آج – ١٥ مئی ١٩١٥
نئی غزل کے اہم شاعروں میں ایک، نظم، نثر نگار اور معروف شاعر” خورشید احمد جامی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام خورشید احمد جامی ہے ۔ جامی کی پیدائش ۱۵ مئی ۱۹۱۵ء میں حیدرآباد میں ہوئی ۔ ان کا خاندان مہاراشٹر کا تھا لیکن ان کے نانا قاضی احمد فہیم حیدر آباد چلے آئے اور وکالت کرنے لگے اورحیدر آباد ہی کو اپنا مستقر بنا لیا ۔ جامی کے والد کا انتقال ان کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا اس لئے بہت جلدی معاشی مشکلات میں گھر گئے ۔ پنجاب یونیورسٹی سے فاضل کی سند حاصل کی اور روزگار کی تلاش شروع کردی ۔ کچھ عرصے تک محکمہ آبکاری میں ملازمت کی پھر طبعی مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے مستعفی ہوگئے ۔
جامی کی شاعری اپنے ڈکشن اور اپنے موضوعات کے حوالے سے اپنی انفرادی شناخت رکھتی ہے ۔ ان کی شاعری نے اردو میں نئی غزل کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ جامی کی غزل اپنے عہد کے مسائل اور اردگرد بکھری ہوئی تلخ حقیقتوں کو تخلیقی انداز میں پیش کرتی ہے ۔ جامی کے شعری مجموعے ’رُخسارِ سحر ‘ اور ’یاد کی خوشبو‘ بہت مقبول ہوئے۔
جامی نے بچوں کیلئے بھی نثر اور نظم دونوں صورتوں میں لکھا ۔ بچوں کیلئے لکھی گئی ان کی نظمیں ’تاروں کی دنیا‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں ۔
۱۹۷۰ میں ان کا انتقال ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر خورشید احمد جامی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
بڑے دلچسپ وعدے تھے بڑے رنگین دھوکے تھے
گلوں کی آرزو میں زندگی شعلے اٹھا لائی
—
اے انتظارِ صبحِ تمنا یہ کیا ہوا
آتا ہے اب خیال بھی تیرا تھکا ہوا
—
چمکتے خواب ملتے ہیں مہکتے پیار ملتے ہیں
تمہارے شہر میں کتنے حسیں آزار ملتے ہیں
—
جلاؤ غم کے دئے پیار کی نگاہوں میں
کہ تیرگی ہے بہت زندگی کی راہوں میں
—
کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صدا ہے کوئی
دل کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہے کوئی
—
کچھ دور آؤ موت کے ہم راہ بھی چلیں
ممکن ہے راستے میں کہیں زندگی ملے
—
نہ انتظار نہ آہیں نہ بھیگتی راتیں
خبر نہ تھی کہ تجھے اس طرح بھلا دوں گا
—
پہچان بھی سکی نہ مری زندگی مجھے
اتنی روا روی میں کہیں سامنا ہوا
—
سحر کے ساتھ چلے روشنی کے ساتھ چلے
تمام عمر کسی اجنبی کے ساتھ چلے
—
سلام تیری مروت کو مہربانی کو
ملا اک اور نیا سلسلہ کہانی کو
—
تری نگاہ مداوا نہ بن سکی جن کا
تری تلاش میں ایسے بھی زخم کھائے ہیں
—
وفا کی پیار کی غم کی کہانیاں لکھ کر
سحر کے ہاتھ میں دل کی کتاب دیتا ہوں
—
یادِ ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں
میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی
—
یادوں کے درختوں کی حسیں چھاؤں میں جیسے
آتا ہے کوئی شخص بہت دور سے چل کے
خورشید احمد جامی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ