اپنی دھرتی اپنے لوگ
معروف صحافی،شاعر، ادیب و دانشور استادیم حبیب الرحمٰن مڑل 16 مئی 1954ء کو اپنے والد حاجی عبد الحق مڑل کے ہاں اللہ آباد (تحصیل لیاقت پور) میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے اپنی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول اللہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔
حبیب الرحمٰن مڑل زمانہ طالب علمی سے ہی ادب کی طرف راغب ہوئے۔ نسیم حجازی سے غلام جیلانی برق تک اور رئیس احمد جعفری سے مولانا مودودی تک کی کتب سے استفادہ حاصل کیا اور فسانہ عجائب سے الف لیلہ تک کے نثری ادب،ہیر وارث شاہ سے مولوی لطف علی کی سیفل نامہ، غالب و اقبال سے محسن نقوی تک کے قدیم و جدید شعراء اور شاعرات کے منظوم کلام سے بھی وہ مستفید ہوئے۔
انہوں نے 1980ء میں باقاعدہ اردو و سرائیکی زبان میں شاعری شروع کی اور معروف شاعر،ادیب و دانشور سید ضیاء الدین نعیم کو اپنا استاد سخن بنایا اور انہی کی رہنمائی اور ممتاز عالم دین شاعر و ادیب علامہ محمد بشیر اختر کی سرپرستی میں وہ اللہ آباد کی متعدد ادبی تنظیموں میں فروغِ ادب کے لئے اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔
حبیب الرحمٰن مڑل ادبی نظریات کے حامل تھے وہ کہا کرتے تھے کہ شاعر مصور فطرت ہونے کے ناطے سے اپنی شاعری میں عشق و حسن اور گل و بلبل کے تذکرے کے ساتھ ساتھ انسانیت کو در پیش مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے بھی شعر کہے۔ انہوں نے وطن عزیز، جشنِ آزادی،بھوک،عہد آمر، الیکشن،عید ، مدرسے کے طلباء اور بوٹ پالش کرنے والے بچوں کے متعلق نظمیں تخلیق کرکے اپنے نظریے کو سچ ثابت کیا۔
حبیب الرحمٰن مڑل بابائے صحافت کے نام سے اپنی پہچان رکھتے تھے انہوں نے تحصیل ہیڈکوارٹرز لیاقت پور میں اپنے دیگر صحافی ساتھیوں کے ہمراہ پریس کلب (رجسٹرڈ) لیاقت پور کی بنیاد رکھی اور مختلف قومی و علاقائی اخبارات کے ذریعے تا دمِ آخر اپنی صحافتی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ تحصیل لیاقت پور کے اکثر صحافی انہیں اپنا استاد مانتے تھے اور ان سے سیکھنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے۔
حبیب الرحمٰن مڑل ادبی تنظیم ” دائرہ ادب ” اللہ آباد کے صدر اور لیاقت پور کی معروف ادبی تنظیم ” بزمِ احساس ” لیاقت پور کے جنرل سیکرٹری رہے۔ انہوں نے اللہ آباد اور لیاقت پور میں ادبی نشستوں اور مشاعروں کے انعقاد میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا۔
ماضی میں پریس کلب (ر) لیاقت پور کے زیرِ اہتمام جناح ہال میں منعقدہ مشاعرہ جس میں ملک کے معروف شعراء و شاعرات نوشی گیلانی (Noshi Gilani) ڈاکٹر نصر اللہ خان ناصر،سید ضیاء الدین نعیم (Syed Ziauddin Naeem)صابرہ شاہین ڈیروی (Sabira Shaheen Dervi)شاکر شجاع آبادی و دیگر نے شرکت کی تھی وہ مشاعرہ انہی کی ادب پروری کا نتیجہ تھا جسے لیاقت پور کے سخن فہم آج بھی یاد کرتے ہیں۔
حبیب الرحمٰن مڑل نے 1985ء میں لیاقت پور کی تاریخ و ثقافت، ادب اور شخصیات پر مشتمل تصنیف ” آئینہ لیاقت پور ” شائع کی۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنے پیر و مرشد گراں قدر مصنف و محقق حضرت کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت پر تصنیف ” پیام واحد ” اور اللہ آباد ہی کے معروف روحانی بزرگ حضرت سید محمد عبداللہ شاہ گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت پر تصنیف ” ذکر درویش ” تحریر کی جو تا دمِ تحریر شائع نہیں ہو سکیں جبکہ ان کا اپنا شعری مجموعہ ” میرے دل کی کرچیاں ” بھی کمپوز ہو چکا ہے تاہم ابھی اشاعت کا منتظر ہے۔
ان کی نثری تخلیقات اور شاعری مختلف ادبی کتابوں اور مجلہ جات غزل آفرینی، جدید غزلیں، ادبی جائزہ،بانگ سحر،نالہ دل، اور ماہنامہ پرواز (لندن) کے علاوہ کئی قومی و علاقائی اخبارات میں شائع ہو چکی ہے۔
حمد،نعت،منقبت،غزل،نظم،قطعہ، رباعی اور مرثیہ پر مشتمل حبیب الرحمٰن مڑل کا غیر مطبوعہ شعری مجموعہ رومانویت، مزاحمت، حقیقت پسندی اور مناظر فطرت سے مزین ہے۔
حبیب الرحمٰن مڑل نے 09 مئی2017ء کو وفات پائی تو انہیں ان کے آبائی قبرستان کوٹلہ درگھ میں سپردِ خاک کیا گیا۔
ان کے غیر مطبوعہ شعری مجموعے ‘میرے دل کی کرچیاں ” سے ایک اردو اور ایک سرائیکی غزل ملاحظہ کیجئے
وہ اپنی جفا اور بڑھا کیوں نہیں دیتے
یہ آگ مرے دل کی بجھا کیوں نہیں دیتے
کیا ہے جو نہیں آئے وہ پرسش پہ تمہاری
خود جا کے زبوں حال دکھا کیوں نہیں دیتے
انصاف کا کیوں ان سے تقاضا نہیں تم کو
ہاں عدل کی زنجیر ہلا کیوں نہیں دیتے
وہ باد صبا ہیں تو خزاں پوش چمن میں
اک پھول تبسم کا کھلا کیوں نہیں دیتے
وہ دل کے غنی ہیں تو مرا ظرف بھی دیکھیں
اک کوہ الم اور گرا کیوں نہیں دیتے
اے اہلِ جہاں تنگ ہو گر میری فغاں سے
پھر زہر پی تم مجھ کو پلا کیوں نہیں دیتے
وہ اپنے تغافل پہ اگر اب ہیں نازاں
انجام تکبر کا بتا کیوں نہیں دیتے
سنتے ہیں شفا رکھتے ہیں وہ ہاتھ میں اپنے
بیمار محبت کو دوا کیوں نہیں دیتے
کچھ دیر چراغاں ہی رہے شہر میں اپنے
تم اپنے نشیمن کو جلا کیوں نہیں دیتے
چھوڑو بھی حبیب ان کی جفاؤں پہ سسکنا
تم بڑھ کے ستم گر کو دعا کیوں نہیں دیتے
___________
محرومی دے درد دا دل کوں روگ اولا لگے
پارت، رشوت ، سازش ہر جا لاتی ودن وگے
اکثر حاکم بے تھتھے ہن راہبر کئی بد نیتے
ضدی حرصی کوڑے مل گن سکھ دے چارے لگے
پنجھا روپیہ سارا ملدس پگھر خون وہا تے
ڈاہ بندیں دے ٹبر وچ کیا دھڑی اٹا تگے
ہک آلس بئی بد لکھنڑئی دی ہے نحوست چندری
حق منگدوں نہ سر چیندوں کیا سیت دا موسم پھگے
ویلھا ہے پیا اکھیں کھولو غاصب گول نکھیڑو
شکریں وانگ اشاک رہو کوئی ٹھگ حبیب نہ سگے
۔۔۔۔۔