شہناز پروین سحر ایک لحاظ سے میرے والد جیسی ہیں. میرے والد نے بھی ترقی یہ کہہ کر واپس کردی تھی کہ وہ انسپکشن کیلئے تین تین دن کے دوروں پر نہیں جاسکتے، ہر شام اپنے بچوں کے پاس پہنچنا چاہتے ہیں.
شہناز بھی پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچ سکتی تھیں لیکن بیمار، معمر والدین اور بچوں کی خاطر لاہور چھوڑنا گوارا نہیں کیا اور ریٹائر منٹ تک ٹیلی فون آپریٹر ہی رہیں (پروڈیوسر بن جاتیں تو لمبا عرصہ اسلام آباد کی ٹریننگ اکیڈمی تو ضرور جانا پڑتا)
پی ٹی وی میں دستور رہا ہے کہ نئی اسامیوں کا ایک حصہ کوالی فکیشن کی شرط پوری کرنے والے ملازمین کیلئے مخصوص ہوتا ہے. اس طرح کئی کلرک بھی ڈائریکٹر اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بنے ہیں. ہمارے ہی سامنے
" آج کے پروگرام" اخباری دفاتر میں پہنچانے والا خوش مزاج نوجوان Peon یا رائڈر، اسسٹنٹ پروڈیوسر منتخب ہوا اور پھر پروگرام منیجر تک پہنچا.
میرے سات آٹھ کلاس فیلوز بلکہ جونئیر بھی کنٹرولر، ڈائریکٹر اور ایم ڈی کے عہدوں تک پہنچے. شہناز تو شعبہ صحافت میں ہم سے سینئر بھی تھیں اور جن دوستوں کا ذکر کیا بلاشبہ ان سے زیادہ معروف اور خلاق بھی.
ٹی وی کی نوکری سے دوسروں نے بہت فائدے اٹھائے، شہناز کو نقصان ہی ہوئے. وہ سٹاف ممبر ہونے کی وجہ سے کبھی ٹیلی ویژن کے کسی مشاعرے میں بھی شریک نہ ہوسکیں. شہر کے دوسرے مشاعروں میں بھی نہیں کہ ان کی ڈیوٹی کے اوقات اجازت نہیں دیتے تھے. سو خود سے آدھا ٹیلنٹ رکھنے والوں جتنی شہرت بھی نہ پاسکیں. ہر رشتے میں اور ہر جگہ قربانیاں ہی ان کے حصے میں آئیں….
خیر… پیش ہیں ان کے چند شعر…..
ایڑی اٹھا کے ساتھ نبھانا پڑا سحر
قد سے بہت بلند انا دی گئی مجھے
آپ ہی اپنی ماں رہی ہوں سحر
ماں ہی جیسی دکھائی دیتی ہوں
میں جی رہی ہوں یا جینے کا وہم ہے مجھ کو
نہ جانے جاگ رہی ہوں کہ سو رہی ہوں میں
اتنی آگ تو صاحب پورا گھر جلا دے گی
آنچ دھیمی کر لیجیے دودھ ابل گیا ہو گا
اجنبی خلاؤں میں ڈار سے بچھڑتے ہی
جال بچھ گئے ہوں گے وار چل گیا ہو گا
موت کے اندھیرے میں وقت تھم گیا ہو گا
رات بجھ گئی ہو گی دن بھی ڈھل گیا ہو گا
مضطرب خیالی میں کب دھیان رہتا ہے
روٹیاں پکانے میں ہاتھ جل گیا ہوگا
بے ثمر موسموں میں جنمی ہوں
زرد پتوں کا دکھ سمجھتی ہوں
میرا بچپن بچھڑ گیا مجھ سے
اک سہیلی سے روٹھ بیٹھی ہوں
گھر کی دیوار میں ہی رہتا ہے
ایک سایا میں جس سے ڈرتی ہوں
مجھ کو بارش عزیز ہے لیکن
کھڑکیاں بند کر کے روتی ہوں
وہ جو اک بے وفا کی خاطر تھے
اب انہی آنسوؤں پہ ہنستی ہوں
دور تک ننگے پاوْں بھاگی میں
کون مجھ میں تھا پاگلوں جیسا
تھم گیا انتظار آنکھوں میں
رہ گیا درد کاجلوں جیسا
ہر ایک لفظ ستارے میں ہو گیا تبدیل
تمام رات مری آسماں سے بات ہوئی
میں سانپ سیڑھی سے پاتال تک گرائی گئی
میں جان ہی نہ سکی جیت تھی کہ مات ہوئی
ہم ہیں ٹوٹی ہوئی اِک شاخ ِ گل ِ زرد مگر
تن کی مٹی بھی تو ہمراہ نہیں لے کے گئے
کونسی سمت کو جاتے ہیں یہ جانے والے
اب مرے دل پہ کوئی نقش کوئی نام کہاں
لکھنے والے نہ رہے اور نہ مٹانے والے
کتنے ہی لوگ گھروں کو نہیں لوٹے ہیں سحر
ہم بھی جائیں گے تو واپس نہیں آنے والے
ماں کے پیٹ میں بچہ روم روم بڑھتا ہے
آدمی کو مرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
گھر کو گھر بنانے میں عمربیت جاتی ہے
پھر مکان گرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
انگلیوں کی پوروں میں کرچیاں اترتی ہیں
کانچ کے بکھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
عمرکیسےڈھلتی ہےموت کیسے پلتی ہے
چار دن گذرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
شاخ کی ہتھیلی پر پھول مسکراتا ہے
پھول کے بکھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
عمر بھر کے ساتھی جب راستے بدلتے ہیں
عمر کو گذرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
مصلحت کے پردے کی عمر کتنی ہوتی ہے
یہ نقاب اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے
ایک سر کی چادر ہو اور پاؤں میں چپل
اپنے سج سنورنے میں دیر کتنی لگتی ہے
سرما کی چاندنی تھی جوانی ، گذر گئی
جھلسا رہی ہے دھوپ ، بڑھاپا ٹھہر گیا
آواز کی نمی تھی جو لفظوں تک آ گئی
اک گھونٹ آنسووْں کا گلے میں ٹھہر گیا
اک ہمسفر جو میرے خرابے میں ساتھ تھا
سوچوں میں جی رہا ہے مگر دل میں مر گیا
چنری تلاش کرنے میں کچھ دیر ہو گئی
در پر کھڑا ہوا تھا جو اِک خواب مر گیا
نراش چاند تیرگی میں گھل کے شانت ہوگیا
سحرمیں نیند میں چلی توخواب سے نکل گئی
ایک رشتہ بنا رہا ہے مجھے
ایک رشتہ مٹا رہا ہے مجھے
ایک دریا جو اُلٹا بہتا ہے
ساتھ اپنے بہا رہا ہے مجھے
جیسے میں ریت کا گھروندا تھی
توڑ کر پھر بنا رہا ہے مجھے
یہ دستک اور یہ در میرا نہیں ہے
اب اس بستی میں گھر میرا نہیں
میں کس بارود میں بکھری پڑی ہوں
یہ دھڑ میرا ہے سر میرا نہیں ہے
مجھے میرے حوالے کر گیا ہے
تو کیا ہے وہ اگر میرا نہیں ہے
جو میرے ساتھ چلتا جا رہا ہے
وہ سایہ ہے مگر میرا نہیں ہے
سحر یہ اور ہی دنیا ہے کوئی
یہاں کوئی بھی ڈر میرا نہیں ہے
دن ہوا اور روشنی ہی نہیں
چاند نکلا تو چاندنی ہی نہیں
بیچ جنگل میں راہ بھولی تھی
لوٹ کر گھر کبھی گئی ہی نہیں
حال اور ماضی ایک جیسے ہیں
وقت سے میری دوستی ہی نہیں
یہ سحر آئینے میں کون ہے اب
میری صورت کبھی ملی ہی نہیں
عشق کا گھاؤ جان میں رکھ کر بھول گئی
خود کو آتشدان میں رکھ کر بھول گئی
کچھ آنسو تو آنکھوں میں چُھپ جاتے ہیں
کچھ آنسومُسکان میں رکھ کر بھول گئی
کمرے میں کچھ سائے ناچتے رہتے ہیں
سورج روشن دان میں رکھ کر بھول گئی
جلتی دھوپ میں چاند کا تحفہ کیا کرتی
شاید میں دالان میں رکھ کر بھول گئی
سورج چاند بھی جا کرلوٹ ہی آتے ہیں
عمر اِسی امکان میں رکھ کر بھول گئی
پھر سر پہ شام آگئی میں راستے میں ہوں
اک اجنبی سڑک ہے کسی حادثے میں ہوں
اک گرد باد ہے مجھے حد ِ نگاہ تک
تنہا نہیں ہوں دھول بھرے قافلے میں ہوں
سو سال مجھ پہ بیتے ہیں سورج بُجھے ہوئے
سو سال جیسی رات سے میں رتجگے میں ہوں
پھر بے گھری کا خوف ہواوْں میں گھُل گیا
سات آسمان تیرے ہیں میں گھونسلے میں ہوں
پھر ہجر زندگی میں قرینے سے آ گیا
مسکان میں دبی رہی افسردگی کی لہر
وہ گلے ملتا ہے ملبوس بچا کر اپنا
زندگی کیسی کلف دار بنا لی اس نے
مجھ سے لکنت ہوئی اور بات سنبھالی اس نے
بس کبھی دیکھی نہیں آنکھ کی لالی اس نے
کر کے اسیرِ جسم سزا دی گئی مجھے
یوں عمر بھر کی قید سنا دی گئی
اوپر تلے ہیں سنگ؍ حیات اور سنگ؍ موت
چکی کے دونوں پاٹ میں جا دی گئی مجھے
“