12 اگست 1982
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد علی سوز صاحب کا شمار کراچی کے معروف اور فعال شعراء میں ہوتا ہے۔ وہ کراچی کی ادبی سرگرمیوں میں فعال پیش پیش رہتے ہیں اور شہر بھر میں ہونے والے مشاعروں میں ان کی شرکت ہوتی رہتی ہے۔ ان کی شاعری میں وقت اور حالات و واقعات کا بھرپور عکس دکھائی دیتا ہے اس لیے ان کی شاعری میں تاثیر اور کشش پائی جاتی ہے۔ اچھی اور معیاری شاعری اور فعال کردار کے باعث کراچی کے سینیئر اور جونیئر شعراء اور شاعرات انہیں ایک اچھے خیالات کے شاعر کے طور پر جانتے ہیں۔ محمد علی سوز صاحب 12 اگست 1982 کو اورنگی ٹاؤن کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب کا نام محمد شمس الدین ہے۔ ان کا اصل نام محمد علی ہے قلمی نام محمد علی سوز ہے اور تخلص "سوز" ہے۔ محمد علی نے اردو اور تاریخ اسلام میں ایم اے کر رکھا ہے۔ وہ فضائیہ کالج، فیصل، کراچی میں بحیثیت لیکچرار اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ 2013 میں انہوں نے شادی کی ہے اور ماشاءاللہ وہ ایک بیٹی اور ایک بیٹے کے باپ ہیں۔
محمد علی سوز صاحب کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا لیکن 1998 میں انہوں نے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ مرحوم بزمی تمنائی صاحب شاعری میں ان کے استاد تھے ۔ ان کی 2 کتابیں "سخن وران شہر" اور "سخن وران پاکستان" کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی شاعری کراچی کے مختلف اخبارات اور رسائل و جرائد میں چھپتی رہتی ہے جبکہ وہ کراچی سے شائع ہونے والے ایک معروف اخبار روزنامہ "نئی بات" کے لیے شعراء اور شاعرات کے انٹرویوز کرتے اور چھاپتے رہتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ شعراء اور شاعرات میں احمد فراز، محسن نقوی، پروین شاکر اور ناصر کاظمی شامل ہیں۔ محمد علی سوز کی شاعری سے بطور نمونہ ایک خوب صورت کلام اور 3 اشعار پیش خدمت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح سوچتا تھا میں ویسا نہیں ہوا
یوں تو ہمارے شہر میں کیا کیا نہیں ہوا
مجنوں کو راس آئی صحرا کی زندگی
لیلی کے حق میں گرچہ یہ اچھا نہیں ہوا
فاقہ زدہ کے بچوں نے پوچھا یہ باپ سے
کوئی خدا کو آج بھی پیارا نہیں ہوا؟
اس رات بھوکے سو گئے بچے یتیم کے
جس رات ماں کے جسم کا سودا نہیں ہوا
شاید اسی لیے ہیں محلے میں نیک نام
" کیوں کہ ہمارے پیار کا چرچا نہیں ہوا "
اس کے تو سارے ہی خواب تعبیر پا چکے
میرا تو کوئی خواب بھی سچا نہیں ہوا
اک لاعلاج زخم سے گھائل تھا " سوز " وہ
بستر پہ مر گیا مگر اچھا نہیں ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے محور سے ہٹ رہا ہوں میں
جیسے ٹکڑوں میں بٹ رہا ہوں میں
یاد آتے ہیں گھر کے لوگ بہت
گھر کی جانب پلٹ رہا ہوں میں
ہے مسافت سے چور چور بدن
دھول، مٹی میں اٹ رہا ہوں میں
محمد علی سوز