آج – ١٩ ؍مئی ؍ ١٩٤٢
معروف پاکستانی شاعر” خورشیدؔ رضوی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام محمد خورشید الحسن رضوی اور تخلص خورشیدؔ ہے۔ ۱۹؍مئی ۱۹۴۲ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔گورنمنٹ کالج، سرگودھا کے شعبۂ عربی کے استاد رہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’رائگاں‘‘، ’’شاخ تنہا‘‘، ’’سرابوں کے صدف‘‘ (شعری مجموعے)، ’’تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام‘‘، ’’خاکے، مضامین، ترجمے‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:359
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر خورشیدؔ رضوی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
آساں تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا
—
اب سے پہلے وہ مری ذات پہ طاری تو نہ تھا
دل میں رہتا تھا مگر خون میں جاری تو نہ تھا
—
عکس نے میرے رلایا ہے مجھے
کوئی اپنا نظر آیا ہے مجھے
—
بہت سے روگ دعا مانگنے سے جاتے ہیں
یہ بات خوگر رسمِ دوا سے کون کہے
—
ہیں مری راہ کا پتھر مری آنکھوں کا حجاب
زخم باہر کے جو اندر نہیں جانے دیتے
—
ہم کہ اپنی راہ کا پتھر سمجھتے ہیں اسے
ہم سے جانے کس لیے دنیا نہ ٹھکرائی گئی
—
اس اعتراف سے رس گھل رہا ہے کانوں میں
وہ اعتراف جو اس نے ابھی کیا بھی نہیں
—
جو شخص نہ رویا تھا تپتی ہوئی راہوں میں
دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا
—
موت کی ایک علامت ہے اگر دیکھا جائے
روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا
—
مجھے بھی اپنا دل رفتہ یاد آتا ہے
کبھی کبھی کسی بازار سے گزرتے ہوئے
—
پلٹ کر اشک سوئے چشمِ تر آتا نہیں ہے
یہ وہ بھٹکا مسافر ہے جو گھر آتا نہیں ہے
—
یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے
سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ دو
—
تمہاری بزم سے تنہا نہیں اٹھا خورشیدؔ
ہجومِ درد کا اک قافلہ رکاب میں تھا
—
تو مجھے بنتے بگڑتے ہوئے اب غور سے دیکھ
وقت کل چاک پہ رہنے دے نہ رہنے دے مجھے
—
خورشیدؔ اب کہاں ہے کسی کو پتا نہیں
گزرا تو تھا کسی کا پتا پوچھتا ہوا
خورشیدؔ رضوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ