– 12؍فروری 1893*
معروف شاعر” صفی اورنگ آبادی صاحب “ کا یومِ ولادت…
صفیؔ اورنگ آبادی، 12؍فروری 1893ء کو اورنگ آباد کے جون بازار میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام بہبود علی صدیقی تھا۔ ان کے والد حکیم محمد منیر چاہتے تھے کہ صافی یونانی طب بن جائیں لیکن انہوں نے تعلیم کو وسط سے ہی چھوڑ دیا اور کچھ خدمات میں شامل ہوگئے۔ صفی نے متعدد نوکریاں کیں اور آخر کار تمام ملازمتیں چھوڑ گئیں اور اپنے شاگردوں کے ذریعہ اس کی مدد پر زندگی گزارنا شروع کردیا۔ وہ ساری زندگی غیر شادی شدہ رہے۔ ان کی شاعری کا عنوان "پراگندہ" ان کے شاگرد خواجہ شوق نے 1965ء میں شائع کیا تھا۔ 21؍مارچ 1954ء کو حیدرآباد میں ان کا انتقال ہوگیا۔
✦•─┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر صفیؔ اورنگ آبادی کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین…
دل جب سے دردِ عشق کے قابل نہیں رہا
اک ناگوار چیز ہے اب دل نہیں رہا
وہ میں نہیں رہا وہ مرا دل نہیں رہا
اب ان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا
کیا التجائے دید کروں دیکھتا ہوں میں
آئینہ بھی ہمیشہ مقابل نہیں رہا
اب وہ خفا ہوئے ہیں تو یوں بھی ہے اک خوشی
مرنا ہمارے واسطے مشکل نہیں رہا
دنیا غرض کی رہ گئی اب اس سے کیا غرض
چلئے کہ لطف شرکت محفل نہیں رہا
سن سن کے اہل عشق و محبت کے واقعات
دنیا کا کوئی کام بھی مشکل نہیں رہا
دنیا کے نیک و بد پہ مری رائے کچھ نہیں
اب تک ادھر خیال ہی مائل نہیں رہا
مجھ سے نہ پوچھو حسرت آرائش جمال
آئینہ بن کے ان کے مقابل نہیں رہا
اک ناامید کے لئے اتنا نہ سوچئے
آزردہ دل رہا بھی تو بے دل نہیں رہا
وہ جان لے چکیں تو کوئی ان سے پوچھ لے
اب تو کچھ اس غریب پہ فاضل نہیں رہا
آیا نہ خواب میں بھی کبھی غیر کا خیال
غفلت میں بھی میں آپ سے غافل نہیں رہا
بے بندگی بھی اس کی رہی بندہ پروری
ملتا رہا اگرچہ میں سائل نہیں رہا
وہ ہاتھ ہیں صفیؔ مجھے اک آستیں کا سانپ
گردن میں دوست کے جو حمائل نہیں رہا
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
کسی دن تو ہمارا دردِ دل سوزِ جگر دیکھو
کبھی تو بھول کر آؤ کبھی تو پوچھ کر دیکھو
نہ دیکھو دوست بن کر تم تو دشمن کی نظر دیکھو
خفا ہو کر بگڑ کر روٹھ کر دیکھو مگر دیکھو
نہیں بھرتی طبیعت لاکھ دیکھو عمر بھر دیکھو
خدا کی شان ہے ایسے بھی ہوتے ہیں بشر دیکھو
کسی کو جب سے دیکھا ہے دکھائی کچھ نہیں دیتا
ہوئی میری نظر کو دوستو کس کی نظر دیکھو
ترستی ہیں یہ آنکھیں دیکھنے کو دل تڑپتا ہے
زیادہ سے زیادہ مختصر سے مختصر دیکھو
مقدر سے نبھی تم ایک گویا بھولے بھالے تھے
کوئی ظالم سے ظالم فتنہ گر سے فتنہ گر دیکھو
کہی ہیں ہم نشینو دل لگی میں تم نے جو باتیں
انہیں سچ مچ پہنچ جائے نہ یہ جھوٹی خبر دیکھو
پھر اس پر نکتہ چیں ہے نکتہ داں ہے شیخ لوگوں میں
اناڑی پڑھ رہا ہے دخت رز کو دخت زر دیکھو
کوئی بیتاب کوئی مست کوئی چپ کوئی حیراں
تری محفل میں گویا اک تماشا ہے جدھر دیکھو
تمہاری بزم بات انسانیت کی پھر رقیبوں میں
بھرے ہیں آدمی کی صورتوں کے جانور دیکھو
نہ ہو جو بندہ پرور بندگی کو بندگی اس کی
جناب دل خدا رزاق کوئی اور گھر دیکھو
نہیں از روئے قانون محبت جرم نظارہ
تو پھر کیوں ہیں جناب دل اگر دیکھو مگر دیکھو
اسے دیکھا ہے جس کے دیکھنے کو لوگ مرتے ہیں
نظر بازو ہماری بھی ذرا حد نظر دیکھو
صفیؔ کو شاعری سے مل گئی ہر دل عزیزی بھی
دروغِ مصلحت آمیز بھی ہے کیا ہنر دیکھو
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
صفیؔ اورنگ آبادی