کچھ زیادہ ہی بھلی لگتی ہے
مجھ کو تصویر پرانی میری
باقر نقوی
04؍فروری 1936: تاریخ پیدائش
معروف شاعر، مصنف اور مترجم سید محمد باقر المعروف باقر نقوی 04؍فروری 1936ء کو الہ آباد اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم الہ آباد سے حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان چلا گیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اسٹیٹ لائف انشورنس کو جوائن کیا بعد ازاں 1976ء میں وہ لندن چلے گئے اور وہاں ’’سی سی آئی انشورنس‘‘ کا حصہ بن گئے اور یوں مستقل لندن رہنے لگے۔ بہترین شاعر اور مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بیسویں صدی میں ادب کا نوبیل حاصل کرنے والوں کے خطبات کا ترجمہ بھی کیا۔
باقرؔ نقوی 13؍فروری 2019ء کو لندن میں وفات پا گئے۔
بحوالہ : وکیپیڈیا
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
باقرؔ نقوی کے چند منتخب اشعار
جیسا حضور کہیں گے بالکل ویسا ہوگا
یعنی پھر گڑیوں کا کھیل تماشا ہوگا
محل تو ہولی دیوالی کے لئے بنے ہیں
آگ کا رمق تو لا وارث کا خیمہ ہوگا
کھاری پانی کی جھیلیں سب بچ جائیں گی
لقمہ سیاہ سمندر کا بس دریا ہوگا
میری تیری آنکھ کی قسمت کنکر مٹی
ان کی آنکھ کی زینت ہو تو سرمہ ہوگا
دوزخ کے سب دروازے تو کھلے ہوئے ہیں
جنت کے دروازے پر کیا تالا ہوگا
ساحل پر جب سبز فرشتے ہی رہتے ہیں
دریا میں پھر کس نے زہر ملایا ہوگا
میرا سلام اس شہزادے کو پہنچا جس کے
بے سر جسم پہ اک بوسیدہ کرتا ہوگا
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
شور دریا ہے کہانی میری
پانی اس کا ہے روانی میری
کچھ زیادہ ہی بھلی لگتی ہے
مجھ کو تصویر پرانی میری
جب بھی ابھرا ترا مہتاب خیال
کھل اٹھی رات کی رانی میری
بڑھ کے سینے سے لگا لیتا ہوں
جیسے ہر غم ہو نشانی میری
مہرباں مجھ پہ ہے اک شاخ گلاب
کیسے مہکے نہ جوانی میری
پھر ترے ذکر کی سرسوں پھولی
پھر غزل ہو گئی دھانی میری
کچھ تو اعمال برے تھے اپنے
کچھ ستاروں نے نہ مانی میری
لکھی جائے گی ترے برف کے نام
جو تمنا ہوئی پانی میری
تم نے جو بھی کہا میں نے مانا
تم نے اک بات نہ مانی میری
مختصر بات تھی جلدی بھی تھی کچھ
اس پہ کچھ زود بیانی میری
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
اے کہکشاں نواز مقدر اجال دے
میری طرف بھی ایک ستارہ اچھال دے
ہم پورے آفتاب کے قابل نہیں اگر
تھوڑی سی پیلی دھوپ ہی آنکھوں میں ڈال دے
ہاں کہتے کہتے گنگ نہ ہو جائے دل کہیں
یا رب مری زبان کو تاب سوال دے
روگی ہوا ہے دھوپ کو ترسا ہوا بدن
اے مامتا سپوت کو گھر سے نکال دے
کوئی تو دوستوں سے مرے دوستی کرے
کوئی تو مہرباں ہو بلاؤں کو ٹال دے
تو لفظ گر تو ہے تجھے شاعر کہیں گے جب
اک بے زبان حرف کو نغمے میں ڈھال دے
بجلی کا تیر جیسے دھنک کی کمان میں
کیا اور اس شباب کی کوئی مثال دے
باقرؔ اس آفتاب میں جوہر ہے اس قدر
آ جائے جوش میں تو سمندر ابال دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحوالہ : ریختہ ڈاٹ کام