(Last Updated On: )
شفیق الرحمن 9 نومبر 1920 کو کلانور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ شفیق الرحمن کے والد کا نام عبد الرحمن تھا۔ انہوں نے ایم بی بی ایس (پنجاب) ڈی پی ایچ (اڈنبرا۔ برطانیہ) ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ (لندن) فیلو آف فریشنز اینڈ سرجنز (پاکستان) سے حاصل کیں۔ 1942ء میں جامعہ پنجاب کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا۔
آزادی کے بعد پاکستان آرمی کی طرف سے ایڈنبرا اور لندن یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بھیج دیا گیا۔ دو برس انگلینڈ میں قیام کے دوران انہوں نے ڈی پی ایچ کے ڈپلومہ کورس مکمل کیے
زمانہ طالب علمی کے دوران کنگ ایڈورڈ کالج لاہور کے ادبی مجلہ کے ایڈیٹر رہے۔ یہ زمانہ 1941ء سے 1942ء تک کے عرصہ پر محیط ہے۔ لڑکپن اور جوانی میں سیر و سیاحت، کرکٹ باکسنگ اور تیراکی میں جنون کی حد تک دلچسپی رہی جبکہ کارٹون نگاری، مصوری اور فوٹوگرافی کے خبط اس کے علاوہ تھے۔
1942ء میں ساڑھے اکیس برس کی عمر میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد میو ہسپتال لاہور میں چند ماہ ہاوس سرجن رہے اور اسی سال انڈین میڈیکل سروس میں چلے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں مختلف محاذوں پر ملازمت کرنے اور کئی ممالک کی سیر کرنے کا موقع ملا۔
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد آپ کو بری سے بحری فوج میں منتقل کر دیا گیا جہاں سے ستمبر 1979ء میں سرجن ریرایڈمرل کی رینک سے بطور ڈائریکٹر میڈیکل سروسز ریٹائر ہوئے۔
دسمبر 1980ء میں آپ کو اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا جہاں سے مدت ملازمت کے ختم ہونے پر راولپنڈی میں ریٹائرڈ زندگی گزاری۔
شفیق الرحمن کے فن اور شخصیت پر یوسف ساجد کے تحقیقی کام کو ایم۔ فل۔ کی سند جامعہ عثمانیہ حیدرآباد (ہند) نے تفویض کی ہے۔
شفیق الرحمن نے ریٹائر زندگی (فارغ خدمت) کے آخری کئی سال گوشہ نشینی میں گزارے۔ ان کے تین بیٹے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا بینک میں ملازم رہا جبکہ درمیان والے نے خود کُشی کر لی تھی۔ چھوٹے بیٹے کی آنکھ میں پچھلے حصے میں بندوق کا چھرہ لگ گیا تھا جس سے ان کی آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی۔ شفیق الرحمن 19 مارچ 2000ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
شفیق الرحمن مزاجاً ایک رومانوی افسانہ نگار ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے پہلے افسانوی مجموعے کرنیں کا دیباچہ حجاب امتیاز علی نے لکھا۔ اس مجموعہ میں اُس عہد کے ناآسودہ ذہن کی تسکین کے تمام مطلوبہ اجزا ہیں، دراز قدر خوبصورت ہیرو جو حسِ مزاح بھی رکھتا ہے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی نمایاں ہے۔ اسی طرح اُس کی نسائی ہمزاد جو داستانوں سے نکل کر افسانے کی دنیا میں آئی تھی، اگر دونوں کے وصال کے بیچ میں کوئی اڑچن نکل آئے تو پھر یا رقیب وسعت قلب سے کام لیتا ہے اور یا پھر ہیرو یا ہیروئن اپنی اداس یادوں کے ذریعے اس محرومی کو عمر کا سرمایہ بنا لیتی ہے۔
’’میں نے ایک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا سنی تھی ۔۔۔۔ ایسے شخص کی زبانی جس کی تمناؤں کے کھنڈر پر میں نے اپنی امیدوں کے محل کی بنیاد رکھنی چاہی۔ چنانچہ صبح تک میں نے فیصلہ کر لیا کہ میرا چلا جانا ہی بہتر ہے‘‘(گرمی کی چھٹیاں ؛ کرنیں ص104)
’’اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بچھڑی ہوئی بے چین روح سکون کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی ہے‘‘(وسعت ؛ کرنیں ص: 151)
دوسرے مجموعے شگوفے میں بھی کرداروں کی دل برداشتگی اور پھر بکھرنے کے حوالے سے بڑا جذباتی مگر مقبول پیرائیہ اظہار ہے۔ البتہ اس مجموعے کے ایک افسانے، ساڑھے چھ میں شفیق الرحمن کا وہ کردار ’’شیطان‘‘ متعارف ہوتا ہے جو بعد میں ان کے افسانوں اور مزاحیہ مضامین کا مستقل کردار بن گیا۔ یہی نہیں بلکہ اس مجموعہ ’’شیطان‘‘ کے نام سے اسی کردار کے بارے میں ایک افسانہ بھی شامل ہے۔ یہ دونوں مجموعے ایک برس کے وقفے کے ساتھ ہی شائع ہوئے تھے اس لیے اسلوب میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہے۔
اتفاق سے تیسرا مجموعہ مدو جزر بھی دوسرے مجموعہ کی اشاعت کے ایک برس بعد شائع ہوا مگر اس میں مدوجزر کے نام کا ہی افسانہ ایک ایسے تخلیق کار سے متعارف کرواتا ہے جو صرف انشاپردازی اور رومانوی فارمولے کے بل پر ہی افسانہ نہیں لکھ رہا بلکہ اب اس کی توجہ کرداروں کے داخلی تلاطم پر بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ فطرت پس منظر کے طور پر استعمال نہیں ہوتی بلکہ ایک دم ساز کے طور پر آتی ہے اور زندگی کے بارے میں بعض فلسفیانہ خیالات بھی محسوسات کے راستے پروان چڑھتے ہیں۔
چوتھا مجموعہ ’’پچھتاوے‘‘ بھی قیام پاکستان سے پہلے شائع ہوا، اس میں عمومی اسلوب رومانی ہے، مگر اب کرداروں کے پس منظر میں صرف مناظر فطرت نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اور یہ تو ’’لہریں‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی محسوس ہوا تھا کہ اب رومان کے بطن سے ایک ایسا مزاح نگار بھی طلوع ہو رہا ہے جسے بعد میں شاید ایک مزاح نگار کے طور پر زیادہ بڑا حوالہ بننا تھا۔ خاص طور پر اس میں شامل اُن کا افسانہ ’’زیادتی‘‘ مزاحیہ رنگ لیے ہوئے ہے۔
“دجلہ” ان کا ناولٹ ہے، جس سے انھیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی، دوسرے یہ ناولٹ سی ایس ایس کے نصاب میں شامل ہو گیا، چنانچہ پاکستان کی مقتدر کلاس میں شمولیت کے لیے بھی کسی بھی مہذب شخص کے لیے اس افسانے کے بارے میں گفتگو کرنا لازمی ہو گیا۔ حالانکہ قراۃ العین حیدر اور محمود نظامی کی تحریروں کے سائے میں اس کی الگ سی شناخت آسان نہیں۔
تصانیف
افسانوی مجموعے
کرنیں
شگوفے
لہریں
مدوجزر
پرواز
پچھتاوے
حماقتیں
مزید حماقتیں
دیگ تصانیف یہ ہیں
دجلہ (ناولٹ)
جنگ اورغذا (معاشیات)
نئے شگوفے(افسانوں کا انتخاب)
معاشرہ اور ذہنی صحت (ترجمہ از ایلزبتھ ایم ڈاج)
میرا نام ارام ہے(ولیم سرویان کے ناول کا ترجمہ)
انسانی تماشا (ولیم سرویان کے ناول کا ترجمہ)
آپ کا آپریشن (جراحی کتابچہ کا ترجمہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ وکی پیڈیا