آباد نگر میں رہتا تھا اور اجڑی غزلیں کہتا تھا
کچھ نام بھی شایدتھااسکایادآیا اسلم کولسری
اسلم کولسری اوکاڑہ کے نواحی گاؤں کولسر کے رہنے والے تھے۔ یہ اس علاقے میں تھا جس پر اوکاڑہ کینٹ بنی اور اس گاؤں کا وجود ہی ختم ہوگیا۔ مگر اسلم کولسری کے دس مجموعے اس گاؤں کی یاد سے معطر ہیں۔
اسلم کولسری روزنامہ مشرق میں ہوتے تھے جب ان سے ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ ایک خاموش طبع بھلا مانس، جس پر پمیشہ ایک اداسی طاری دیکھی۔ میگزین سیکشن میں جہاں اورنگ زیب ، حسن رضا خاں ، رؤف ظفر جیسے زندہ دل لوگ بیٹھتے تھے۔ بڑی سے بڑی قہقہہ آور بات پر بھی ان کے لبوں پر بس ایک ہلکی سی مسکراہٹ کی جھلک نظر آتی۔
پھر وہ اردو سائینس بورڈ میں چلے گئے تو ، رہائش بھی اسی طرف کرلی۔ یوں ملاقات کبھی کبھار ہونے لگی۔ لیکن جب ملے نئے مجموعے کا تحفہ ضرور ملا۔
پھر انہیں اولاد کا دکھ برداشت کرنا پڑا، اس وقت کہے ان کے یہ شعر صاحبِ اولاد کا کلیجہ چیر دیتے ہیں
سورج سرِ مژگاں ہے اندھیرے نہیں جاتے
ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے
تو جانب صحرائے عدم چل دیا تنہا
بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے
جو پھول سجانا تھے مجھے تیری جبیں پر
بھیگی ہوئی مٹی پہ بکھیرے نہیں جاتے
بانو قدسیہ نے بالکل درست لکھا تھا ۔۔۔۔۔
اسلم کولسری لوگوں سے کٹا ہوا، ہاتھ ملتا ، بجھا ہوا روہانسا شاعر ہے۔ وہ دو قدم آگے چل کر میلوں پیچھے بھاگ جانے والا ، تعریف اور شہرت کا آرزو مند ہو کر بھی گم نامی کے سہارے جینے کا خواب دیکھتا ہے۔ عید کے روز دروازہ مقفل کر کے سوجانے والا اسلم کولسری دراصل اندر ایک آوارہ تنکے کی صورت عمر گزار رہا ہے۔ اسلم کولسری محنت مزدوری، شکاری خواب،محبت ، صبر، دعا سب مرحلوں سے گزر چکا ہے۔ اور ان ساری کڑی دھوپ سی کیفیتوں کے سائے اس کی شاعری پر پڑے ہیں۔
اسلم کولسری یکم اگست 1946 کو پیدا ہوئے اور 7 نومبر 2016 کو رخصت ہوگئے.
نمونۂ کلام ۔۔۔
میں جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
اسلمؔ بڑے وقار سے ڈگری وصول کی
اور اس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئیے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا
صرف میرے لیے نہیں رہنا
تم مرے بعد بھی حسیں رہنا
قریب آ کے بھی اک شخص ہو سکا نہ مرا
یہی ہے میری حقیقت یہی فسانہ مرا
ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں
بچھڑ کے ہم نے کئی رات دن گزارے ہیں
کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گل
یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا دیا
جب میں اس کے گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا
مجھ کو تو نوکری نے بچا ہی لیا مگر
سینے میں ایک پھول سا فنکار مر گیا
جانے کس لمحۂ وحشی کی طلب ہے کہ فلک
دیکھنا چاہے مرے شہر کو جنگل کر کے
شہر نے پھر سے ایک گاؤں پر
ایک کالی کمند پھینکی ہے
لوگ پکی سڑک کہتے ہیں
تو بھی تو کو ئی غیر نہیں غم گسار ہے
تھوڑی سی خاک تو بھی میرے سر میں ڈال دے
کردار یوسفی کا صلہ یوں ملا مجھے
ہر یار غم گسار میرا بھائی بن گیا
نوحہ
بنسری توڑ دی گڈرئیے نے
اور چپکے سے شہر میں جا کر
کارخانے میں نوکری کر لی
آنکھوں کے گل رنگ چمن میں اتری ہے برسات، غزل کی رات
آج تو جیسے قطروں میں تقسیم ہوئی ہے ذات، غزل کی رات
ہر صبح زندگی نئے اخبار کی طرح
میرے نحیف جسم کو دفتر میں پھینک دے
وقت نے کیا کیا مقدس روپ گھائل کر دیے
چاندنی،برکھا،پون،گاگر،ندی، ہمجولیاں
دیدہ بے خواب کے بھیگے ہوئے اصرار پر
میں ترے لہجے کی سختی بھی گوارا کر گیا
تتلیوں کی جستجو میں گھر سے نکلا تھا مگر
جھاڑیوں میں اڑ رہی تھیں سنسناتی گولیاں
مسائل کے ابلتے پانیوں میں
جوانی کا جزیرہ جل رہا ہے
جوانی عارضی شے ہے جوانی
کسی مفلس کی بیماری نہیں ہے
رستے زخموں سے ڈھانپ رکھا ہے
جسم با ر قبا نہیں سہتا
دامان کوہسار میں اک جھیل دیکھ کر
جلتا ہو ا جہاز فضا میں ٹھہر گیا
مسئلوں کی جھاڑیوں میں پھنس گیا
خواہش دیدار کا زخمی ہرن
سارا پانی چھاگلوں سے آبلوں میں آ گیا
چلچلاتی دھوپ کے جلتے ہوئے اصرار پر
تیرے نام کی خوشبو شامل کر لیتا ہوں
خالی سانس تو سینے میں کنکر لگتا ہے
شرافت ؟ میں نہیں سمجھا
پرانی بات ہے شاید
تارا سا بکھرتا ہے آکاش سے یا کوئی
ٹہھرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارہ سا
میں نے کرنوں سے نچوڑی تھی ذرا سی روشنی
اور میرے ہاتھ کیا حالات چھلنی ہو گئے
منصوبہ سفر ہی بڑا جاں گداز تھا
بیٹھے بٹھائے تھک کے ہوئے چوُرچوُر ہم
حسرتوں کی اداس بستی میں
مستعد مسئلوں کا پہرا ہے
ہاں اسی رستے پہ ہے شہر نگار آرزو
آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر
ایک باسی نان کے ٹکڑے پہ آخر بک گئی
سانولی مالن کے تازہ پھول بکتے ہی نہ تھے
لاش کے پہلو سے چوری ہو گئے
ایک ٹوٹی سائیکل خالی ٹفن
تو کیا جانے
ڈھل گئی رات پھر دسمبر کی
شیلف میں سو گئیں کتابیں تک
ایک تیر ا خیال روشن ہے
کیا گئے تم
کیا گئے تم کہ پھرنہیں گذرا
میرے ویران گھر کے اوپر سے
قافلہ د ودھیا چراغوں کا
دنیا
قطرۂ آب آب میں خرم
ذرۂ خاک خاک میں رقصاں
آدمی اپنے شہر میں تنہا
دل دریا
صلح کے زمانے میں
مجھ کو ایسا لگتا ہے
وہ اگر بچھڑ جائے
صرف اتنا دکھ ہو گا
جتنا آنکھ کھلنے پر
خواب ٹوٹ جانے کا
پر عجب تماشا ہے
وہ اگر کبھی مجھ سے
یونہی روٹھ جاتی ہے
کائنات کی ہر شے
ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔
ابھی کہتاہوں میں تازہ غزل بھی
ابھی تو زہر کا ساغر پیا ہے
پرو کر دیکھ لو کانٹے میں جگنو
کوئی اس شہر میں یوں بھی جیا ہے
اب کہاں تک کہو ، تمہی کوئی
ٹوٹ کے بنتا ، ٹوٹتا بن کر
بہت مشکل ہے کچھ کہنا یقیں سے
چمکتے ہیں کہ تارے کانپتے ہیں
ذرا سی بات ہے لیکن ذرا نہیں کھلتی
کبھی نہ ساتھ رہا جو کبھی کا چھوڑ گیا
نہیں کھلتا پریشانی کا باعث
اسی باعث پریشانی بہت ہے
یوں تو چار قدم پر میری منز ل تھی
لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا
ایک انوکھا سپنا دیکھا نیند اڑی
آنکھیں ملتے ملتے جیون بیت گیا
شام ڈھلے اس کو ندیا پر آنا تھا
سورج ڈھلتے ڈھلتے جیون بیت گیا
دیوانی سی دیوانی ہے اندھی بڑھیا
زخمی ہاتھ سے کار کا شیشہ صاف کیا ہے
بچھڑ گئے ہو تو اے دوست لوح دل سے مجھے
کچھ اس طرح سے مٹانا کمال کر دینا
جذبے کی ہر کونپل پر
آگ لگی مجبوری کی
شاعری کے مہکتے زخموں پر
ہوشمندوں نے زہر چھڑکاہے
اہل دانش نے جہاں خار بچھائے دن بھر
شام کے بعد وہیں رقص ہے دیوانے کا
دل و نگاہ کے سب رابطے ہی توڑ گیا
وہ میرے ہوش کو دیوانگی سے جوڑ گیا
سلگنا ، مسکرانا ، شعر کہنا، راکھ ہونا
بہت معصوم ہوتے ہیں محبت کرنے والے
من کی مانگ ہی کیا تھی مولا
پیتم، پیڑ، پرندے، پانی
روشن یادوں کے جھرمٹ میں دل زندہ ہے اس طرح جیسے
لالٹین کی چمنی میں ہو بند پتنگا جیسے
ہنوز سینے کی چھوٹی سی قبر خالی ہے
اگرچہ اس میں جنازے کئی اتارے ہیں
اسلم عربی مادے سلم سے نکلا ہے جس کے معنیٰ مکمل یا سالم ہوتے ہیں۔ دیکھیں ایک حمد میں انہوں نے اپنے نام کو کیسے استعمال کیا ہے:
ریزہ ریزہ ہونے پر بھی
اسلم کہلاتا ہوں سائیں
“