے اور وفاقی سیکرٹری سے تو معطلی کے دوران دوسری مراعات بھی واپس لینے کی جسارت کوئی نہیں کرے گا! خطرے کو بھانپنا اور بروقت کارروائی کرنا متعلقہ سیکرٹری کا فرض تھا۔ اور اس کے وزیر کا بھی! اگر وہ اپنا فرض نہیں ادا کر سکتے تھے تو مستعفی ہو جاتے۔ یہ اور بات کہ اس ’’کامیاب‘‘ ریاست میں مستعفی ہونے کی روایت ہی وجود میں نہ آ سکی۔
اگر آپ بحران کی اس شدت کے دوران قہقہہ لگانا چاہتے ہیں تو پٹرولیم کے وزیر صاحب کی تشخیص سنیے: ’’پٹرول لوگوں کے زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے ختم ہوا کہ قیمتیں گرنے کی وجہ سے کھپت بڑھی‘‘ اسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ گویا قیمت کم ہوئی تو لوگوں نے بغیر کام کے لمبی ڈرائیورنگ شروع کردی۔ غالباً نظامی نے کہا تھا ع
وزیرے چنیں شہر یارے چناں
ایک تو یہ کہ آپ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوئے‘ دوسرے سارا قصور عوام کی گردن پر ڈال کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ لاہور پٹرول کی کمی سے زیادہ متاثر ہوا ہے!! پٹرولیم کے وزیر اس کچن کیبنٹ میں شامل نہیں جو کہکشاں کی طرح سب سے الگ چمک دمک رہی ہے۔ اس کچن کیبنٹ میں چودھری نثار علی خان واحد شخصیت ہیں جو خواجہ ہیں نہ ڈار اور نہ ہی اُس پٹی (بیلٹ) سے تعلق رکھتے ہیں جو وسطی پنجاب سے عبارت ہے۔ نہیں معلوم‘ پٹرولیم کے محترم وزیر لاہور کو باقی صوبے سے ممیز و ممتاز کیوں قرار دے رہے ہیں! کیا وہ کوئی ایسی بنیاد تلاش کر رہے ہیں جس پر شہرِ شہریاراں کو پٹرول کی زیادہ رسد دی جا سکے!
سوشل میڈیا پر خلقِ خدا نے ایک دلچسپ سوال اٹھایا ہے کہ کیا دنیا بھر میں پٹرول پاکستانی حکومت کی طرح حکومتیں ہی فروخت کرتی ہیں؟ پٹرول سے متعلق تمام ادارے حکومتی ادارے ہیں۔ حکومتی اداروں کی بے تدبیری کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ ڈرائیور سے لے کر ڈاک پہنچانے والی نجی کوریئر کمپنیوں تک‘ ہر شعبے میں اگر عوام کو واقعی ریلیف ملا ہے تو نجی شعبے کی وجہ سے ملا ہے۔ آخر نجی شعبے کو پٹرول درآمد کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟ دوسری طرف شیخ رشید نے کہا ہے کہ حکومت کی دلچسپی صرف ایل این جی پر ہے اور یہ کہ کمیشن کے لیے ایل این جی کے معاہدے کیے جا رہے ہیں‘ اگر یہ الزام درست نہیں ہے تو حکومت کو چاہیے کہ شیخ صاحب کے خلاف نالش کرے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“