چہرے پہ گرد راہ بھی باقی نہیں رہی
مجھ سے مرا ثبوت سفر کون لے گیا
آج ۳ دسمبر کو صبح ساڑھے سات بجے ناظر بھائی بھی باب گم کی طرف کوچ کر گئے ۔قالواناللہ للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ اپنے پیچھے اپناآیک بھرا پڑا خاندان ہی نہیں شہر کی بہت سی شعری ادبی محفلوں کو بھی سوگوار چھوڑ گئے ۔ تقریبا٘ ساٹھ پینسٹھ سال تک ملکی اور مقامی سطح پر عوآمی اور خصوصی مشاعروں کو اپنے کلام اور اپنی دلچسپ نظامت سے پروقار والے الحاج ناظر صدیقی کا تعلق شاعروں کے اس گروپ سے رہا جو نشور واحد ، فنا نظامی ،ساغر خیامی، ساغر اعظمی، بیکل اتساہی ، ملک زآدہ منظور احمد ،آنور جلال پوری اور بشیر بدر جیسے شعراء سے جگمگا رہا تھا ۔ وہ بسلسلہء ملازمت یوپی میں جہاں گئے وہاں انھوں نے ملک بھر کے شاعروں کو جمع کرلیا ۔ کانپور کی بہت سی معروف تنظیموں کی داغ بیل انھوں نے ڈالی اور اس کے ذریعہ اردو زبان اور اس کے رسم الخط کا تحفظ میں اپنی حصہ داری درج کرائی ۔ان کا گھر شاعروں اور ادیبوں کے لئے ہمیشہ وا رہا، ان کی تقریبا٘ ایک درجن کتابوں میں سنگ احساس ، دشت احساس اور آئینہء احساس جیسے شعری مجموعوں کےعلاوہ کانپور کے،نعت گو شعراء کا انتخاب ، تذکرہ شعراء کانپور وغیرہ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔وہ اگرچہ عمر کی آٹھ دہائیاں پار کرچکے تھے لیکن میدان عمل میں پوری طرح فعال تھے ۔ ان کا محبت بھرا انداز اور احباب کے تئیں ان خلوص اور والہانہ پن ہمیشہ ان کے چاہنے والوں کو سوگوار رکھے گا
۔
کوئی پیکر نہ میں انمول تراشوں جب تک
تیشہء فکر مرے دشت ہنر میں رہنا
کون لے جاتا ہے،سالم آئینہ احساس کا
اس بھرے بازار میں کب راستہ دیتے ہیں لوگ